پانامہ کیس، جمہوریت اور تیلی کا کولہو

پانامہ کیس، جمہوریت اور تیلی کا کولہو
 پانامہ کیس، جمہوریت اور تیلی کا کولہو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آیئے! الٹی گنگا کا بہاؤ دیکھتے ہیں۔ تکلیف دہ باتوں کا مزہ لیتے ہیں، کڑوی گولی کو مشری سمجھ کے کھاتے ہیں۔ سر پیٹنے کی ضرورت نہیں، بس انجوائے کرنا ہے۔۔۔ دیکھئے تو۔۔۔ جنہوں نے اپنے دور حکومت میں پورے پانچ سال ’’موج میلے‘‘ کے سوا کچھ نہیں کیا، وہ ’’ گو نواز گو‘‘ تحریک شروع کئے ہوئے ہیں۔ نوازشریف کو صادق اور امین نہ رہنے کا ’’ سرٹیفکیٹ‘‘ وہ دے رہے ہیں جن کے پورے پانچ سال میں کرپشن کے سوا کوئی اور کہانی منظر عام پر آ ہی نہ سکی، خورشید شاہ جیسے سیاستدان بھی خاص خورد بین لئے بیٹھے ہیں اور دعویدار ہیں کہ اب نواز شریف مضبوط وزیر اعظم نہیں رہے۔ یہ وہی خورشید شاہ ہیں جو پی پی پی کے دور حکومت میں بات بات پر جمہوریت کو مضبوط کرنے پر تلے ہوئے تھے، اب نوازشریف سے استعفیٰ مانگ کر اُسی جمہوریت کے ماتھے پر کلنک لگانے کی کوششوں میں سب سے آگے ہیں۔ ’’ گو نواز گو‘‘ والے وہی ہیں جو جمہوریت اور مفاہمت کے سب سے بڑے چیمپئن ہیں۔ زمانہ جانتا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے نواز شریف کو سرخرو کیا، لیکن ’’ بد روحوں‘‘ کاکیا کیا جائے جو خود جمہوریت کے پیروں تلے سے زمین کھینچ رہی ہیں جبکہ جمہوریت کے داعی اور سرخیل ہونے کے دعویدار بھی ہیں، پی پی پی کے دور میں سپریم کورٹ آف پاکستان صدر زرداری یا وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف کچھ بھی ریمارکس دیتی تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی تھی۔ آج اگر سپریم کورٹ نے نوازشریف کو وزارت عظمیٰ کے لئے نا اہل قرار نہیں دیا تو جمہوریت ’’غیر محفوظ‘‘ ہو گئی ہے۔ واہ رے واہ ۔۔۔تیلی۔۔۔ تیرے سر پر کولہو ہی سجتا ہے۔۔۔ اُلٹی گنگا۔۔۔ اُلٹا بہاؤ۔۔۔ اُلٹے پاؤں چلتے ’’پچھل پیروں‘‘ کی سیاست۔۔۔


کوئی شک نہیں کہ پانامہ لیکس کے تاریخی فیصلہ نے جمہوریت کو مضبوط کیا ہے۔ لیکن اس خود غرضی کا کیا کیا جائے جو سیاستدان دکھا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کی نا اہلیت کے امکان کو پوری ذمہ داری سے رد کیا اور عوام کو خوشخبری بھرا سندیسہ دیا کہ اب یہاں جمہوریت کو مضبوط ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ فیصلے والے دن خوشی اس بات کی ہوئی تھی کہ عمران خان بھی اس تاریخی فیصلہ پر عوام کو مبارکباد دے رہے تھے لیکن خان صاحب نے اگلے ہی دن اپنے بیانات سے پھرنے کی عادت کو بھرپور انداز میں دھرایا۔ جے آئی ٹی کیخلاف واویلا شروع کر دیا اور وزیر اعظم سے استعفیٰ مانگ لیا۔ لاہور ہائیکورٹ بار میں بھی تحریک انصاف کا حامد خان گروپ متحرک ہوا اور لاہور ہائیکورٹ بار وزیر اعظم کیخلاف متحرک ہو گئی مگر پاکستان سپریم کورٹ بار نے حامد خان گروپ سے نہ صرف بیزاری کا اظہار کیا بلکہ اس تحریک سے اعلانِ لاتعلقی بھی کر دیا۔ پانامہ کیس کے فیصلے نے بڑے بڑوں کو سیاسی موت دی ہے، فرزندِ راولپنڈی شیخ رشید کا ’’ فالنامہ‘‘ پورے کا پورا فنا کر دیا ہے۔ پانامہ فیصلہ کے بعد شیخ رشید کو سیاست سے توبہ کر لینی چاہئے لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کا سیاست کے سوا کوئی کاروبار نہیں، ساری ’’ دال روٹی‘‘ کا دارو مدار سیاست پر ہی ہے۔ اگر وہ سیاست چھوڑتے ہیں تو متروکہ وقف املاک والی ’’ لال حویلی‘‘ بھی چھوٹ جائے گی یقیناً سیاست، لال حویلی، سگار اور ’’ فالنامہ‘‘ شیخ رشید کی کمزوری ہے یہ الگ بات کہ اب ان کے فالنامے پر زیرو پرسنٹ عوام بھی کان نہ دھریں گے اور شیخ صاحب کو ایک عدد طوطا ساتھ رکھنا پڑے گا، اس خیال کے ساتھ کہ اگر عوام ان کی پیشن گوئیوں کو نہیں مانیں گے تو کم از کم معصوم پرندے کا تو احساس ضرور کریں گے۔؟پانامہ کیس نے بہت سے ایسے ’’ قانون دان‘‘ بھی پیدا کر دیئے ہیں جن سے عوام کی جان کئی عشروں بعد چھوٹے گی۔ چودھری فواد جیسے قانون دان پلس سیاستدان بھی عوام کے پلے پڑ چکے ہیں۔ جن سے جان چھڑوانا اتنا ہی مشکل ہے جتنا عمران خان سے بنی گالہ محل جیسا تحفہ جمائمہ خان کو واپس کروانا، مگر پھر بھی عوام کو اپنے تئیں کوشش میں رہنا ہے کہ ایسی ’’ روحوں‘‘ سے بچ بچا ہی بہتر ہے۔


فیصلے سے قبل مریم نوازشریف نے ٹوئیٹ کیا کہ انہوں نے فیصلہ کے حوالہ سے اپنے والد کو ایک پل بھی پریشان نہیں دیکھا،نوازشریف ایک مدبر اور بہادر لیڈر کے طور ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ دوبار وزیر اعظم نوازشریف کی منتخب حکومتوں کے ساتھ ہاتھ ہو چکا ہے۔ وزیر اعظم یقیناً اس حوالہ سے پوری طرح مطمئن اور شاد تھے کہ اب کے بار ایسا نہیں ہوگا۔ ہر شیطانی کھیل کا کہیں نہ کہیں اختتام ہوتا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف کو سپریم کورٹ آف پاکستان پر پورا اعتماد اور رب پر یقین تھا کہ اب کی بار بازی جمہوریت نے جیتنی ہے۔ وزیر اعظم کو یہ بھی خبر تھی کہ اب کے بار وہ سب نہیں ہوگا جو الٹ پلٹ کے لئے راتو و رات ’’ چرخیاں‘‘ گھمائی جاتی تھیں۔ اسی لئے وزیر اعظم نوازشریف نے فیصلے سے ایک دن پہلے بیان دے دیا تھا کہ ان کے ہاتھ صاف ہیں وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے سرخرو ہونگے، عدالتی فیصلہ جو بھی آئے گا اسے من و عن تسلیم کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا بھی بجا کہ انہیں عوام نے فیصلوں کے انتظار کے لئے نہیں بلکہ کام کرنے کے لئے منتخب کیا ہے۔ سو وہ عوام کی خدمت کرتے رہیں گے۔


نوازشریف پہلے بھی دو بار حکومت کے سربراہ منتخب ہوئے مگر ان کی حکومتیں توڑ دی گئیں۔ اب کی بار آثار پیدا ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی مدت پوری کر کے بطور وزیر اعظم ایک نیا ریکارڈ قائم کریں گے۔ پچھلے 9 سال سے مسلسل جمہوریت کئی دلوں پر سانپ کی طرح لوٹ رہی ہے۔ وہ سب جنہوں نے عوامی ووٹوں سے نہیں کسی کی ’’ آشیر باد‘‘ سے وزارتی شیروانی کا منہ دیکھنا ہوتا ہے وہ مرنے والی حالت میں جا پہنچے ہیں۔ جمہوریت کی بساط لپیٹنے کی پیش گوئیاں کرنے والے اس فیصلے کے باعث بسترِ مرگ پر ہیں۔ ان کی بیماریاں لا علاج ہو چکی ہیں۔ تمام ’’ ڈاکٹرز‘‘ کی طرف سے جواب ہو چکا ہے۔ ان کی صحت یابی کے لئے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ مگر ہماری دعاؤں سے لالچ، خود غرضی، منافقت اور مفاد پرستی کا کینسر ختم ہونے والا نہیں، لہٰذا ہم ایسے بیساکھیاں ڈھونڈنے والے سیاستدانوں کے لئے کسی طرح کی دعائے خیر کے قائل نہیں۔ بلکہ ہماری سیدھی سیدھی دعا اپنے وطن کے لئے ہے۔ اس مٹی کے لئے، اس دھرتی کے لئے ہے۔ جمہوریت کے لئے ہے جمہوری عمل کی توانا پرورش کے لئے ہے جبکہ جمہوریت مخالفوں سمیت نام نہاد سیاستدانوں کے لئے چھوٹا سا مشورہ ہے کہ نوازشریف کو کرپٹ کہنے کی بجائے اپنی ’’ منجی تھلے ڈانگ‘‘ ضرور پھیرلیں، کئی سرے محل اور بنی گالاز ڈانگ سے ضرور ٹکرائیں گے۔ اپنے ہونے کا احساس دلائیں گے اور اخلاقیات کا اصل سبق پڑھائیں گے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ جو پی پی پی اپنی حکومتوں کے ٹوٹنے یا اپنے وزیر اعظموں کے نا اہل ہونے کو جمہوریت کا قتل تصور کرتی ہے وہ نوازشریف حکومت کو کمزور کرنے کے عمل میں شامل ہے۔ عمران خان سے کسی طرح کا گلہ نہیں، شکوہ پی پی پی کے ’’ دانشور‘‘ سیاستدانوں سے ہے جو اس شاخ کو کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں جس پر خود بھی ’’ ہنسوں کی جوڑی‘‘ کی طرح بیٹھنے کے خواہشمند ہیں۔ جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے جمہوریت کے لئے سب کچھ قربان کر دیا، الٹی گنگا کا بہاؤ دیکھیئے کہ اپنا سب کچھ فنا کرنے کے دعویدار اب جمہوریت کو فنا کرنے کے مشن پر ہیں۔ واہ رے واہ۔۔۔ تیلی۔۔۔ تیرے سر پر کولہو ہی سجتا ہے۔

مزید :

کالم -