نتیجہ

نتیجہ
نتیجہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

جی نہیں! زندگی کا ایک دائم اُصول ہے۔بقا کا انحصار دوسروں کی غلطیوں پر نہیں اپنی خوبیوں پر ہے۔ زندگی اپنے محاسن پر بسر کی جاتی ہے دوسروں کے نقائص پر نہیں۔ انفرادی ہی نہیں اجتماعی زندگی میں بھی مضمون یہی واحد ہے۔۔۔ کراچی میں کسی کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ اگر ایم کیوایم پر اعتراضات میں مزید دس گنا اضافہ ہو جائے، تب بھی نہیں۔سیاسی جماعتوں کو ایم کیوایم کے خلاف نہیں اپنے حق میں کھڑا ہونا پڑے گا۔ اور اپنی حمایت معمول سے کچھ زیادہ خوبیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ سیاسی جماعتیں فاش غلطیوں کی مرتکب ہوئیں۔ وہ سمجھ ہی نہ سکیں کہ ایم کیو ایم کی ساخت ایسی ہے کہ اُسے اُس کی بڑی غلطیوں پر بھی دیس نکالا نہ ملے گا، مگر دیگر جماعتوں کے ساتھ ایسا نہ ہوسکے گا۔ کیونکہ ایم کیو ایم اور دیگر جماعتوں کی ساخت میں ایک جوہری فرق ہے۔ ایم کیوایم کو دیگر جماعتوں کی خرابیوں نے وجود بخشا تھا اُس کی اُٹھان میں ایک تعصب تھا۔ اور تعصب اپنی خامیوں کو باجواز بنا تاہے، لہٰذا خامیوں کا فائدہ ایم کیو ایم تو اُٹھا سکتی تھی دیگر جماعتیں نہیں، مگر این اے 246 کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔


اس حلقے میں تین بڑی جماعتوں کا ہی آپس میں مقابلہ نہ تھا۔ یہاں عسکری اقدامات اور قومی دانش کا بھی ایک مقابلہ تھا۔ یہاں تاریخی تعصبات کا سیاست کے حالیہ اور خود ساختہ رجحانات کا بھی ایک دوسرے سے مقابلہ تھا۔ تصوراتی سطح پر یہاں بہت سے نئے تصورات ایک دوسرے سے عملاً رزم آرا تھے۔ ایم کیو ایم نے سب کو شکستِ فاش دی۔ شکست کا کوئی بھی عذر ہو، مگر وہ شکست ہوتی ہے۔ اور فتح کتنی ہی بھونڈی ہو، فتح ہوتی ہے۔ اس بنیادی حقیقت کو تسلیم کئے بغیر کوئی بھی جماعت کراچی میں اپنے لئے کوئی راستا نہیں نکال سکے گی کہ ایم کیو ایم ایک منظم جماعت ہے جو کسی بھی دوسری جماعت یہاں تک کہ عسکری اشرافیہ کے تضادات سے کھیلنے کی بھی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے۔ کسی بھی دوسری جماعت سے زیادہ ایم کیو ایم وہ جماعت ہے جو ریاستی تضادات اور دیگر صف آرا قوتوں کے نقائص سے فائدہ اُٹھانے کی اہلیت رکھتی ہے۔ ہر نئے بحران میں یہ زیادہ قوت پکڑ کر سامنے آتی ہے۔ ایم کیو ایم سے شدید اختلافات کا یہ مطلب تو نہیں کہ اُس کے بارے میں تجزیہ کرتے ہوئے بنیادی حقائق کو نظر انداز کر دیا جائے۔ پورے ملک میں کسی بھی ملکی قوت کے فنا وبقا کو عسکری نقطۂ نظر سے دیکھنے کا ایک پُر فریب رجحان رائج ہے۔ اس رجحان کو محض’’ طاقت ‘‘کی نسل درنسل اطاعت نے مستحکم کر دیا ہے، مگر تاریخ کاجبر اس سے بڑی طاقت ہے اور یہ ایک دوسری زمینی حقیقت سے متعارف کر اتا ہے، مگر قومی دانش اس طرف متوجہ ہونے کو ابھی تک تیار نہیں۔ سو ایم کیو ایم کا مستقبل ابھی تک محفوظ ہے۔


نائن زیرو پر چھاپے سے رینجرز کو جو حمایت ملی تھی، اُسے بہت تیزی سے اعلیٰ حکام نے اپنی غلط حکمتِ عملی سے ضائع کر دیا۔ ایم کیو ایم اسی کا انتظار کر رہی تھی۔ ایم کیو ایم 1992سے عسکری اور تمدنی اشرافیہ کی ذہنیت کو سمجھتی اور برتتی آئی ہے۔ اُسے معلوم تھا کہ وہ اپنی غلطیوں سے اِسے ’’مہاجر‘‘ مخالف رنگ مہیا کر دیں گے اور وہی وقت اُن کے لئے سب سے زیادہ کارآمد ہوگا۔ ایم کیو ایم نے نائن زیرو پر چھاپے کے وقت کسی لسانی عصبیت کو ڈھال نہیں بنایا ، مگر بعد کی گرفتاریوں میں رینجرز کو اس الزام کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا کیوں ہوا؟ عسکری اشرافیہ اس آپریشن (جراحت) کی سیاسی سطح پر کوئی بھی حمایت کراچی سے منظم نہیں کر سکی۔ٹیلی ویژن اس باب میں ایک نہایت بدترین تعصب کو اُبھارنے کا حصہ بن گئے جو کراچی کے معاملے میں ایسے دانشوروں کے قیدی بن گئے جودوسری لسانی شناختوں کے حامل تھے۔ اِن دانشوروں کی طرف سے بے احتیاطی پر مبنی بیانئے ایم کیو ایم کو ایک ایسی حمایت دوبارہ مہیا کرنے کا محرک بن رہے تھے جو پچھلے تین عشروں سے آہستہ آہستہ زائل ہوتی چلی گئی تھی۔افسوس ناک طور پر عسکری اشرافیہ کراچی جراحت کو اہلِ کراچی کی حمایت کا چہرہ دینے میں ناکام رہی۔


ذرائع ابلاغ اپنے روایتی چہروں کے روزاُگلے ہوئے نوالوں کو بار بار چبانے میں یہ احتیاط ملحوظ نہیں رکھ سکے کہ کراچی جراحت اور انتخاب کو خود اہلِ کراچی کی آنکھ سے دیکھا جائے۔ یہی اعتراض تو بلوچستان کے باب میں خود بلوچوں کو ہے۔ افسوس ناک طور پر طاقت کے مراکز کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آتی کہ تعصب کو پہلی غذا عام لوگوں کی ’’عزتِ نفس‘‘ کی پامالی سے ملتی ہے۔ کراچی جراحت نے یہ مناظر عام کر دیئے ہیں۔ کسی بھی شاہراہ پر جب رینجرز اور پولیس کے سپاہی کسی عام آدمی کو روکتے ہیں اور اُنہیں صرف اس لئے پوچھ تاچھ کے مرحلے سے تحقیز آمیز طور پر گزرنا پڑتا ہے کہ وہ اردو بولنے والا ہے تو وہ پہلا تاثر ہی یہ پالتا ہے کہ اردو بولنے والوں کی آواز ختم نہیں ہونی چاہئے۔ چاہے وہ آواز خود اپنے لئے کتنی ہی باعثِ اذیت ہو۔ آج کل کراچی میں یہ شرمناک مناظر معمول کا حصہ ہیں۔ اِسی تحقیر آمیز سلوک کے تسلسل میں اہلِ کرا چی سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ اصل شناختی کارڈ ضرور رکھیں ورنہ اُنہیں حراست میں لے لیا جائے گا۔ بعد میں اہلِ کراچی رحم کے کسی شاذ لمحے میں اس رعایت کے مستحق پائے گئے کہ وہ نقل بھی پیش کرنے پر گُلو خلاصی پاسکیں گے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کراچی کے اِن عمومی مسائل پر سوائے ایم کیو ایم کے کوئی اور سیاسی جماعت آواز کیوں نہیں اُٹھاتی؟چنانچہ اردو بولنے والے اپنے عمومی مسائل میں جب متعصبانہ طریقے سے سوچتے ہیں تو اپنے لئے نمائندہ آواز ایم کیو ایم کو ہی سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں کتنے بڑے نتائج پیدا کرتی ہے اس کا اندازااین اے 246 کے نتائج سے لگایا جاسکتا ہے۔


این اے 246 پر سب سے بڑی غلطی اس حلقے کو سمجھنے میں ہوئی۔ اس تصور کا خالق بدترین ذہنی افلاس کا شکار تھا جس نے نبیل گبول سے نشست خالی کرانے کا سوچا اور یہ گمان پال لیا تھا کہ ایم کیوایم کو عزیز آباد سے شکست دے کر کوئی پیغام دیا جاسکتا ہے۔حیرت انگیز طور پر ٹیلی ویژن کے مختلف نشریوں میں نبیل گبول کو ایسے پیش کیا گیا جیسے وہ کوئی ہیرو ہو۔ اگر ایم کیو ایم کے موقف سے لڑنے کے لئے نبیل گبول ایسے لوگوں کی ہی مدد مل سکتی ہے تو پھر اس کی ناکامی پر کوئی شک نہیں ہونا چاہئے۔ ذرائع ابلاغ یہ بات سمجھ ہی نہیں پارہے تھے کہ نبیل گبول کی باتیں اردو بولنے والوں میں ایک ردِعمل پیدا کر رہی ہیں۔ وہ جب یہ کہتے کہ ایم کیو ایم کو یہاں سے شکست ہو سکتی ہے تو عزیز آباد کے لوگ اِسے ایک چیلنج کے طور پر سنتے تھے۔نبیل گبول کو اُس حلقے کے متعلق بولنے کا اخلاقی طور پر کوئی حق نہ تھا جہاں وہ اپنے بل بوتے پر نہیں، بلکہ صرف ایم کیو ایم کی وجہ سے منتخب ہوئے تھے۔ ذرائع ابلاغ نے نبیل گبول کی باتوں پر جائز سوالات اُٹھانے کے بجائے اِسے چسکے کا ذریعہ بنا لیا۔ ایسے موقع پر حلقے کے لوگوں کو اُلٹی خوراک ملنا شروع ہوگئی۔ نبیل گبول یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایم کیو ایم کی انتخابی مہم چلا رہا تھا۔دوسروں کی خامیوں کا فائدہ صرف ایم کیو ایم کو اُٹھا نا آتا ہے۔نبیل گبول ہی نہیں باقی جماعتیں بھی یہ اندازا نہیں لگا سکیں کہ وہ ایم کیو ایم کے عیوب پر حلقے میں جگہ نہیں بنا سکتیں۔ چنانچہ این اے 246 کے نتیجے نے بہت سے دوسرے نتائج بھی مرتب کر دیئے ہیں جسے آئندہ موضوعِ بنائیں گے، مگر یہ نتیجہ تو اب بالکل سامنے کا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی بقا کے لئے ایم کیو ایم کی خامیوں پر نہیں، بلکہ خود اپنی خوبیوں پر انحصارکرنا ہوگا۔

مزید :

کالم -