سیاست اور شادی میں ”یو ٹرن“

سیاست اور شادی میں ”یو ٹرن“
سیاست اور شادی میں ”یو ٹرن“
کیپشن: 1

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سیاست میں ”یو ٹرن“ کوئی انوکھی بات نہیں رہی۔ ایک دور تھا جب اصولی سیاست کے حوالے سیاستدان اپنی بات پر ڈٹے رہنے کو ترجیح دیا کرتے تھے کہ جان جائے یا رہے، بات نباہ دیتے تھے۔ اصولی سیاست کرنے والوں کی عوام بہت عزت بھی کیا کرتے تھے۔ موجودہ دور میں حالات اور ضرورت کے مطابق اپنے پالیسی بیان کو واپس لینا، اپنی حکمت عملی میں تبدیلی اور گزشتہ کل جس بات پر بہت زور دیا جارہا تھا۔ آج اس کی نفی یا اس کو نظر انداز کرکے نیا مو¿قف اختیار کرلینا کوئی بری بات نہیں سمجھی جاتی۔ لوگ لاکھ تبصرے کریں، مخالفین جتنا چاہیں مذاق اڑالیں، یا تنقید کر لیں کہ”یو ٹرن“ لے لیا گیا، اپنے معاملات بہتر بنانے اور گلشن کا کاروبار چلانے میں دلچسپی رکھنے والے سیاستدان، کوئی پروا نہیں کرتے۔ اپنے ”یوٹرن“ پروہ نئے موقف کے ساتھ ڈٹے رہتے ہیں۔ اسلام آباد میں گزشتہ دو ہفتوں سے سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں۔ عمران خان اور طاہر القادری کے آزادی اور انقلابی مارچ کے بعد آج کل دھرنے جاری ہیں۔ حالات کے مطابق پالیسی بیانات اور حکمت عملی بار بار واضح ہورہی ہے۔ عمران خان تین چار بار لائن سے ادھر ادھر ہونے پر تنقید کا نشانہ بن چکے ہیں۔ خاص طور پر فائنل میچ کی ڈیڈ لائن بیرون ملک سے پیسے بینکوں کی بجائے ”ہنڈی“ کے ذریعے بھجوانے، اپنی نئی شادی کے حوالے سے ان کے بارے میں کہا گیا کہ یو ٹرن لیتے رہتے ہیں۔ ”یو ٹرن“ سیاست سے شادی تک پہنچ گیا ہے۔
مسلم لیگ (ن) حکومتی جماعت ہے اور ان دنوں حالات کے جبرسے ”اپوزیشن“ (برائے نام) بھی حکومتی لائن پر چل رہی ہے ،لہٰذا عمران مخالف سبھی جماعتیں یوٹرن کے حوالے سے مذاق اڑارہی ہیں۔ اور طنز کے نشتر بھی کام کر رہے ہیں۔ اگر مبالغہ آرائی نہ سمجھی جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ وزراءاور مشیروں کے علاوہ مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار اور بعض حساس کارکن دعائیں مانگنے میں مصروف ہیں کہ عمران خان جلد از جلد ”یو ٹرن“ لیکر انہیں مشکل صورت حال ( جو عذاب بنتی جارہی ہے) سے نجات دلائیں۔ جس یو ٹرن کا حکومت اور اتحادیوں کو شدت سے انتظار ہے، وہ یہ ہے کہ عمران خان، وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے سے کسی صورت دستبردار ہو کر ایک اور ”یو ٹرن“ کا الزام برداشت کرلیں، جو حکومت اور اتحادیوں پر احسان ہوگا۔ جی ہاں سیاست میں ایسے مرحلے آتے رہتے ہیں۔ جیسے سیاسی حالات میں مفروضوں کا استعمال بڑھ جانا معمول کی بات ہے۔
چند روز قبل ہم نے بعض مفروضوں کا ذکر کیا تھا۔ زیر نظر کالم میں ایسے ہی مزید مفروضوں کا ذکر کیا جارہا ہے کہ عمران خان کی شادی کی بات ، سنجیدہ موضوع بن گئی ہے۔ خدا جانے ایک ماہ قبل معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے شادی کا مشورہ عمران خان کو دیا بھی تھا، یا نہیں، شادی پر دھرنوں کے علاوہ تقریباً ہر گھر میں منفی یا مثبت انداز میں تبصرے ضرور ہورہے ہیں۔ عمران نے کہا کہ میری عمر 62 سال ہوگئی ہے۔ نیا پاکستان بنانے کی مجھے جلدی اس لئے ہے کہ میں شادی کر سکوں۔ اگرچہ بیس گھنٹے بعد ہی انہوں نے وضاحت (ناقدین کے مطابق یوٹرن) کی کہ مجھے تو نیا پاکستان بنانے کے لئے اس قدر مصروفیت ہے کہ شادی جیسے مسئلہ بارے سوچنے کی بھی فرصت نہیں۔ نیا پاکستان بن گیا تو قوم کے ساتھ جشن ضرور مناﺅں گا۔ اس وضاحت کے باوجود وزراءطنزیہ خوشیوں میں شریک ہونے اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی طرف سے ”گواہ“ بننے کی باتیں ہورہی ہیں۔
تحریک انصاف کا شعبہ¿ خواتین شادی کے معاملے پر بہت خوش ہے کہ تمام خواتیں کو ”بھابی“ مل جائے گی جو ہر سیاسی تقریب اور اجلاس میں ان کے ساتھ ہوا کرے گی، کیونکہ روایت ہے کہ سیاسی جماعت کے سربراہ کی اہلیہ شعبہ¿ خواتین کی سربراہ ہوا کرتی ہے۔ مرد کارکنوں کی طرف سے بھی عمران کی شادی کے معاملے پر اظہار مسرت کیا گیا اور فرمائش کی گئی کہ لڑکی پاکستانی ہونی چاہے اس کا تعلق کسی بھی صوبے سے ہو۔ یعنی شادی پر سبھی خوش ہیں اور کسی کو بے چاری جمائما کا خیال نہیں، جو طلاق کے باوجود عمران کا بہت زیادہ خیال رکھتی ہے۔ ہر معاملے میں مشورہ دیتی ہے اور ذرا سی خوشی پر بہت زیادہ خوش ہوتی ہے۔ کوئی معمولی سی منفی خبر ہوتو اس کی تشویش دیدنی ہوتی ہے ۔ 15 اگست کو جب عمران کا آزادی مارچ گوجرانوالہ سے گزرا اس کے کنٹینر پر پتھراﺅ کیا گیا تو جمائما بہت زیادہ فکر مند ہوئی تھی۔ ایسی خاتون شاید عمران کی خوشی کے لئے تو اس کی نئی شادی کو قبول کرلے، لیکن اس کا دل روئے گا۔
اس معاملے میں اے این پی کے زاہد خان ناقدین میں سرفہرست ہیں۔ ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس شخص (عمران خان) نے اپنی شادی کے چکر میں ساری قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ شادی کرنی ہے تو کر لے اور جان چھوڑے۔ ایک بزرگ نے کافی سوچ بچار کے بعد خیال ظاہر کیا ہے کہ عمران خان کو ”نیا پاکستان“ بنانے کی فکر اس لئے ہے کہ کسی لڑکی نے ”نیا پاکستان“ بنانے کی شرط رکھی ہوگی۔ کچھ دل جلے مخالفین نے تو صاف کہہ دیا کہ ایسی غیر سنجیدہ باتیں (اپنی شادی کے حوالے سے) کرنے والا شخص کس طرح ہمارے ملک کا وزیر اعظم بننے کا اہل ہوسکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی موجودہ صورتحال سے بہت ٹینشن میں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دھرنے وغیرہ ختم کئے جائیں۔ عمران خان شادی کریں، وزیر اعظم نواز شریف حج کرنے جائیں اور طاہر القادری کینیڈا کا ٹکٹ کٹوائیں۔
عمران خان کی طرف سے شادی کا ذکر کیوں کیا گیا؟ اس پر بھی باتیں ہورہی ہیں کہ 62سالہ شخص کو شادی کرنے کا خیال کیوں آیا۔ یہ پاکستان ہے کوئی یورپی ملک نہیں۔ یہاں تو پچاس یا پچپن سال کا کوئی مرد شادی کرلے تو عجیب عجیب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسے ایسے تبصرے کئے جاتے ہیں کہ الامان والحفیظ البتہ معروف سیاستدان غلام مصطفےٰ کھر واحد شخصیت ہیں، جو 72 سال کی عمر میں بھی کسی 23-24سال کی لڑکی سے شادی کرلیں تو لوگ زیادہ حیران نہیں ہوتے کہ انہوں نے اتنی شادیاں کی ہیں کہ لوگ ذہنی طور پر ان کی شادی بارے زیادہ نہیں سوچتے کہ غلام مصطفےٰ کھر کے پاس اس عمر میں بھی شادی کرتے رہنے کا راز کیا ہے ۔ ویسے کھر صاحب اپنی یوگا ورزش کو ہی شادی کا راز قرار دیتے ہیں، اس کے باوجود بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ کوئی مسمر یزم کرتے ہیں۔ جتنے منہ اتنی باتیں! ہم عرض کرچکے ہیں کہ اس پاکستانی معاشرے میں 62سالہ پڑھے لکھے، باشعور اور سنجیدہ سیاستدانوں کے لئے نئی شادی اتنا آسان کام نہیں۔ یورپ یا امریکہ میں اگر عمران خان اپنی شادی کا ذکر کرتا تو کئی خواتین ”مجھ سے شادی کرسکتے ہو“۔ ”میں شادی کے لئے تیار ہوں“کتبے لہرا کر پیشکش کرسکتی تھیں۔ ہمارے مشرقی اور پاکستانی معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ورنہ جس رات عمران خان نے شادی کی بات کی، اسی رات ٹوئیٹر پر درجنوں خواتین کی پیشکش موجود ہوتی اور دھرنے میں جہاں”گو نواز گو“ اور ”ہم نیا پاکستان چاہتی ہیں“ کے کتبے دکھائی دیتے ہیں، وہاں ”عمران مجھ سے شادی کرلو“۔ میں عمران سے شادی کرنا چاہتی ہوں“۔ اور ”خان! آﺅ ہم نکاح کرلیں“۔ نعرے لگ سکتے تھے اور کتبے لہرائے جاسکتے تھے۔
ممکن ہے عمران کو شادی کا مشورہ مولانا طارق جمیل نے دیا ہو، لیکن زیادہ امکان یہ ہے کہ سدا بہار کنوارے شیخ رشید کی یاری رنگ لائی ہے۔ سیاسی معاملات پر لابنگ کرتے کرتے ضرور شادی کے موضوع پر بھی سنجیدگی سے سوچنے پر مجبور کردیا ہوگا۔ شیخ صاحب نے سوچا ہوگا کہ عمران شادی کریگا تو وہ بھی اس عمر میں شادی کرکے قسم توڑ دیں گے۔ شادی کے اخراجات بھی نہیں ہوں گے اور لڑکی بھی آسانی سے مل جائے گی۔ کچھ ایسی ہی باتیں عمران کی شادی کے حوالے سے لوگ کررہے ہیں۔ اس مفروضے کو دلچسپ قرار دینا چاہئے کہ احمد فراز نے خوب کہا تھا۔
ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
خلقتِ شہر تو کہنے کو‘ فسانے مانگے
شادی کا تصور شادی کی باتیں اچھی لگتی ہیں، لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ شادی کے لڈو جو کھائے وہ پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ بھی پچھتائے۔ یہ کہاوت سیانے لوگوں نے یوں ہی نہیں کہی تھی۔ ذکر ہے عمران کی شادی کا جو ننانوے فیصد نہیں ہونے والی، مگر یار لوگ مزے لیکر ایک فیصد کو ایک سو سے بڑھا کر ایک ہزار فیصد تک پہنچا چکے ہیں۔ عمران خان کبھی سنجیدگی سے اپنی شادی کے محض ذکر پر تبصرے، آرا¿، تجزیے وغیرہ پر غور کریں تو انہیں مرحوم مصطفےٰ زیدی کا یہ شعر ضرور یاد آئے گا۔
کچھ میں ہی جانتا ہوں‘ جو مجھ پر گزر گئی
دنیا تو لطف لے گی‘ میرے واقعات میں
دلچسپ صورت حال ہے اور چلتے چلتے آخر میں ایک دلچسپ تبصرہ تحریک انصاف کے بعض کارکنوں کا بھی پیش خدمت ہے کہ اب سمجھ میں آگیا ہے وزیر اعظم نواز شریف استعفا کیوں نہیں دے رہے ہیں۔ دراصل میاں برادران یہ نہیں چاہتے کہ عمران خان کا دھرنا کامیابی سے ہمکنار ہو۔ وہ اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں، حالانکہ عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنوں سے وہ بہت تنگ ہیں اور ان کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ صرف عمران کی شادی میں تاخیر کے لئے نواز شریف استعفیٰ نہیں دے رہے۔ محترم قارئین!مفروضے تو ایسے ہی ہوا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیی اسلم رئیسانی سے رائے لی جائے تو وہ بھی یہی کہیں گے .... اس میں کیا شک ہے۔ مارچ تو مارچ ہوتا ہے، وہ مارچ کے مہینے میں ہویا اگست کے مہینے میں۔ اسی طرح مفروضہ بھی مفروضہ ہی ہوتا ہے چاہے نواز شریف بارے ہویا عمران خان کے بارے میں ہو۔

مزید :

کالم -