عمران خان کے کارکنوں کے لئے (2)

عمران خان کے کارکنوں کے لئے (2)
عمران خان کے کارکنوں کے لئے (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

میری کسی بھی پارٹی سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں ہے، عمران خان سے میری تین دفعہ ملاقات ہوچکی ہے،شاہ محمود قریشی اوردوسرے تحریک انصاف کے رہنماﺅںسے میری گاہے بگاہے فون پربات ہوتی رہتی ہے۔میری ناصرف تحریک انصاف، بلکہ پاکستان کی ہرپارٹی سے صرف ایک ہی لڑائی ہے کہ اگرغریبوں  کو اپنی پارٹی قیادت میں شامل نہیں کرسکتے اورانہیں برابری کے حقوق نہیں دے سکتے، توپھراُن کے نام پرووٹ لینا بھی چھوڑ دو اور اپنی پارٹی دفترکے باہرایک بڑاساسائن بورڈلگادو کہ اس پارٹی میں اہمیت صرف اُس آدمی کوملے گی، جس کے سیاسی سائیں تگڑے ہوں گے یا جس کے پاس ایک کروڑ سے زائد بینک بیلنس ہو گا اگر پھر بھی عوام اُس جماعت کو ووٹ دینا پسند کریںاوراکثریت دلائیں تواس سیاسی جماعت کا حق ہے کہ وہ اپنی حکومت بنائے۔
آج کل اگر ہرسیاسی پارٹی کا منشور پڑھا جائے تو اس میں صرف ایک ہی بات کی تمہید نظر آتی ہے غریبوں کے حقوق، غریبوں کے حقوق، لیکن اُس جماعت میں ہوتے سبھی سرمایہ دار ہیں۔ اب سرمایہ دارجوکہ اپنی زکوٰة اور ٹیکس دینے میں ہیرا پھیری کرتے ہیں، وہ کیا غریبوں کو اُن کے حقوق دلائیں گے۔ شاہ محمود قریشی کی بے حسی کی مثال ملتان جلسے میں سب کے سامنے ہے جب ڈی جے بٹ ایمبولینس کےلئے پکار رہا تھا اور شاہ محمود قریشی کی طرف سے جواب مل رہا تھا خیر ہے، خیر ہے کیا ایک تقریر کسی غریب انسان کی زندگی سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ پتہ نہیں کب ان لوگوں کو احساس ہو گا کہ سیاست سے زیادہ انسانیت کی قدرضروری ہوتی ہے۔
عمران خان ایک کھرا آدمی ہے۔اس کی نیت بھی اچھی ہے وہ پیسے کا لالچی اور عہدے کا بھوکا بھی نہیں ہے، کیونکہ اگر اسے پیسہ چاہئے ہوتا تو مسلم لیگ(ن) نے جتنا پیسہ دھرنوں کی سیکیورٹی پر لگایا ہے اس سے دگنا اسے دے کر پانچ سال کے لئے خاموش کرا سکتی تھی۔ سیاست میں آنا بھی اس کا پاکستانی قوم پر ایک بہت بڑا احسان ہے، کیونکہ1992ءکا ورلڈکپ جیتنے کے بعد جتنی شہرت اور پیسہ اس کے پاس آ چکا تھا اس سے وہ پوری زندگی عزت سے گزار سکتا تھا۔ بہت سے سابق کرکٹر ریٹائرمنٹ کے بعد دوسرے ممالک میں خوشحال زندگی گزار بھی رہے ہیں۔ عمران خان صرف ایک غلطی کر گیا ہے اپنی شہرت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے چاہئے تھا کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کوایک ایسی پارٹی بنا دیتا کہ اگر تحریک انصاف کی طرف سے کسی کھمبے کو ٹکٹ دی جاتی تو وہ بھی جیت جاتا اور الیکشن جیتنے کے لئے دوسری جماعتوں کے سیاسی رہنماﺅں کی ضرورت نہ پڑتی، وہ تبدیلی ہی اصل تبدیلی ہونی تھی جب تحریک انصاف شروع سے آخر تک نئے لوگوں کی قیادت میں اقتدارکا حصہ بنتی۔
دوسری جماعتوں سے آنے والے سیاسی لوگوں کی وجہ سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ عمران خان کے دوسری جماعتوں پر لگائے جانے والے الزامات کی اہمیت صفرہوجاتی ہے،کیونکہ جب بھی کسی پرایک انگلی اٹھائیں تو تین انگلیاں اپنی طرف آتی ہیں۔ عمران خان جب یہ کہتا ہے کہ دوسری جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے معرض وجود میں آئی ہیں تو تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ دائیں بائیں نظر دوڑا کر دیکھو وہ لوگ بھی تواسی اسٹیبلشمنٹ کاحصہ رہے ہیں۔ جب عمران خان کہتا ہے کہ مَیں سرمایہ داروں کی دولت ملک کے غریب عوام میں بانٹ دوں گا تو تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیاشاہ محمود قریشی اور جہانگیر خان ترین اپنی دولت عوام میں بانٹیں گے اور کیا انہوں نے اس نیک کام کے لئے پارٹی میں آنا پسند کیا ہے اور اسی لئے جہانگیر ترین نے اپنا جہاز خان صاحب کے سپرد کررکھا ہے کہ وہ برسراقتدار آکر ان کی دولت غریبوں میں بانٹ دیں۔ عمران خان کی حکم عدولی وہ پہلے بھی کر چکے ہیں، جب عمران خان نے سول نافرمانی کی تحریک چلاتے ہوئے بجلی کے بل جمع نہ کروانے کا کہا، لیکن شاہ محمود قریشی سمیت دوسرے تمام رہنماﺅں نے اپنے اپنے بل جمع کروا دیئے۔
عمران خان جب یہ کہتا ہے کہ نیاپاکستان بناﺅں گا تو تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ پرانے سیاست دانوں کے ذریعے نیا پاکستان کیسے بنے گا۔ عمران خان جب میاں محمد نوازشریف پر یہ الزام لگاتا ہے کہ وہ غریبوں کو اپنے پاﺅں کی جوتی سمجھتا ہے تو تنقید کرنے والے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا عمران خان غریب لوگوں سے سلام لینا گوارا کرتا ہے میری تو خود تحریک انصاف کے بہت سے کارکنوں سے اس سلسلے میں بات ہوئی ہے ایسے کارکنوں سے جن کو تحریک انصاف میں شامل ہوئے چھ، چھ، سات، سات سال ہو گئے ہیں ان کا کہناہے کہ ابھی تک اُن کی عمران خان سے ملاقات تک نہیں ہوئی۔جب عمران خان یہ کہتا ہے کہ نواز شریف وی آئی پی پروٹوکول کیوں استعمال کرتا ہے تو تنقید کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ کیا عمران خان بذات خود وی آئی پی پروٹوکول نہیں لیتا۔کسی بھی انسان، جماعت یا فرقے پر تنقید کرنا بہت آسان کام ہے،لیکن خود کو بہتر بنانا بہت مشکل کام ہے اصل مزہ تو تب ہی آتا ہے، جب کسی دوسرے پر ایک انگلی اٹھائی جائے اور اپنی طرف بڑھنے والی تینوں انگلیوں کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہ ہو۔

عمران خان کے کارکنوں کو چاہئے کہ وہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے ووٹ بھی ضرور دیں، لیکن اندھی حمایت بالکل نہ کریں، جبکہ دوسری سیاسی جماعتوں کی بے ضابطگیوں کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت میں ہونے والی غلط باتوں کے خلاف بھی آواز ضرور اٹھائیں۔ اس سے فائدہ ہی فائدہ ہو گا اور وہ تبدیلی، جس کا ہر کوئی نعرہ لگاتا ہے وہ صحیح معنوں میں اپنی جڑیں پاکستان میں مضبوط کرے گی۔

مزید :

کالم -