سی پیک کا ’’مبینہ‘‘ ماسٹر پلان( آخری قسط)

سی پیک کا ’’مبینہ‘‘ ماسٹر پلان( آخری قسط)
 سی پیک کا ’’مبینہ‘‘ ماسٹر پلان( آخری قسط)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

زرعی شعبے کے بعد جن شعبوں پر چینیوں کی نظریں لگی ہوئی ہیں وہ صنعت و معدنیات، فائبر آپٹکس و سروے لینس اور سیروسیاحت کے شعبے ہیں۔ اس ماسٹر پلان میں پاکستان کو صنعتی اعتبار سے تین زونوں میں تقسیم کیا گیا ہے جو بالترتیب مغربی و شمال مغربی، وسطی اور جنوبی زون کہلاتے ہیں ۔ ان زونوں میں صنعتی پارک بنائے جائیں گے جن کی تفصیل اس پلان میں نہیں دی گئی۔ صرف چند چیدہ چیدہ صنعتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ شمال مغربی اور مغربی زون میں خیبرپختونخوا اور بلوچستان واقع ہیں۔ ان میں معدنیات کے شعبے پر توجہ دی جائے گی۔ خام لوہا اور سونا بالخصوص قابلِ ذکر ہیں۔ان علاقوں میں قیمتی پتھر ، ہیرے جواہرات اور سنگ مرمر افراط سے پائے جاتے ہیں۔ چین پہلے ہی پاکستان سے 80ہزار ٹن سنگ مرمر سالانہ خرید رہا ہے۔ اس پلان میں سنگ مرمر کی خریداری کے 12نئے مراکز قائم کئے جائیں گے جو شمال میں گلگت، کوہستان سے لے کر جنوب میں خضدار تک پھیلے ہوں گے۔وسطی زون میں سب سے زیادہ توجہ ٹیکسٹائل پر دی جائے گی۔( اس کا ذکر بعد میں) داؤد خیل، خوشاب، عیسیٰ خیل اور میانوالی میں سیمنٹ کے نئے کارخانے لگائے جائیں گے۔


جہاں تک جنوبی زون کا تعلق ہے تو اس میں سندھ کوخصوصی طور پر زیر نظر رکھا گیا ہے۔ پیٹرو کیمیکل، فولاد، بندرگاہ سازی کی صنعت، انجینئرنگ کی مشینری اور گاڑیوں (Cars)اور آٹو پارٹس کی پیداوار کا بطور خاص ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں آٹو انڈسٹری بڑی تیزی سے فروغ پذیر ہورہی ہے لیکن اس ’’مبینہ‘‘ ماسٹر پلان میں اس کا کوئی ذکر نہیں۔ شائد جاپان کی آٹو انڈسٹری (ٹیوٹا، ہونڈا، سوزوکی) کی شہرت اور دوسرے سفارتکارانہ تقاضوں کی وجہ سے اس سیکٹر کا زیادہ ذکر نہیں کیا گیا۔گوادر بھی جنوبی زون میں واقع ہے اور سی پیک (CPEC) کی داخلی بندرگاہ ہے جو بلوچستان کو افغانستان سے ملاتی بھی ہے۔ اس پلان میں سفارش کی گئی ہے کہ اس بندرگاہ پر بھرپور توجہ دی جائے اور یہاں بھاری کیمیکل انڈسٹریاں قائم کی جائیں۔ ان کے علاوہ خام لوہا، پیٹروکیمیکل اور فولاد کی صنعتوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے۔ اس بندرگاہ کی سٹرٹیجک لوکیشن کی وجہ سے بعض چینی کمپنیوں نے ابھی سے اپنے ہیڈ کوارٹرز اور دفاتر یہاں کھول لئے ہیں اور تعمیراتی سیکٹر میں سرمایہ کاری کا آغاز کردیا ہے۔ مشرق وسطیٰ سے آنے والے خام تیل، خام لوہے اور کوئلے کی درآمدات چونکہ یہاں سستی پڑیں گی اس لئے چینیوں نے ابھی سے اس پر بڑی تیزی سے کام شروع کردیا ہے۔ٹیکسٹائل کا ذکر اوپر کیا گیا ، یہ انڈسٹری سنکیانگ میں پہلے ہی پھل پھول رہی ہے۔ چین ، پاکستان سے ارزاں نرخوں پر یارن اور کاٹن لائل پور بھیج کر گارمنٹ انڈسٹری کو فروغ دے سکتا ہے۔ ان صنعتوں کے قیام پر جو اخراجات آئیں گے، چینی کمپنیاں اول اول ان میں بھاری سرمایہ کاری کریں گی اور مقامی صنعت کاروں کو بہت سی سہولیات بھی مفت فراہم کی جائیں گی۔


زراعت اور صنعت و معدنیات کے بعد تیسرا شعبہ فائبر آپٹکس اور سروے لینس کا ہے۔ جب سے سی پیک کی شروعات ہوئی ہیں فائبر آپٹکس کو سب سے زیادہ اہمیت دی جارہی ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان تیز ترین مواصلاتی رابطے کا ذریعہ یہی فائبر آپٹکس ہے۔ ۔۔۔ یہ فائبر آپٹکس کیا چیز ہے، اور اس کی اہمیت کیا ہے، اس کا اندازہ بیشتر پاکستانیوں کو نہیں۔


فائبر آپٹکس، شیشے کی بنی ہوئی وہ باریک ترین تاریں ہیں جن سے روشنی گزرتی ہے اور جس سے گزرنے والی مواصلات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے برابر ہے بلکہ اس رفتارکو مزید بھی بڑھایا جاسکتا ہے۔ یہ تاریں پہلے پیتل اور تانبے کی بنی ہوئی ہوتی تھیں جن میں برقی مواصلاتی روکا سفر آہستہ ہوتا تھا، اس کو بچھانے میں خرچ بھی زیادہ آتا تھا اور اس کو خطرات بھی زیادہ لاحق ہوتے تھے۔ لیکن فائبر آپٹکس وہ تار ہے جس کی موٹائی انسانی بال سے کچھ ہی زیادہ ہوتی ہے۔ ایک سنٹی میٹر قطر کی پائپ میں لاکھوں فائبر آپٹکس سما جاتی ہیں اور ایک بڑے کیبل میں 20,15چھوٹی پائپیں داخل کرکے ان کو سمندر میں بچھا دیا جاتا ہے ۔ ان تاروں کو زیر آب بچھانے کا کام بہت محنت طلب اور مشکل ہوتا ہے لیکن جب ایک کیبل (جس میں کروڑوں تاریں شامل ہوتی ہیں) کو سمندر کی تہہ میں بچھادیا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سمندر کے ایک ساحل سے دوسرے ساحل تک تیز ترین مواصلاتی سلسلہ قائم کر دیا ہے۔


مثال کے طور پر بحراوقیانوس کے مغربی ساحل پر نیو یارک (امریکہ) سے اس کے مشرقی ساحل آئرلینڈ (پورپ) یا مراکش (افریقہ) تک جو فائبر آپٹکس کیبل بچھائی جاتی ہے اسی کے ذریعے ہمارا انٹرنیٹ اور موبائل (وائی فائی وغیرہ) سے رابطہ قائم ہو جاتا ہے۔ سمندر کے دونوں اطراف میں فائبر آپٹکس کے سٹیشن قائم کردئے جاتے ہیں جو زیر آب بھی ہوتے ہیں اور بالائے آب خشکی پر بھی۔ اس کیبل کو کاٹ دیا جائے یا کسی زیر آب حادثے کی وجہ سے یہ کیبل کٹ جائے تو اس کی مرمت ایک نہائت مشکل، صبر طلب اور ہمت طلب کام ہوتا ہے جس کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں کیوموبائل (Q mobile) اور ہوائی یا اوپو (Oppo) موبائلوں وغیرہ کی جو گہماگہمی آج کل آپ کو میڈیا پر نظر آتی ہے اس کی ساری کارکردگی فائر آپٹکس ہی کی مرہون احسان ہے!


جہاں تک سروے لینس (نگرانی) کا تعلق ہے تو یہ ایک ٹیکنیکل موضوع ہے۔ پاکستان میں پشاور، لاہور اور کراچی میں ایسے سروے لینس سٹیشن قائم کئے جائیں گے جن سے مواصلات کی 24گھنٹے نگرانی کی جاسکے گی۔ آسان زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ پورے پاکستان میں اگر کسی جگہ کوئی گاڑی متحرک ہوگی تو اس کی خبر اور اس کی نگرانی کی جاسکے گی۔ پلان میں ابھی تک یہ طے نہیں کیا گیا کہ اس سسٹم کو کون کنٹرول اور کون کمانڈ کرے گا اور اس کے دوسرے متعلقہ طریقہ ہائے کار (SOPs) کیا ہوں گے۔ یہ پلان اگر 2030ء تک کی مدت کا احاطہ کرتا ہے تو یہ سروے لینس سٹیشن 2028-29ء تک بھی قائم ہو جائیں اور آپریٹ کرنا شروع کردیں تو چین اور پاکستان کے درمیان مواصلاتی ٹریفک کی نگرانی کی جو سہولیات فراہم ہوں گی وہ بہت مفید ہوں گی۔ تاہم یہ شعبہ ایسا ہے کہ اس پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اس لئے اس کو 2030ء کے بعد کے ماسٹر پلان میں بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ اب آخری شعبہ جو اس ماسٹر پلان میں ڈسکس کیا گیا ہے وہ سیروسیاحت کا شعبہ ہے۔۔۔۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سیروسیاحت (ٹورازم) پاکستان کے خوش منظر اور سرسبز شمالی علاقوں کے بارے میں ہو گی۔مری، ایبٹ آباد، حسن ابدال، ٹیکسلا، ننکانہ صاحب، سوات، ہنزہ، چترال اور سکردو وغیرہ کے علاقے ہوں گے جوکسی مذہبی ، تہذیبی یا ثقافتی تناظر میں سیاحوں کا دامن دل کھینچتے ہوں گے۔۔۔۔ لیکن ہرگز ایسا نہیں۔


آپ حیران ہوں گے کہ اس ماسٹر پلان میں سیروسیاحت کے یہ سارے مناظر پاکستان کے ساحلی علاقوں میں فائر ہوں گے جو کراچی سے گوادر اور جیونی تک پھیلے ہوں گے۔ پاکستان نے آج تک ان ساحلی علاقوں کی سیاحت کی طرف توجہ ہی نہیں دی لیکن چین کے اس ماسٹر پلان میں ساحلِ سمندر پر تعمیر کئے جانے والے ہوٹل، ریستوران، شبستان (نائٹ کلب)، گاف کورس، آبی حیات کے عجائب گھر، تھیٹر، سینما ہاؤس (برلبِ ساحل)،داٹر سپورٹس، گرم آبی حمام، سرد آبی حمام، خوشنما کشتیوں اور بجروں پر حور شمائل پری زاروں کے جھرمٹ میں لب ساحل منتظر آدم زادوں کی فوج ظفر موج، ریگِ ساحل پر حسین و جمیل خواتین کی دوڑوں کے مقابلے، ساحل پر تعطیلات منانے کے لئے بیرونی ممالک کے سیاحوں کا ہجوم اور اسلامک کلچر، یورپین کلچر، ایشین کلچر اور آسٹریلین کلچر کا اجتماعی مظاہرہ کرنے والے ’’کھیل تماشے‘‘۔۔۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یا اللہ یہ سب کچھ پاکستان میں کیسے ہوگا؟ کیا میزبان بھی باہر سے منگوائے جائیں گے؟ کیا ان ساری تماشگاہوں کے انتظامات پاکستانیوں کے ہاتھوں میں ہوں گے یا یہ ایک سہانا خواب ہے جو چین کے اس ماسٹر پلان میں درج کردیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کتنابھی ترقی کرلے اور چین، پاکستان کی ٹورازم انڈسٹری کو کتنا بھی ماڈر نائز کردے، کیا یہ سب کچھ ممکن ہے اور وہ بھی 2030ء تک ؟۔۔۔ کیا کیٹی بندر، اور مارا، پسنی، جیونی اور سعونمیانی کے ساحلوں پر یہ سب کچھ دستیاب ہو سکے گا؟۔۔۔ کیا یہ چین کا عطا کردہ یا پلان کردہ یوٹو پیا ہوگا جو کبھی حقیقت نہیں بن سکے گا؟


میں قارئین سے معذرت خواہ ہوں کہ ایک خشک اور بورکردینے والے موضوع پر کالموں کا یہ سلسلہ لکھ کر ان کا وقت ضائع کیا ہے۔ بظاہر یہ پلان ایک ایسا سبز باغ ہے جو شاید ہی تشکیل پاسکے!۔۔۔یہ ایک ’’چینی آرزو‘‘ تو ہوسکتی ہے اور پاکستانیوں کوایک ولولۂ تازہ عطا کردینے کا ایک مژدۂ جانفزا تو ہو سکتا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر آنے والے 13,12 برسوں میں (2030ء تک) مشکل ہی نہیں ناممکن نظر آتی ہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اس پلان کے بعض حصے ابتدائی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ لیکن آج پاکستان کو جس طرح کے اندرونی اور بیرونی خطرات کا سامنا ہے ان کی موجودگی میں سی پیک کا یہ ’’ماسٹر پلان‘‘ ایک خوش آئند خواب کے سوا میرے نزدیک اور کچھ بھی نہیں۔


اس ماسٹر پلان کے مصنف نے اس کے آخری پیراگرافوں میں جن خطرات کی طرف خود اشارے کئے ہیں وہ بھی قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔ مصنف لکھتا ہے۔۔۔ ’’پلان کسی بھی طرح کا ہو اور اس کا رنگ و روپ اور حجم کتنا ہی چھوٹا بڑا یا خوبصورت یا بدنما کیوں نہ ہو، اس کی تکمیل کے لئے سرمایہ درکار ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چین نے دعوے تو کردئے ہیں کہ ان سب کی سرمایہ کاری میں وہ مدد دے گا لیکن ’’ چائنا ڈویلپ منٹ بینک‘‘ جب فنانسنگ سیکٹر کی بات کرتا ہے، حکومت پاکستان کے موجودہ قرضوں کا حجم دیکھتا ہے اور ملک کی اوورآل مالی اور اقتصادی ’’صحت‘‘ پر نگاہ ڈالتا ہے تو رک جاتا ہے اور اس کی پر امید جذباتیت کو بریک لگ جاتی ہے۔ سب سے بڑا رسک جو اس ماسٹر پلان کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے وہ پاکستان کی سیاست ہے، ایک دوسرے کی شدید حریف سیاسی پارٹیاں ہیں، مذہبی حسّساستیں ہیں، قبیلے اور ذات برادریوں کی جھگڑے اور ان کی آویزشیں ہیں، بدترین، دہشت گردی ہے اور مغربی ممالک کی مداخلت ہے!۔۔۔ ملک کی سیکیورٹی کی صورت حال اور بھی بد ترین ہے۔ بڑھتی ہوئی افراطِ زر ہے جو گزشتہ برسوں میں 11.6فی صد تک چلی گئی ہے۔ اس بڑھتی ہوئی افراطِ زر کا مطلب یہ ہے کہ ماسٹر پلان میں بیان کردہ منصوبوں کی لاگت بڑھ جائے گی اور منافع کم ہو جائے گا!‘‘


میں جب اس خوشنما اور پرکشش ماسٹر پلان کی آخری لائنیں پڑھ رہا تھا تو مجھے لگا جیسے چینیوں پر صبحِ صداقت طلوع ہو رہی ہو اور جیسے ہم پاکستانیوں پر شامِ ناامیدی کے سائے اتر رہے ہوں!۔۔۔ ناامیدی گناہ ہے لیکن طویل سہانے خوابوں سے بیدار نہ ہونا بھی گناہ ہے!

مزید :

کالم -