کیا نواز شریف قوم کے لیڈر نہیں ہیں؟

کیا نواز شریف قوم کے لیڈر نہیں ہیں؟
کیا نواز شریف قوم کے لیڈر نہیں ہیں؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

25اگست کو لاہور میں سابق وزیراعظم نواز شریف نے وکلا کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر یہ مطالبہ کیا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کا غلط بنیادوں پر اور غلط انداز میں کیا گیا فیصلہ واپس لیا جائے، نواز شریف کو اپنی نااہلی کا غم اگر بھولتا ہی نہیں تو ہم اسے ایک فطری بات سمجھتے ہیں، لیکن ایک بات نواز شریف کو بھی سمجھنی چاہیے کہ ان کی نااہلی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔


’’اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘
نواز شریف نے وکلا کنونشن سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے 28جولائی کے فیصلے پر کم از کم 12مرتبہ ضرور تنقید کی ہے اور اپنی نااہلی کے فیصلہ کی داستان اتنی مرتبہ دہرائی ہے کہ وہ ہمیں زبانی یاد ہوچکی ہے، لیکن نواز شریف وکلا کنونشن میں اپنے حق میں زبانی دلائل نہیں دے سکے، بلکہ انہیں لکھی ہوئی تقریر کا سہارا لینا پڑا ہے۔ جب تک نواز شریف تقریر کرتے رہے۔ اُن کے قریب کھڑے آصف کرمانی اپنی نظریں نواز شریف کے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تحریری تقریر پر جمائے ہوئے عجیب طرح کی بے چینی اور بے قراری میں مبتلا رہے۔ ان کے اضطرار و اضطراب کی وجہ شاید یہ تھی کہ نواز شریف اپنی لکھی ہوئی تقریر پڑھتے ہوئے کہیں کوئی جملہ چھوڑ نہ دیں یا تقریر کا کوئی کلمہ آگے پیچھے نہ کردیں۔ حیرت کی بات ہے کہ نواز شریف خود کو ایک جمہوری اور عوامی راہنما کہتے ہیں اور اس بات میں سچائی بھی ہے کہ وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔ 1947ء سے لے کر 2017ء تک نواز شریف ہی وہ واحد سیاست دان ہیں جو تین دفعہ پاکستان کے وزیر اعظم رہے، لیکن تعجب کی بات ہے کہ وہ وکلا کنونشن سے خطاب کے لئے بیس تیس منٹ کی ایک تقریر بھی حفظ نہیں کرسکے۔ اگر وہ اپنے خلاف ہونے والی ’’سازش‘‘ کی کہانی بھی ٹھیک طرح سے زبانی بیان نہیں کرسکتے تو پھر وہ کس موضوع پر اپنے ’’عالمانہ خیالات‘‘ کا زبانی اظہار کرسکتے ہیں، اگر نواز شریف کے ساتھ ہم درد مندی اور ہمدردی والا تعلق محسوس نہ کرتے تو کبھی بھی ہم اس بات کو اس قدر طول نہ دیتے کہ نواز شریف نے وکلا کنونشن میں زبانی تقریر کیوں نہیں کی؟ ہمارے خیال میں لکھی ہوئی تقریر میں وہ اثر نہیں ہوتا جو زبانی تقریر میں ہوتا ہے، اگر پندرہ سو یا دو ہزار سامعین کے سامنے لکھی ہوئی تقریر ہی پڑھنی ہے تو یہ تحریر تمام اخبارات میں چھپنے کے لئے ویسے ہی نواز شریف کی طرف سے بھجوائی جاسکتی تھی۔ اخبارات کو بھی نواز شریف کی صورت میں ایک اچھا مضمون نگار یا کالم نویس میسر آجائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ کالم لکھا ہوا اور تقریر زبانی ہی اپنے نقوش گہرے طور پر مرتب کرسکتی ہے۔ نواز شریف نے اپنی نااہلی کیس سے متعلق وکلا کے سامنے جو 12سوالات رکھے ہیں۔ یہ سوالات یقیناً کسی وکیل کی رہنمائی ہی میں لکھے گئے ہیں جو دوبارہ وکلا کے سامنے ہی پیش کردیئے گئے۔ نواز شریف کے پیش نظریہ بات ضرور رہنی چاہئے کہ وکلا کے منتخب تمام ادارے ہائی کورٹس کی سطح کی بار ایسوسی ایشن ہو، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، صوبائی بار کونسلز ہوں یا پاکستان بار کونسل۔ وکلا کے منتخب اداروں کی اکثریت نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو درست سمجھتی ہے۔ وکلا کی اکثریت نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو آئین کی سربلندی، قانون کی بالادستی اور انصاف کی حکمرانی قرار دیتی ہے۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن یا سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن تو شاید نواز شریف کی وہ تقریر سننے کی متحمل بھی نہیں ہوسکتیں جو انہوں نے مسلم لیگ لائرز فورم کی طرف سے منعقد کئے گئے وکلاء کنونشن میں کی ہے۔ کیونکہ وکلا کی اکثریت نواز شریف کے اس انداز کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی جو نواز شریف نے اپنی نااہلی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے خلاف مسلسل اختیار کررکھا ہے۔ نواز شریف کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ وکلا کو نواز شریف کے مقابلہ میں پاکستان میں جمہوریت کا استحکام کہیں زیادہ عزیز ہے۔ وکلا تو اس وقت بھی ملک میں آئین کی سربلندی، قانون کی بالادستی اور جمہوریت کی بحالی کی جنگ لڑ رہے تھے جب نواز شریف ایک جنرل کے آمرانہ دور حکومت میں اس کے ساتھ شریکِ اقتدار تھے۔ وکلا نے ہی جنرل ضیاء کے بعد جنرل مشرف کے خلاف آئین کی بالادستی اور قانون کی سربلندی کی خاطر جنگ لڑی اور اُسے شکست بھی دی۔ وکلا جنرل مشرف کے خلاف آئین کی بالادستی کی جنگ میں کامیاب نہ ہوتے تو نہ پیپلز پارٹی کا دور حکومت آتا اور نہ ہی اس کے بعد نواز شریف کی حکومت ہوتی۔ خوشی کی بات ہے کہ آج نواز شریف بھی جمہوریت، آئین اور سول حکمرانی کی بات بڑی شدت، بڑے زور اور کثرت کے ساتھ کررہے ہیں، لیکن جمہوریت اور آئین کے ساتھ وکلا کا رشتہ بڑا گہرا اور بے لوث ہے۔ وکلا اپنے اقتدار کی خاطر جمہوریت، عوام اور آئین کی بات نہیں کرتے، بلکہ ملک کے مفاد کی خاطر وکلا آئین کی بالادستی کا پرچم فوجی آمریتوں کے ادوار میں بھی اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھامے رکھتے ہیں اور جمہوریت کی شمع کو بجھنے نہیں دیتے۔ نواز شریف کا یہ شکوہ درست ہے کہ آج تک کسی آئین شکن فوجی جرنیل کو اعلیٰ عدالتوں نے سزا نہیں دی، لیکن نواز شریف کو یہ تو معلوم ہوگا کہ آئین سے انحراف کرتے ہوئے جب بھی پاکستان میں کسی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا وکلا نے اجتماعی طور پر اسے مسترد کیا۔ وہ فیصلے وکلا کی نظروں میں کبھی قابل تحسین نہیں رہے، جن فیصلوں کی رُو سے فوجی آمروں کی مارشل لاء حکومتوں کوجائز قرار دیا گیا، لیکن نواز شریف اپنی نااہلی کیس سے متعلق فیصلے کو ان فیصلوں سے مماثلت نہ دیں جو عدالتوں نے پاکستان کو آمریت کے شکنجے میں جکڑنے والے فوجی آمروں کی حمایت میں دیئے تھے، اگر نواز شریف کی نااہلی کیس سے متعلق فیصلہ ان فیصلوں سے ملتا جلتا ہوتا جو جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی آمرانہ حکومتوں کے جواز میں عدالتوں نے دیئے تھے تو پھر وکلا کی اکثریت آج بھی پوری قوت کے ساتھ نواز شریف کی نااہلی کے فیصلہ کو مسترد کردیتی، لیکن معاملہ اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کے بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے کسی شہر، ضلع یا تحصیل کی بار ایسوسی ایشن نے بھی نواز شریف کے اس نقطۂ نظر کی تائید نہیں کی جو وہ اپنی نااہلی کے بعد مسلسل سپریم کورٹ کے خلاف پیش کررہے ہیں۔ نواز شریف اپنے وکلا کی راہنمائی میں جتنے بھی سوالات سپریم کورٹ کے خلاف اٹھارہے ہیں۔ وکلا کی اکثریت نواز شریف کے ان سوالات اور اعتراضات کو مسترد کرچکی ہے اور وکلا کی عظیم اکثریت یہ نہیں سمجھتی کہ نواز شریف کے خلاف غلط بنیادوں پر(نااہلی کیس میں) فیصلہ کیا گیا ہے۔ وکلا کی اکثریت کی رائے ہے کہ اور بھی بہت ساری وجوہات ہیں اور واقعات و حقائق ایسے ہیں، جن کی بنیاد پر نواز شریف کونااہل کیا جانا چاہیے تھا۔ اگر ملک میں ایف بی آر، ایف آئی اے اور نیب جیسے ادارے اپنے فرائض دیانت داری اور ایمان داری کے ساتھ ادا کر رہے ہوتے تو نواز شرف کی نااہلی کے لئے اتنی زیادہ تعداد میں وجوہات سامنے آجاتیں کہ شاید پھر نواز شریف کو وہ تمام سوالات بھول جاتے جو وہ بار بار عوام کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔


نواز شریف نے اپنے سوالات تو عوام اور وکلا کے سامنے رکھ دیئے ہیں، لیکن کیا عوام بھی نواز شریف سے ایک سوال کر سکتے ہیں۔ نواز شریف سے پوچھنے کے لئے تو بہت کچھ ہے، لیکن آج صرف ایک سوال اور ایک استفسار ہی کافی ہے کہ کیا نواز شریف خود کو پاکستان کی زندہ قوم کا زندہ ضمیر لیڈر نہیں سمجھتے؟ نواز شریف نے اپنی ذاتی نااہلی کے مقدمہ کو تو بار بار عوام کے سامنے پیش کیا ہے، لیکن کیا ان کے ضمیر پر اس مقدمے کا جواب دینا فرض اور قرض نہیں جو امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف دائر کیا ہے۔ پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف تمام ترقربانیوں کو فراموش کرکے پاکستان کے خلاف یہ بے بنیاد الزام تراشی کہ پاکستان میں دہشت گردوں کی محفوظ اور منظم پناہ گاہیں موجود ہیں۔ کیا اس کا جواب لاہور میں نواز شریف کی تازہ ترین تقریر میں ایک قومی لیڈر کے طور پر ان کی ذمہ داری نہیں تھی، جس کسی نے بھی نواز شریف کو ان کی نااہلی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے خلاف 12سوالات لکھ کر دیئے ہیں۔ کیا وہ امریکہ کے موجودہ صدر سے استفسار کے لئے تین چار سوالات بھی نواز شریف کو لکھ کر نہیں دے سکتا تھا۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے ضرور نااہل کیا ہے، لیکن پاکستان کے خلاف اگر کوئی بیہودہ الزام تراشی کی جاتی ہے تو اس کا جواب دینے سے تو نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نہیں روکا، اپنی ذاتی نااہلی کیس کے حوالے سے تو وہ بڑی گھن گرج کے ساتھ سپریم کورٹ کے خلاف مسلسل برس رہے ہیں، بلکہ زیادہ غصے اور زور سے بولنے کے باعث ان کا گلا بیٹھ گیا ہے، لیکن امریکی صدر کے خلاف شاید اُن کا گلا کسی نے دباہی دیا ہے اور انہیں اس موضوع پر بات کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ نواز شریف اگر سمجھ سکیں تو ان کی نااہلی کیس کے حوالے سے ان کی تقاریر آئندہ بھی جاری رہیں گی، لیکن اس وقت ان کے نااہلی کیس کے مقابلہ میں پاکستان کے مقدمہ کی کہیں زیادہ اہمیت ہے۔اتفاق سے ابھی حکومت بھی مسلم لیگ (ن)کی ہے۔ موجودہ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی آج بھی نواز شریف کو اپنا لیڈر اور وزیر اعظم تسلیم کرتے ہیں، مگر یہ صورت نہ بھی ہو تو کیا نواز شریف ایک قومی لیڈر نہیں ہیں، پھر ان کی ترجیحات میں تقریر کا پہلا موضوع موجودہ حالات کے تناظر میں ان کا نااہلی کیس ہونا چاہئے یا ٹرمپ کی تقریر کے جواب میں انہیں ایک مدلل اور زور دار تقریر کرنی چاہیے تھی۔ نواز شریف کے طاقتور سیاسی حریف عمران خان نے اب تک کئی غیر ملکی ٹی وی چینلز پر انگریزی زبان میں انٹرویو دیئے ہیں۔ ظاہر ہے انگریزی زبان میں دیئے گئے انٹرویوز ترجمے کے بغیر بھی امریکی پالیسی ساز اداروں تک اپنا پیغام پہنچادیں گے۔ کیا نواز شریف کو ملکی اور غیر ملکی چینلز پر پاکستان کی طرف سے امریکہ کے غلط اور بے بنیاد الزامات کے جواب میں انٹرویوز نہیں دینا چاہیں۔ کیا اُن سے کسی غیر ملکی یا ملکی ٹی وی چینل نے اس سلسلے میں رابطہ ہی نہیں کیا۔ پاکستان نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد سرکاری سطح پر باضابطہ طور سے جواب دے دیا ہے، لیکن نواز شریف اگر سیاست میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور یقیناً وہ سیاست میں خود کو زندہ اور فعال رکھنے کے لئے ہی سپریم کورٹ کے خلاف اپنے جلسوں اور تقاریر میں وقفہ نہیں ہونے دے رہے، اگر وہ ان تقاریر کے درمیان تھوڑا تھوڑا توقف کر لیں۔تو ایک تقریر پاکستان کی طرف سے ٹرمپ کے جواب میں بھی کردیں۔ ایک اچھی تقریر بھی اس وقت فضول اور بے معنی ہو کر رہ جائے گی، جب نوازشریف جیسے بڑے قدوقامت کا لیڈر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ اس گھڑی،اس لمحے اور اس وقت کا سب سے اہم سوال اور اہم معاملہ کیا ہے اور قومی امنگوں کی ترجمانی کے لئے اس وقت مجھے کیا اور کتنا کہنا چاہئے۔ ٹرمپ کی پالیسی تقریر کے خلاف بولنا تو ہماری قومی غیرت اور حمیت کا بھی تقاضا ہے۔ قومی سلامتی کا بھی سوال ہے کہ ہم ٹرمپ کے جھوٹ کا پول کھولیں، لیکن نواز شریف کو اپنا نااہلی کیس بھولے تو وہ کسی قومی مسئلے پر بھی لب کشائی کریں۔

مزید :

کالم -