اُستادِ گرامی حضرتِ احسان دانش!

اُستادِ گرامی حضرتِ احسان دانش!
اُستادِ گرامی حضرتِ احسان دانش!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گزشتہ ماہ22مارچ2015ء کو احسان دانش کی 32ویں برسی کے حوالے سے جو کالم لکھنے شروع کئے وہ چار قسطوں میں تھے۔32برس یوں بیت گئے جیسے کل کی بات ہے۔ احسان صاحب سے ارادت و حصولِ سعادت کا سلسلہ1966ء سے شروع ہوا، جب مَیں اُن کی قیام گاہ’’دانش آباد‘‘ انار کلی سے تھوڑے سے پیدل کے فاصلے پر پنجاب بُک ڈپو میں ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ کا ایڈیٹر بنا۔۔۔ اس سے پہلے ہفت روزہ’’ حمایتِ اسلام‘‘ میں جناب پیام شاہجہانپوری سے قربت رہی ، پھر63ء سے ستمبر1966ء تک جب مَیں بیک وقت چار رسالوں ماہنامہ ’’شمع، بانو، آئینہ اور بچوں کی دُنیا‘‘ کا مدیر رہا تو اُس وقت تک بھی پیام صاحب کی رہنمائی حاصل رہی۔ جب شہرت و مقبولیت اور ’’ادارت‘‘ کے عروج پر تھا تو احسان دانش صاحب کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہُوا۔ جہاں اُن کے متعدد نئے پرانے شاگردوں یا خوشہ چینوں کے ساتھ حضرتِ شورش کاشمیری سے بھی تقریباً روزانہ ملاقات ہو جاتی۔ وہ آخر دم تک باقاعدہ شاگردی کا دم بھرتے رہے کہ اُنہیں عبدالکریم اُلفت سے شورش کاشمیری بنانے والے احسان دانش ہی تھے۔

شورش اپنی تازہ نظم یا غزل یا کوئی بھی شعری تخلیق اُستاد کو سنائے، دکھائے بغیر اپنے مقبول ترین جریدے ’’چٹان‘‘ میں نہ چھاپتے۔ وہ روزانہ رات کو نو، دس بجے کے دوران ’’دانش آباد‘‘ آتے۔ شلوار، قمیض، کوہاٹی چپل پہنے ہوتے آستینوں کے کف کھلے ہوئے، گریباں چاک، چہرے بشرے سے ایک عجب وارفتگی، بلکہ سرشاری کے عالم میں اُستاد کے قدموں میں پھسکڑا مار کر بیٹھ جاتے، قمیض کی جیب نوٹوں سے لبا لب بھری ہوتی، احسان دانش صاحب کچھ مستحقین، طلباء، یتامیٰ اور بیواؤں کی مدد کے لئے چٹیں تھما دیتے۔ آغا شورش کاشمیری اُستاد کے احکامات پر چُوں چرا نہ کرتے، حسبِ مقدور حاجت مندوں کی حاجت روائی ہوتی۔ اُستاد کو تازہ کلام سناتے اور احسان صاحب کبھی کبھار کوئی لفظ، کوئی مصرعہ بدلوا دیتے۔ عموماً کلام شاعر بہ زبانِ شاعر سنتے ہوئے ، ہوں ہاں کر کے گُزر جاتے اور کہیں بھی حرف گیری نہ کرتے تو شورش کاشمیری ہتھّے سے اُکھڑ جاتے اور ہلکی پھلکی گالی سے نوازتے ہوئے گویا ہوتے:’’اُستاد۔۔۔ ‘‘ صحیح سُن کر اصلاح دو۔۔۔ جبکہ احسان دانش کے نزدیک وہ فارغ الاصلاح تھے، مگر جب تک اُستاد کوئی معمولی سا نقطہ بھی نہ لگاتے تو اُنہیں یقین ہی نہ آتا کہ اُن کی تخلیق نک سُک سے ہر طرح سو فیصد درست، بلکہ عمدہ ہے۔ ایک دفعہ غزل کے اسلوب میں شورش نے نظم لکھی:
نظامِ کہنہ بدل رہا ہے
جدید اسلوب ڈھل رہا ہے
جوان نسلیں تنی ہوئی ہیں
عجیب جذبہ مچل رہا ہے
مذاقِ انساں کی خیر یا رب!
مزاجِ دَوراں بدل رہا ہے
اِسی غزل کی فارم میں نظم کا ایک شعر یہ تھا:
غزل کا لہجہ بقول دانش!
قلم کی رو سے اُچھل رہا ہے
یُوں اپنے کلام پر استاد کی سند کو محفوظ کر دیا

کہ، گویا شورش کی نظم میں بھی غزل کا لہجہ قلم کی رو سے اُچھل رہا ہے۔۔۔! احسان دانش صاحب کو لباس میں سادگی پسند تھی انہیں زیادہ تر کھدر کا کُرتا، پاجامہ مرغوب تھا۔ کھدر عموما کمالیہ کی ہوتی جو قدرتی گیروے رنگ کی کپاس سے ہاتھ کی کھڈی پر بنی ہوتی۔ کبھی کبھار امیر حبیب اللہ سعدی (ایم پی اے مغربی پاکستان) جب کمالیہ سے آتے تو کھدر بدست آتے امیر حبیب اللہ سعدی بھی احسان دانش کی طرح خاکسار رہے تھے خاکساروں اور خصوصاً علامّہ مشرقی کا لباس بھی یہی تھا انہی امیر حبیب اللہ سعدی کے داماد مشہور و ممتاز دانشور، متعدد کتب کے مصنف کے ایم اعظم ہیں، جو پتلون کے ساتھ شوقیہ کمالیہ کی گیروے رنگ کی کھدر کی بُو شرٹ پہنتے ہیں۔۔۔!


امیر حبیب اللہ سعدی جب کبھی انار کلی میں احسان دانش سے ملنے آتے تو قریب ہی واقع وسیع و عریض دہلی مسلم ہوٹل میں یا پھر جالندھر کیفے میں منڈلی جمتی۔اکثر اوقات مجھے بھی شرکت کا موقع ملتا۔ اسمبلی میں اپنی دھواں دھار حکومت مخالف تقریروں سے دھاک بٹھائے رکھنے والے سنجیدہ مزاج دبنگ امیر حبیب اللہ سعدی حضرتِ احسان دانش سے فرمائش کر کے ’’الہیات‘‘ بھی سنتے اور خود محظوظ ہوتے۔

ایسی ہی ایک نشست میں احسان دانش نے مولانا ماہر القادری کے تازہ موصولہ ماہنامہ ’’فاران‘‘ میں شائع شدہ مولانا ماہر القادری کی ایک غزل کی فی البدیہہ پیروڈی کر کے سنائی۔ غزل چھوٹی بحر میں ’’ڈال دیتا ہوں۔نکال دیتا ہوں۔ ٹال دیتا ہوں‘‘ قسم کے قوافی و ردیف میں تھی۔ اس ترزمین میں جو گُل ہائے ترکی آبیاری احسان دانش نے فی البدیہہ کر کے قدرت کلام اور نُدرت بیان کا ایسا نمونہ پیش کیا کہ اللہ دے اور بندہ لے۔۔۔ اگر یہ پیروڈی مولانا ماہر القادری خود بھی سُن پاتے تو بے پناہ مخلوط ہوتے کہ وہ دوسروں پر پھبتی کسنے کے ساتھ ساتھ خود پر ہنسنا بھی جانتے تھے۔۔۔ ہائے کہاں گئے وہ لوگ!


احسان دانش جب جب تانگے میں بیٹھتے تو ہمیشہ کوچوان کے ساتھ والی اگلی نشست پر پورے کے پورے براجمان ہوتے۔ کہتے تھے منزل کی طرف رُخ ہونا چاہئے۔پیٹھ نہیں ہونی چاہیے،زیادہ تر پیدل چلنے کو ترجیح دیتے۔ پرانی اور نایاب کتابوں کی تلاش کی للک میں گھنٹوں فٹ پاتھ پر بیٹھ کر کتابیں دیکھتے اور اکثر اوقات گوہر نایاب کے حصول میں کامیاب رہتے۔ اُن کی ذاتی لائبریری میں ایسی نایاب کتابوں کا بے انتہا قیمتی ذخیرہ تھا جو مہنگے، بلکہ مُنہ مانگے داموں اِدھر اُدھر فروخت بھی ہوتا رہتا۔ انہیں جتنے بھی رسائل و جرائد ڈاک میں اعزازی طور پر موصول ہوتے وہ اُن کے ریپر اُتار کر سیدھے کر کے سنبھال لیتے اور ان کاغذوں پر حسبِ ضرورت کچھ نہ کچھ لکھ کر ایک تار میں پرو لیتے۔ پاکستان رائٹرز گلڈ کے توسط سے آدم جی ادبی ایوارڈ حاصل کرنے والی ان کی معرکہ آراء کتاب’’جہانِ دانش‘‘ اور انتقال کے بعد شائع ہونے والی ’’جہانِ دیگر‘‘ جیسی عظیم و ضخیم کتاب اِن ہی ریپر والے کاغذوں پر ثبت تحریروں کی مدد سے مکمل ہوئی، احسان صاحب تمام ادبی، نیم ادبی، سیاسی و غیر سیاسی رسائل وجرائد کی الگ الگ تہہ جماتے رہتے اور سال بعد، سال بھر کی مکمل فائل کو الگ الگ سُتلی یا ڈوری سے باندھ کر اور سال کی چٹ اوپر لگا کر الگ الگ ڈھیروں کی صورت میں اپنے علمی و ادبی خزانے کو وسعت دیتے رہتے۔ آخر آخر یہ قیمتی اثاثہ پاکستان کی نیشنل لائبریری میں لاکھوں کے عوض فروخت کیا گیا اور یوں احسان دانش صاحب کے سنجم کے سبب ادبی و ثقافتی ریفرنس کا ایک بڑا اثاثہ محفوظ ہو گیا۔
احسان دانش کے نام سے مشہور اور ’’شاعر مزدور‘‘ کے عوامی لقب سے مزدوروں اور عام لوگوں میں مقبول رہنے والے قاضی احسان الحق ولد قاضی دانش علی نے کاندھلہ کی ادب خیز سرزمین میں آنکھ کھولی وہ اپنی جائے پیدائش کی نشانی کے طور پر مغلیہ دور کے ایک حویلی نما مکان کی تصویر اپنی بیٹھک میں آویزاں کئے ہوئے تھے، حالانکہ انہوں نے1947ء میں قیام پاکستان کے بعد مارکاٹ کے زمانے میں ہجرت نہیں کی تھی، بلکہ وہ اس سے برسوں پہلے خوشی خوشی لاہور میں آ بسے تھے، لیکن بہرحال وہ خود کو مہاجروں میں شمار کرتے تھے، جس طرح انڈیا کے اکثر علاقوں کے افراد میں ہجرت کا ناسٹلجیا برسوں برقرار رہا، کوئی دہلی سے یا کاندھلہ سے آیا، کوئی ہاپوڑ سے یا میرٹھ سے، مظفر نگر، مراد آباد، رامپور، سہارنپور کانپور، بدایوں، دلی یا لکھنؤ سے یعنی یو پی سی پی کے کسی شہر یا قصبے سے آیا پھر امرتسر، جالندھر، فیروز پور، لدھیانہ، بٹالہ، انبالہ سے آیا، بلا تخصیص اپنی جائے پیدائش ناسٹلجیا میں مبتلا نظر آیا۔ اس لئے ادب کی دُنیا میں ادبی لیجنڈ انتظار حسین کو موردِ الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ اپنی ’’جنم بھومی‘‘ کے ناسٹلجیا کا ہر لکھنے پڑھنے والا نخچیر رہا اور ہے۔۔۔!


مزید :

کالم -