” جمہوریت اور آئین کی بالا دستی ، ملکی ترقی اور استحکام کی ضمانت“
عمران خان کے ”آزادی مارچ “ اور ڈاکٹر طاہر قادری کے ” انقلاب مارچ“ نے پورے ملک کی توجہ ” شاہ راہِ دستور “ پر مرکوز کر دی ہے۔یو ں محسوس ہوتا ہے جیسے پورے ملک کی زندگی کی حرارت ” شاہ راہِ دستور “ کی مرہونِ منت ہے ۔ اگر ” شاہ راہِ دستور “ پر زندگی رواں توپورے ملک میں ہر چیز میں حرکت و برکت اور اگر اس شاہراہ پر زندگی جامد تو پورے ملک میں زندگی کا پہیہ جام ۔ ہر لب پر ایک ہی سوال ہے ۔اگر ” شاہ راہِ دستور “پر موجود دونوں کنٹینرزمیں بیٹھے قائدین کے مطالبات منظور ہو گئے تو کیا عام آدمی کو روٹی ، کپڑا ، مکان اور انصاف ملنے لگے گا؟جس کی نوید دونوں طرف سے دی جارہی ہے اورا گر ان کے مطالبات منظور نہ ہوئے تو کیا جمہوریت اور آئین بچ پائیں گے؟
ہمارے دانشوراور تجزیہ کار اخبارات اور ٹیلی ویژن پر اسی موضوع پر اپنی ماہرانہ رائے دیتے نظر آتے ہیں ، جبکہ ” دیسی دانشور“ ہر چوک اور ہر تھڑے پر اپنی ” بصیرت“ کا مظاہرہ کرنے میں مگن ہیں ۔معاشرے کا شاید ہی کوئی فرد ہو جو اس مسئلے پر ” خاموش تماشائی“ ہو ۔ ہر کوئی اپنی اپنی بساط کے مطابق ان دھر نوں اور اُن سے پیدا شدہ مسائل کا حل اپنی دانست کے مطابق تلاش کرکے سوتا ہے ۔ اس صورتِ حال میں سول سوسائٹی بھلا اس مسئلے سے کب الگ رہ سکتی ہے،۔ لہٰذااس سلسلے میں گوجرانوالہ چیمبر آف سول سوسائٹی نے یہاں چیمبر آف کامرس کے اقبال ہال میں ” جمہوریت اور آئین کی بالا دستی ، ملکی ترقی اور استحکام کی ضمانت“کے عنوان سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا ۔منتظمین نے تو مسلم لیگ ” ن“ ( متاثرہ فریق) سمیت پاکستان پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے علاوہ تمام مکاتبِ فکر کو دعوت دے رکھی تھی کہ وہ اس پلیٹ فارم پر آ کر اپنے اپنے انداز میں اس مسئلے کا حل بیان کریں، لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ” ن“ کی ضلعی قیادت اور سول سوسائٹی کے علاوہ کسی دیگر سیاسی جماعت کا کوئی رہنماشریک نہیں ہوا ۔البتہ پیپلز پارٹی کی نمائندگی اویس بیگ نے کی جو پیپلزپارٹی کے کارکن ہیں۔
مسلم لیگ ”ن“ کی طرف سے چودھری محمود بشیر ورک ایم این اے (چیئرمین سٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و انصاف ) محترمہ شازیہ اشفاق مٹو ایم این اے اور توفیق بٹ ایم پی اے (چیئرمین پارکس اینڈ ہارٹی کلچر ڈویلپمنٹ کمیٹی ) شریک ہوئے اور اپنے اپنے انداز میں اپنے پارٹی موقف کو بھر پور انداز میں پیش کیا ۔ سیمینار کے منتظمین محمد اسرائیل ایڈووکیٹ ، پرویز شاکر ، مرزا اشتیاق احمد ، ڈاکٹر حلیم احمد خان ، سعید اعوان اور سید عمران حیدر نقوی نے سیمینار کے ابتدا ہی میں یہ بات واضح کر دی تھی کہ دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنما اپنی اپنی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے ۔ ”گوجرانوالہ چیمبر آف سول سوسائٹی “کے اس سیمینار کو مسلم لیگ ” ن“ کا شو نہ سمجھا جائے ۔ خیر مسلم لیگی رہنماو¿ں نے اپنی پارٹی کا مقدمہ خوب لڑا۔ اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان اور طاہر قادری اُن قوتوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو وطن عزیز پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں دیکھ سکتے۔ جو لوگ نہیں چاہتے کہ ملک میں بجلی اور گیس کے بحران کا خاتمہ ہو ، عام آدمی کو روز گار ملے، تعلیم سب کے لیے یکساں ہو اور ہر ایک کو انصاف دہلیز پر ملے ۔ان رہنماو¿ں کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی عالمی سازش کے تحت ملک کو کمزور کرنے کے لئے یہ دھرنے دیئے جارہے ہیںاور یہ دھر نے مسلم لیگ ”ن“ کی حکومت کے خلاف نہیں ،بلکہ پاکستان کی سا لمیت اور استحکام کے خلاف ہیں ۔ ان کے نتیجے میں ادارے کمزور ہو ںگے، جمہورت اور آئین شدید عدمِ استحکام کا شکار ہو گا۔
چودھری محمود بشیر ورک ایم این اے نے کہا، اگر میاں محمد نواز شریف کی چند پالیسیاں غلط ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی سزا پورے نظام کو دی جائے، آئین اور قانون کی بساط ہی لپیٹ دی جائے ، اور ملک کی باگ ڈور غیر آئینی ہاتھوں میں دے دی جائے۔اُنہوں نے کہا کہ آئین اس وقت مکمل طور پر بحال ہے اور اسے کسی طور پر معطل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ تب میرے ذہن میں یہ سوال اُبھرا کہ محمودبشیر ورک کس آئین کی بات کر رہے ہیںجو مکمل طور بحال ہے ۔ شاید وہ اس لئے اسے مکمل طور بحال سمجھتے ہیں کہ وہ اس کی روسے پارلیمنٹ کا حصہ ہیں ۔ اگر یہی بات کسی سابق ناظم یونین کونسل سے پوچھی جائے یا کسی لیبر کونسلر سے پوچھاجائے ،جو پچھلے سات سال سے حقِ نمائندگی مانگ رہا ہے تو کیامحمود بشیر ورک یا اُن کی حکومت اس بات کا کوئی جواب دے پائے گی کہ آئین کی کس شق کی رو سے اُنہوں نے عوام کی نمائندگی کا یہ بنیادی حق معطل کر رکھا ہے ؟اور ڈاکٹر طاہر قادری آئین کی جن تیس شقوں کی معطلی کا حوالہ دیتے ہیں ،اُس کا ان کے پاس کیا جواب ہے ؟ ایسے ہی انگنت سوالات میرے ذہن میں تھے جو مَیں اپنی تقریر کے درمیان اُن سے کرنا چاہتا تھا ،لیکن جس وقت پروگرام کے اختتام کے قریب مجھے اسٹیج پر بلایا گیا ،اُس وقت ہال میں موجود لوگ مقررین کی لمبی لمبی تقریروں سے اُکتا کر ہال سے باہر جانے لگے تھے ،لہٰذا میں نے کسی لمبی چوڑی تقریر کی بجائے اپنی معروضات کو نہایت مختصر رکھا ۔
مَیں نے عرض کیا کہ ہم پچھلے اڑسٹھ برسوں سے اس انتظار میں تھے کہ اس سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے کوئی لیڈر آئے ۔جب عمران خان اور ڈاکٹرطاہر قادری نے اس بات کااعلان کیا کہ وہ سوئی ہوئی قوم کو بیدار کر کے اُن کواُن کے بنیادی حقوق دلائیں گے تو مجھ سمیت اَنگنت لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہوئے کہ اب حقیقی معنوں میں قوم کو جگانے والے ، اُن کے حقوق سے روشناس کرانے والے قوم کو مل گئے ہیں،لیکن عمران خان کے دھرنے میں جناب شہزاد رائے کا گانا ” تُو سالی مانے نہ “ سُن کر لگا کہ تبدیلی آتو گئی ہے، مگر وہ نہیں جس کا وعدہ تھا ۔ نظام کی نہیں ، بس جگہ کی ۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ” سالی “ کو ایوانِ صدر کے اندر ” منایا “ جاتا تھا ، اب صرف یہ ہوا ہے کہ اُسے ایوانِ صدر کے باہر پوری قوم کے سامنے ” منانے “ کی کوشش کی جارہی ہے....طاہر قادری کی تو بات ہی جانے دےں ۔ وہ تو کسی سالی یا سالے کو منانے کی بجائے پورے نظام ہی کو ناراض کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں ۔اب قوم کرے تو کیا کرے؟جائے تو کہاں؟کون ہے جو قوم کو صحیح معنوں میں لیڈ کرے گا؟ جو ایوانِ صدر کے اندر یا باہر ” سالی “ کو منانے نہیں بیٹھے گا، بلکہ عوام کو اُن کے حقوق دلائے گا ۔اس وقت ملک اپنی تاریخ کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے ۔ اُسے کسی جگانے والے لیڈر کی ضرورت ہے ،اُکسانے والے کی نہیں ۔