میڈیا کی ذمہ داری

میڈیا کی ذمہ داری
 میڈیا کی ذمہ داری

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ڈیفنس میں زیرتعمیر پلازہ میں دھماکے سے متعدد افراد جاں بحق ہوئے۔ بڑی تعداد میں زخمی ہو گئے۔ متعدد گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ سوا گیارہ بجے ہونے والے اس دھماکے نے پورے ملک میں غیر معمولی خوف و ہراس پھیلادیا۔ ٹیلی ویژن چینل اس ہولناک دھماکے کی رپورٹ کر رہے تھے تو چینلوں پر گلبرگ میں بم دھماکے کی خبر بریکنگ نیوز بن کر نمودار ہوئی۔ بعد ازاں پتہ چلا کہ یہ خبر نہیں بلکہ افواہ تھی۔ پیمرا نے تمام چینلوں کو نوٹس جاری کیا ہے کہ انہوں نے یہ خبر کیوں نشر کی؟ چینل اس کا کیا جواب دیں گے اس کا علم تو ان کے جواب سے ہی ہو گا۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس غلطی کو فراخدلی سے تسلیم کر لیا جائے گااور غالباً فراخدلی سے ہی معاف کر دیا جائے گا۔ گزشتہ دنوں حدیقہ کیانی کے متعلق بھی ایک غیرذمہ دارانہ خبرنشر ہو گئی جس پر اس گلوکارہ نے خاصے دکھ کا اظہار کیا۔ چینلوں نے لندن کے ایک اخبار کی خبر کو تو بریکنگ نیوز کے طور پر دے دیا مگر کسی نے پاکستان میں موجود اس گلوکارہ سے فون پر بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ان واقعات سے میڈیا کی کریڈیبلٹی پر بڑے سوالیہ نشانات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان میں میڈیا بہت سے معاملات میں اپنی اظہار پر فخر کا اظہار کر سکتا ہے۔ اس نے جمہوریت کو مضبوط بنانے میں شاندارکردار ادا کیاہے۔ اس نے کرپشن کے بڑے بڑے سکینڈلوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ گھریلو ملازموں پر ہونے والے تشدد کو جرات مندی کے ساتھ دکھایاہے۔ فرعون قسم کے سرکاری اہلکاروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لئے ان کے کرتوتوں کو تفتیشی رپورٹنگ کے ذریعے عوام تک پہنچایاہے۔ غذاکے متعلق شعور پیدا کرنے میں میڈیا کا کردارقابل تحسین ہے۔ اسی طرح متعدد جرائم کے خاتمے میں میڈیا اپنے کردار کو فخر کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ مگر پاکستانی میڈیا پر غیر ذمہ داری کے الزامات بھی لگائے جاتے رہے ہیں۔ بعض افراد کی غیرذمہ داری سے نہ صرف میڈیا کی کریڈیبلٹی کم ہوئی ہے بلکہ ایسے سامعین اور ناظرین کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے جو میڈیا پر آنے والے مواد کو سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیتے اور اسے بطور تفریح ہی دیکھتے ہیں۔
اخبار چوبیس گھنٹے بعد شائع ہوتا ہے۔ رپورٹر کے لئے مختلف ذرائع سے خبروں کی تصدیق کے لئے کافی وقت ہوتا ہے۔ مگر اخبارات کی کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں۔ ایک اخبار کے سب ایڈیٹر نے رپورٹر سے کہا کہ اخبار میں تین سطریں خالی ہیں ۔ اس کے لئے خبر چاہیے۔ رپورٹر نے برجستہ کہا کہ آج میکلوڈ روڈ پر ایک بڑے سٹورمیں آگ لگ گئی مگر آگ پر بروقت قابو پا لیا گیا۔ سب ایڈیٹر نے رپورٹر سے کہا مزید ڈیڑھ لائن کی ضرورت ہے۔ اس پر رپورٹر نے کہا ’’مگر جب ہمارے رپورٹر نے موقع پر پہنچ کر تصدیق کی تو یہ خبر غلط تھی۔‘‘ اخبار کی اشاعت کی ایک ڈیڈلائن ہوتی ہے اور اس میں اکثر یہ بھی ہوتا تھا کہ کوئی بڑا حادثہ ہو گیا۔ 12 لوگ ہلاک ہو گئے۔ 30زخمی ہو گئے۔ جبکہ ان 30 میں سے 2 کی حالت شدید خراب تھی تو رپورٹر شدید زخمیوں کو بھی اکثر ہلاک ہونے والوں میں شامل کر دیتا ہے۔ اس لئے اکثر اخبار میں حادثے میں مرنے والوں کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔ سینئر صحافی اس پریکٹس کو پسند نہیں کرتے ۔ تاہم اسے اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔

الیکٹرونک میڈیا نے صورتحال کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ 1990ء کے عشرے میں امریکہ میں جب ٹی وی چینلوں نے 24گھنٹے نشریات کا آغاز کیا تو صدر بش سینئر نے کہا تھا کہ دنیا میں ایک نئے عفریت نے جنم لیا ہے۔ جسے ہر وقت خبر کی ضرورت ہے اور اگر آپ اسے خبر نہیں دیں گے تو یہ آپ کو کھا جائے گا۔ پاکستان میں بھی الیکٹرونک میڈیا کو ہر وقت خبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ بعض اوقات چینل کے ہاتھ کوئی ایک خبر لگ جائے تو اس خبر کو بار بار دہرایا جاتا ہے۔ اکثر اوقات اس عمل میں نہ صرف خبر کی مت ماردی جاتی ہے بلکہ دیکھنے والے بھی اپنے آپ کو ٹارچرسیل میں محسوس کرتے ہیں۔ جیسے جیسے میڈیا کی باہمی مسابقت میں اضافہ ہو رہا ہے اسی طرح بریکنگ نیوز کی تلاش بڑھ رہی ہے۔ اکثر ایک چینل خبر نشر کرتا ہے تو باقی چینل تصدیق کئے بغیر اسے نشر کر دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ جنگ میں سب سے پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔ میڈیا بھی اکثر بریکنگ نیوز کے شوق میں سچائی کو نت نئے طریقوں سے قتل کرتا ہے۔بعض چینلوں کی کوریج دیکھ کر بے اختیار اس سکھ کا لطیفہ یاد آتا ہے جس کا ایک مشین نے حادثاتی طور پر کان کاٹ دیا تھا۔ سکھ کا پوتا خاصی جدوجہد کے بعد کٹا ہوا کان تلاش کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے کان دادا کو دکھاتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ آپ کا ہی کان ہے نا! اس پر سکھ نے کہا ’’نہیں یہ میرا کان نہیں ہے۔ میرے کان پر تو پنسل ٹنگی ہوئی تھی۔‘‘


ایک بڑے ادیب کے ناول کا مرکزی خیال یہ تھا کہ انسان نے جب بھی کوئی مشین بنائی اس نے وقت بچانے کا دعویٰ کیا مگر عملی طور پر ہوتا یہ ہے کہ جب کسی انسان کی زندگی میں وقت بچانے والی بہت زیادہ مشینیں آ جائیں تو اس کے پاس اپنے لئے بالکل وقت نہیں ہوتا۔ الیکٹرونک میڈیا کے پاس سچ کو دکھانے اور اسے فوری طور پر عوام تک پہنچانے کی غیر معمولی صلاحیت ہے مگر اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ خبر میں سب کچھ ہوتا ہے مگر سچ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات چینل کسی خبر کی سنسنی خیز انداز میں کوریج شروع کرتے ہیں مگر چار گھنٹے بعد وہ خود تصدیق کرتے ہیں کہ وہ خبر کے جس پہاڑ کو کھود رہے تھے اس میں سے چوہا بھی برآمد نہیں ہواہے۔ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے کہا تھا کہ ہم ایک ایسے کلچر میں محصور ہو گئے جہاں برانڈ اور لیبل اہم ہو گئے ہیں اور حقائق اور سچائی کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ نیوز چینل جس زوروشور سے خبروں بلکہ افواہوں کو بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کرتے ہیں اس کے معاشرے پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟ پاکستان میں اس پر کبھی کوئی سائنسی انداز میں تحقیق نہیں ہوئی۔ ترقی یافتہ ممالک میں میڈیا کے کردار پر نظر رکھنے کے لئے متعدد ادارے ہوتے ہیں۔ امریکی پریس کمیشن نے 1940ء کے عشرے میں کہا تھا کہ آزاد صحافت کو ذمہ دار ہونا چاہیے اور اگر صحافت ذمہ دار نہیں ہو گی تو وہ اپنی آزادی کھو بیٹھے گی۔ ہمارے ہاں سلطان راہی نے پنجابی فلموں میں مولاجٹ کے جس کلچر کو فروغ دیا تھا وہ اب نیوز پروگراموں میں اکثر نظر آتا ہے۔ حساس اور سنجیدہ موضوعات پر ہمارے بعض دانشور اتنا چیخ چیخ کر گفتگو کرتے ہیں کہ وہ سلطان راہی کو ڈرانے کے لئے بھی کافی ہوتا ہے۔

ڈیفنس میں ہونے والے دھماکے کے بعد سینیٹر مشاہد اللہ نے کہا تھا کہ یہ دھماکے پی ایس ایل ملتوی کرانے کی سازش ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ بھارت سے پاکستان کی ترقی ہضم نہیں ہو رہی۔ سینیٹر مشاہداللہ کا سیاسی حلقوں میں خاصا احترام ہے اور وہ اکثر دلیل کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوڑنے سے پرہیز کرتے ہیں۔ مگر ان کے اس بیان کو اگر اس حقیقت کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے کہ ڈیفنس کا دھماکہ بم دھماکہ نہیں تھا تو خود سینیٹر مشاہد اللہ کی کریڈیبلٹی زخمی ہوتی نظر آتی ہے۔ پاکستان بدترین دہشت گردی کا شکار ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان حالات میں میڈیا کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ امریکی میڈیا پر ہونے والی ریسرچ سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ غیر ملکی معاملات میں میڈیا بڑی حد تک وزارت خارجہ کی ہدایات پر عمل کرتا ہے۔ ویت نام کی جنگ کے دوران امریکہ میں اخبارات نے خاصی جرات مندی کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ جنگ کے ایسے بہت سے پہلو بھی سامنے لائے تھے جو امریکی انتظامیہ کوپسند نہیں تھے۔ ویت نام کی جنگ کو امریکہ کے لئے غیر ضروری قرار دیاگیا۔ اس جنگ کے خلاف امریکی رائے عامہ نے کھل کر اپنے موقف کا اظہار کیا۔ جس کے نتیجے میں امریکی فوج کو ویت نام کو خیرباد کہنا پڑا۔ ویت نام سے امریکہ نے ایک سبق یہ سیکھا کہ جب میڈیا جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی بھرپور کوریج کرتا ہے۔ ایئرپورٹ پر تابوت دکھائے جاتے ہیں۔ تدفین کی رسومات نمایاں طور پر شائع ہوتی ہیں۔ پسماندگان کے تاثرات عوام تک پہنچائے جاتے ہیں تو رائے عامہ حکومت کے خلاف ہوجاتی ہے۔ 11 ستمبر کے سانحہ کے بعد امریکی وزارت خارجہ نے میڈیا کو ایک ہدایت نامہ جاری کیا کہ قومی مفاد میں جنگ میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی کوریج نہیں کی جائے گی۔ ان کے نام نہیں بتائے جائیں گے۔ ان کے تابوت نہیں دکھائے جائیں گے۔ میڈیا کو صرف ہلاک یا زخمی ہونے والوں کی تعداد بتانے کی اجازت ہے۔ امریکی میڈیا نے اس ہدایت پر سختی سے عمل کیا ہے۔ اس معاملے کو وہ عدالت میں لے کر نہیں گئے۔ کسی ٹاک شو میں اس پر گفتگو نہیں ہوئی۔ اسے آزادی صحافت کا مسئلہ نہیں بنایا گیا۔ یوں امریکی رائے عامہ میں افغانستان اور عراق کی جنگ کے متعلق زیادہ نفرت نہیں پائی جاتی۔


میڈیا کا فرض ہے کہ وہ سچائی کو عوام تک پہنچائے۔ مگر ایسا کرتے ہوئے اسے قومی مفاد کو یکسر نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا کے لئے ایک بڑا خطرہ بن کر آیا تھا۔ اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے لئے خطرہ بن رہاہے۔ مگر الیکٹرانک میڈیا کو اپنی بقا کی جدوجہد میں قومی مفاد کو بہرحال نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔

مزید :

کالم -