غریب عوام کس کے خلاف احتجاج کریں؟
شیدا ریڑھی والا آئے، کوئی نئی بات نہ کرے نیا سوال نہ اٹھائے یہ تو ممکن ہی نہیں شیدا جانتا ہے کہ اتوار کو میں گھر مل جاتا ہوں۔ اس لئے وہ عموماً صبح سویرے آدھمکتا ہے اس اتوار بھی وہ صبح سویرے آیا اور آتے ہی یہ سوال داغ دیا کہ ہر کوئی آج کل غریبوں کے خلاف احتجاج اور ہڑتال کیوں کر رہا ہے۔ میرا ماتھا ٹھنکا، غریبوں کے خلاف احتجاج؟ یہ کیا بات ہوئی، میں نے پوچھا شیدے کس احتجاج کی بات کر رہے ہو۔ یہاں تو سب حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں، ہڑتال بھی حکومت کے خلاف ہی ہوتی ہے شیدا جو اکثر منہ پھٹ ہو جاتا ہے، طنزیہ لہجے میں کہنے لگا۔ بابو جی آپ جیسے پڑھے لکھے بندے سے مجھے ایسی بات کی توقع نہیں تھی۔ میں نے ذرا غصے بھری نظروں سے اسے دیکھا، وہ گھبرایا اور کہنے لگا ’’آپ بھی مجھ غریب پر ہی غصہ نکالیں گے۔‘‘ اس کی بات سن کر میں تھوڑا شرمندہ ہوا اور اسے کہا۔ ’’نہیں نہیں شیدے ایسی کوئی بات نہیں، تم کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ کہنے لگا ’’بابو جی یہ جو ڈاکٹر آئے روز ہڑتال کرتے ہیں تو کیا یہ حکومت کے خلاف ہوتی ہے؟ یہ تو سراسر غریبوں کے خلاف ہوتی ہے، جن کے پاس پرائیویٹ علاج کرانے کے پیسے نہیں ہوتے۔ حکمرانوں کا اس ہڑتال سے کیا بگڑتا ہے، وہ تو باہر علاج کرالیتے ہیں یا پھر یہیں مہنگے ہسپتالوں میں چلے جاتے ہیں اگر یہ ہڑتال ان کے خلاف ہو تو وہ اس مسئلے کا فوری حل نکالیں لیکن یہ ہڑتال تو ہوتی ہی غریب عوام کے خلاف ہے، اس لئے کئی کئی دن چلتی رہتی ہے اور عوام مرتے ہیں یا ہسپتالوں کے باہر علاج کے لئے ایڑیاں رگڑتے ہیں۔ میں شیدے کی بات سن کر سوچنے لگا یہ ہم کہاں کے دانشور اور لکھاری بنے پھرتے ہیں اس نکتے کو تو ہم کبھی ذہن میں ہی نہیں لا سکے۔ حکومت کے لئے تو اس قسم کی ہڑتالیں روز کا معمول ہے، ان ینگ ڈاکٹرز کے لئے بھی یہ ایک ایسا شغل ہے جس میں وہ ڈیوٹی دینے سے بھی بچ جاتے ہیں اور مراعات بھی بڑھوا لیتے ہیں۔ سارا نزلہ تو غریبوں پر گرتا ہے، جنہیں علاج معالجے کی رہی سہی سہولتوں سے بھی محروم کر دیا جاتا ہے۔
شیدا مجھے خیالوں میں غلطاں دیکھ کر کہنے لگا ’’بابو جی کہاں کھو گئے، کبھی اس غریب کی بات بھی توجہ سے سن لیا کریں۔‘‘ میں نے کہا میں تمہاری باتوں پر ہی غور کر رہا تھا تم ٹھیک کہتے ہو۔ ’’بابو جی مجھے ٹرخائیں ناں، میری ایک اور بات بھی غور سے سنیں۔‘‘ شیدے نے بے اعتبار لہجے میں کہا۔ میں نے اسے بولنے کا حوصلہ دیا تو وہ کہنے لگا۔ ’’یہ وکیل جو آئے روز ہڑتال کرتے ہیں یہ کس کے خلاف ہوتی ہے کیا یہ حکومت یا کسی طاقتور مافیا کے خلاف کی جاتی ہے، نہیں بابو جی نہیں، یہ ہڑتال تو بس غریبوں کے خلاف ہوتی ہے اس ملک میں انصاف ویسے ہی آسانی سے نہیں ملتا اوپر سے وکیل ہڑتال کر کے مشکل سے نکلنے والی پیشی کو ملتوی کرا دیتے ہیں انصاف کے لئے دھکے کھانے والے غریبوں کو مزید دھکے ملتے ہیں پچھلے دنوں دوائیاں بیچنے والوں نے ہڑتال کر دی تھی تو اس کے نتیجے میں بھی غریبوں کو اذیت برداشت کرنی پڑی تھی۔ امیروں کو تو پرائیویٹ ہسپتالوں میں قائم دکانوں سے ادویات بآسانی مل رہی تھیں لیکن غریبوں کو ہڑتال کی وجہ سے جان کے لالے پڑ گئے تھے۔ پٹواری ہڑتال کریں تو ہدف عوام ہوتے ہیں، اساتذہ اور کلرک سڑکوں پر آ جائیں تو نشانہ عوام بنتے ہیں۔ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ آج کل سب غریب عوام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ سچی بات ہے شیدے کی ان باتوں نے مجھے لا جواب کر دیا تھا۔ بات تو کچھ ایسی ہی ہے جیسی شیدے نے بیان کی ہے، حکمران طبقے کے پاس کوئی حکمتِ عملی ہے کہ پریشر گروپوں سے عوام کو بچا سکیں اور نہ ہی پریشر گروپوں کے پاس اس کے سوا اور کوئی راستہ بچتا ہے کہ وہ عوام کو تنگ کریں، انہیں اذیت میں مبتلا کر کے حکمرانوں پر دباؤ بڑھائیں۔ یعنی ایک طرح سے عوام وہ خربوزہ بن گئے ہیں جو چھری کے اوپر گرے یا چھری اس پر گرے، نقصان اُسی کا ہوتا ہے۔
زمینی حقیقت یہ ہے کہ عوام ہر جگہ موجود ہیں اور کہیں بھی موجود نہیں۔ پاکستانی معاشرہ طبقوں میں بٹ کر رہ گیا ہے ایک خاص ترکیب سے عوام کو تقسیم کر دیا گیا ہے کہیں سیاسی جماعتوں کے ذریعے، کہیں طبقوں اور برادریوں کے نام پر اور کہیں معاشی تقسیم کے ذریعے۔ یہ سوال تو اکثر کیا جاتا ہے کہ ہڑتالی سڑکیں کیوں بند کرتے ہیں۔ شہروں کے معروف چوکوں اور سڑکوں پر دھرنے کیوں دیتے ہیں۔ مگر اس پہلو پر کوئی غور نہیں کرتا کہ حکومتیں اس وقت تک کسی احتجاج کو مانتی ہی نہیں جب تک وہ احتجاج عوام کی ناک میں دم نہ کر دے۔ عوام بچاؤ بچاؤ کی دہائیاں دینے لگیں۔ اخبارات جب یہ لکھتے ہیں کہ حکومت نے عوام کے احتجاج پر گھٹنے ٹیک دئیے تو وہ غلط کہہ رہے ہوتے ہیں حکومت در حقیقت عوام کی چیخ و پکار کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے، کیونکہ عوام احتجاج نہیں کر رہے ہوتے بلکہ وہ تو عوام ختم کرانے کی دہائی دے رہے ہوتے ہیں تاکہ انہیں سکھ کا سانس لینا نصیب ہو سکے۔ یہ حیرت ناک بات نہیں کہ ہر وہ طبقہ جو حکومت سے اپنی بات یا مطالبات منوانا چاہتا ہے، غریبوں کے گلے پر چھری رکھ کر حکومت کو مجبور کرتا ہے کہ وہ اس کی بات مانے، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہسپتالوں میں ڈاکٹر بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر احتجاج کریں، اپنا کام بھی جاری رکھیں اور حکومت ان کے مطالبات پر توجہ دے حکومت کو ہوش اس وقت آئے گا جب یہ ڈاکٹرز ہسپتالوں کے وارڈز تالے لگا کر بند کریں گے، مال روڈ پر دھرنا دیں، مریض چیخ و پکار کریں اور دو چار اموات ہو جائیں، اس سارے کھیل میں جو طبقہ پستا ہے، اسے غریب عوام کہتے ہیں جن کی کوئی یونین ہے اور نہ ایسوسی ایشن، جو نہ کسی کے خلاف احتجاج کر سکتے ہیں اور نہ ہڑتال۔
ہڑتالی طبقوں کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ وہ عوام کو اذیت دے کر حکومت سے وقتی طور پر کچھ مطالبات تو منوا لیتے ہیں لیکن وہ اس قوت کو کھو دیتے ہیں جو عوام کو ساتھ ملانے سے مل سکتی ہے۔ وہ عوام کی نفرت کا ہدف بن جاتے ہیں، حالانکہ عوام کی نفرت کا ہدف حکمران طبقوں کو بننا چاہئے۔ جو مسائل کا حل نہیں دے پاتے۔ یہ بات بالا دست طبقوں کے حق میں جاتی ہے کہ معاشرہ مختلف طبقوں میں بٹا رہے اور ایک طبقے کے مفادات دوسرے طبقے سے متصادم رہیں جس دن یہ سوچ پروان چڑھی کہ پاکستانی معاشرے میں دو ہی طبقے ہیں، ایک امراء اور دوسرا غرباء پر مشتمل طبقہ۔ ایک جانب 2 فیصد ہیں اور دوسری جانب 98 فیصد۔ دو فیصد طبقے کی یہ کوشش ہے کہ 98 فیصد طبقہ کبھی متحد نہ ہو، ٹکڑوں میں بٹا رہے۔ اس حکمتِ عملی کے تحت وہ 98 فیصد طبقے میں مختلف قسموں کے انتشار پیدا کرتا رہتا ہے۔ مقصد صرف یہ ہے کہ اس اکثریتی طبقے میں اتحاد پیدا نہ ہو سکے۔ اسے آپس ہی میں ایک دوسرے سے لڑا دیا جائے عوام کو ہمیشہ ایک بڑی طاقت کا نام دے کر خوش فہمی میں مبتلا رکھا گیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت عوام کا راگ الاپتی ہے عوام کے بغیر پاکستان میں سیاست ہو نہیں سکتی مگر یہی سیاسی جماعتیں غیر اعلانیہ یہ کوشش جاری رکھتی ہیں کہ عوام متحد نہ ہونے پائیں کیونکہ اگر عوام متحدہو جائیں تو یہ دو فیصد طبقہ اشرافیہ اور اس کی ساری سازشیں بے نقاب ہو جائیں۔ عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ اسمبلیوں میں پہنچنے والے کتنے نمائندے ایسے ہیں جو ان سے تعلق رکھتے ہیں، جو ان میں سے ہیں اور جن کی معاشی حالت وہی ہے جو عوام کی ہے عوام امرا کو منتخب کر کے یہ توقع رکھتے ہیں کہ اب وہ ان کی نمائندگی بھی کریں اور ان کی حالت بھی بدلیں۔ یہ خوش فہمی کی حد ہے۔ یہ بھولے بادشاہ عوام اپنے سے کوئی تعلق نہ رکھنے والے طبقہ، امرا کے لوگوں کو اپنا نمائندہ چنتے ہیں، ان کے لئے زندہ اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور پھر یہ توقع بھی رکھتے ہیں کہ ان کے حالات بدل جائیں۔ مفادات کی باری آئے تو سارے پارلیمینٹرین ایک ہو جاتے ہیں اوپر کی سطح پر ایک ہو جانے والوں کے حلقوں میں عوام کبھی ایک نہیں ہوتے۔ وہ ٹکڑوں میں بٹے رہتے ہیں، ایک دوسرے سے لڑتے ہیں، ایک دوسرے کو مارتے ہیں، یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے منتخب نمائندے نے ان کے لئے کچھ کیا ہے اور نہ اُس مخالف نے جسے انہوں نے ووٹ نہ دے کر مسترد کر دیا تھا۔ طبقاتی معاشرے میں بنیادی انسانی حقوق پامال ہو جاتے ہیں کیونکہ عوام پر مسلط اقلیتی مراعات یافتہ طبقے کو اپنی گرفت مضبوط رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ پوری طرح طبقات میں بٹا ہوا ہے۔ ہر طبقہ دوسرے طبقے کو پامال کر کے اپنے لئے مراعات کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ حتیٰ کہ جعلی ادویات کے خلاف بھی کوئی قانون بنے تو ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ خم ٹھونک کر سامنے آ جاتے ہیں حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لئے عوام کو سولی پر لٹکا دیتے ہیں اور عوامی حمایت سے محروم حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے۔ شیدے ریڑھی والے نے یہ نکتہ تو خوب اٹھایا ہے مگر شیدے ریڑھی والے سمیت کروڑوں غریب عوام کو یہ بات پلے باندھ لینی چاہئے کہ جب تک وہ خود متحد نہیں ہوتے انہیں اسی طرح کچلا جاتا رہے گا۔ کیونکہ یہ تو بہت پہلے کہا جا چکا ہے کہ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات۔