فیصلے کی گھڑی

فیصلے کی گھڑی
فیصلے کی گھڑی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایک طرف شاہین صہبائی جیسے دور کی کوڑی لانے والے یہ خبر دے رہے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کے لئے وزیر اعظم نوازشریف پر دباؤ بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف سیاستدان ہیں کہ کچھ سیکھنے کو تیار ہی نہیں اگر پورے منظر نامے پر جنرل راحیل شریف کا سکہ ہی چلتا رہے گا اور عوام کو ہر بڑے اور اچھے کام کے پیچھے فوج ہی نظر آئے گی تو سیاست کی افادیت کیسے اور کون ثابت کرے گا؟ سیاستدان تو مل کر اب تک یہ فیصلہ بھی نہیں کر سکے کہ سیاسی جماعتوں کو جرائم پیشہ افراد سے پاک کرنا ہے اور اس کے لئے کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرنی۔ اُلٹا سیاسی جماعتیں اپنے مجرموں اور لٹیروں کی گرفتاری پر واویلا کرتی ہیں اور اس کے دوران ریاستی ادارہ کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھی باز نہیں رہتیں شکر ہے کہ اب مسلم لیگ (ن) والوں نے فوج اور عسکری اداروں کے خلاف زبان بند کر لی ہے اور خواجہ آصف کی طرح بڑھک بازی سے دور ہو گئے ہیں وہ فوج اور رینجرز کا دفاع بھی کر رہے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ فوج ملکی حالات کی بہتری کے لئے اہم کردار ادا کر رہی ہے مگر یہ کافی نہیں حکمران جماعت ہونے کے ناطے اُنہیں بہت کچھ اور بھی کرنا پڑے گا۔ اس تاثر کو ختم کرنا ہوگا کہ فوج کرپشن اور دہشت گردی کی سرپرستی کے لئے استعمال ہونے والے جس کالے دھن میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانے کے لئے آپریشن کر رہی ہے، حکومت اُنہیں بچانا چاہتی ہے۔ نیب کی طرف سے سپریم کورٹ میں میگا کرپشن کیسوں کی جو فہرست پیش کی گئی۔ اس پر مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور وزراء کا ردعمل انتہائی سنگین نوعیت کی غلطی تھی۔ اس سے اس تاثر کو تقویت ملی کہ کرپشن کے خلاف مہم میں فوجی قیادت اور سول حکمران ایک ہی صفحہ پر نہیں ہیں۔ اس سے پہلے یہ خبریں بھی آ چکی ہیں کہ چیئرمین نیب کو عسکری حلقوں کی طرف سے واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ اپنے آئینی فرض کو نبھاتے ہوئے بے دریغ اور غیر جانبدارانہ احتساب کریں اور کسی کو خاطر میں نہ لائیں۔ اب اگر چیئرمین نیب کے خلاف سیاسی حلقوں کی طرف سے مہم چلائی جاتی ہے تو وہ لا محالہ اس ایجنڈے کی نفی ہو گی جو نیشنل ایکشن پلان کے تحت اختیار کیا گیا ہے۔


عقلمندوں کے لئے تو بہت سے ایسے اشارے موجود ہیں کہ جنرل راحیل شریف نے فیلڈ مارشل کی وردی پہنے بغیر جس مہم کا آغاز کر رکھا ہے وہ عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کر چکی ہے اور اُس کی مخالفت کرنے والے عوام کی نظروں میں گرتے چلے جا رہے ہیں مجھے نہیں لگتا کہ آصف علی زرداری مستقبل قریب میں پاکستان آئیں گے۔ اُنہوں نے چراغ سحری کی طرح بھڑک بھڑک کر جو خطاب کیا، وہ اُن کی سیاسی بالغ نظری پر مستقل نشان چھوڑ گیا ہے۔ اُنہوں نے حالات کا ادراک کرنے کی بجائے تھڑا سیاست کی تکنیک استعمال کرتے ہوئے بڑھک بازی سے کام لیا اور یہ سمجھے کہ اُن کی بڑھک سارا کھیل تبدیل کر کے رکھ دے گی۔ وہ یہ بھول گئے کہ اس وقت فوج کی عوام کے دلوں میں کیا قدر و منزلت ہے اور غیر سیاسی رویہ اختیار کر کے فوجی قیادت نے اپنی ساکھ کو کس حد تک بہتر بنا لیا ہے۔ ہاں ملک میں کسی آمر کی حکومت ہوتی اور وہ عوام پر اپنا تسلط برقرار رکھنا چاہتا تو ایسی بڑھک سے ضرور گھبرا جاتا۔ پیپلزپارٹی کے خدشات کو اہمیت دیتا اور زرداری صاحب کو کھانے کی دعوت پر بھی بلاتا، مگر یہاں تو معاملہ بالکل بر عکس ہے جن جرنیلوں کو آصف زرداری نے نشانہ بنایا اُن کے تو کوئی سیاسی عزائم ہی نہیں، وہ تو ملک سے دہشت گردی اور کرپشن ختم کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔


اس کے لئے وہ کسی سے کوئی رعایت کرنے کو تیار نہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے اور آصف علی زرداری سمجھتے تھے کہ اس حکومت کا کارڈ استعمال کرکے وہ حکومت کو مجبور کر سکیں گے کہ وہ رینجرز کو محکموں کے خلاف کارروائیوں سے روکے، وہ اتنی سی بات بھی نہ سمجھ سکے کہ بات وفاقی حکومت کے ہاتھ میں نہیں، بلکہ قومی ایجنڈے کے تحت ریاستی اداروں کے ہاتھ میں آ چکی ہے۔آصف علی زرداری کی زبان سے جو تیر نکلا وہ اُلٹا ان کے جسم میں پیوست ہو گیا۔انہوں نے دوسری کوشش اس وقت کی جب رینجرز کے اختیارات میں توسیع کا مرحلہ آیا۔ روایتی ہتھکنڈے اختیار کرتے ہوئے اعصاب کی جنگ لڑی گئی، مگر یہاں بھی بات نہ بنی، ایک مہینے کی توسیع دینے والوں نے جلد ہی ایک سال کی توسیع دے دی۔ آصف علی زرداری نے ایسا خوشی سے نہیں کیا ہوگا۔ یقیناً انہیں توسیع نہ دینے کی نسبت اس میں اپنے لئے کم نقصان نظر آیا ہوگا۔


آصف علی زرداری کے بیک فٹ پر جانے کے بعد اب یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ وفاقی حکومت فرنٹ فٹ پر کیوں نہیں آ رہی۔ کیوں اس نیشنل ایکشن پلان کو اپنی گورننس کا حصہ بنا کر ملک سے دہشت گردی اور کرپشن ختم کرنے کی بڑی مہم کا آغاز نہیں کر رہی، جس طرح آصف علی زرداری نے حالات کو سمجھنے میں دیر کر دی تھی ، اسی طرح محمد نوازشریف بھی اگر صورت حال کو سمجھنے میں تاخیر کردیتے ہیں تو پھر فوجی قیادت پر یکساں آپریشن کے حوالے سے جو دباؤ بڑھے گا، اس کے اثرات بہت گہرے ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ وفاقی حکومت کو بھی عملاً کوئی ایپکس کمیٹی چلا رہی ہو۔فوج تو مجبوراً کرپشن کے خلاف اپنی جاری مہم کو دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے خلاف مہم قرار دے کر آگے بڑھ رہی ہے، مگر سب کو معلوم ہے کہ اس مہم کا اصل مدعا کیا ہے۔ عوام جو کچھ چاہتے ہیں ،وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ بے لاگ اور شفاف احتساب چاہتے ہیں، وہ کسی کو کلین چت دینے کو تیار نہیں ، چاہے کوئی حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں۔ حیرت ہے کہ ابھی تک وزیراعظم محمد نوازشریف نے اس نکتے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کیا۔ کراچی میں تو کرپشن کے تمام سوراخوں کو بند کرکے اب لٹیروں کو پکڑنے کا مرحلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ لینڈ مافیا سے لے کر بھتہ مافیا اور سرکاری اختیارات کا ناجائز استعمال کرکے عوام کو لوٹنے والوں تک رینجرز اور ایف آئی اے کے ہاتھ پہنچ رہے ہیں۔ اربوں روپے کی کرپشن اور لوٹ مار کرنے والے اپنی کرسیوں سے اٹھ کر بھاگ گئے ہیں اور قانون ان کا پیچھا کررہا ہے۔ یہ تجربہ اور کامیابی ایسی نہیں کہ اسے صرف کراچی تک محدود رکھا جائے، اسے پورے ملک میں استعمال کیا جانا چاہیے اور عوام سمجھتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی میں یہ بات ضرور شامل ہوگی، مگر کیا یہ صورت حال وفاقی حکومت کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہونی چاہیے، کیا پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتوں کو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے بیٹھے رہنا چاہیے۔ کیا کرپشن صرف سندھ یا کراچی میں ہو رہی تھی، باقی پورا ملک اس سے مبرا ہے۔ کیا دہشت گردوں کے مالی سہولت کار صرف کراچی میں تھے۔ باقی کہیں موجود نہیں۔ کیا عوام فوج سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ملک کی دو انتہاؤں، یعنی شمالی علاقوں اور مشرق میں کراچی کو ہدف بنائے اور باقی سارے ملک کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔ میرا خیال ہے فوج ایسا کرے گی اور نہ ہی عوام کو یہ توقع ہے۔


خیبر پختونخوا کی حکومت نے اچھا کیا کہ کرپشن کے الزام میں اپنے ایک وزیر اور سیکرٹری کو جیل بھجوایا۔ اس سے ایک اچھا تاثر اُبھرا کل اگر فوجی ایجنڈے کے تحت نیشنل ایکشن پلان کا یہاں نفاذ ہوتا ہے تو کم از کم حکومت اس طرح عضو معطل نہیں بنے گی جیسے سندھ میں سید قائم علی شاہ کی حکومت بنی ہوئی ہے۔ پھر یہ بھی نہیں ہوگا کہ حاضر سروس وزراء اور سیکرٹریوں کو عدالتوں سے عبوری ضمانتیں کرانی پڑیں۔ احتساب کے حوالے سے صوبوں اور مرکز میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہے تو اس سے فوج پر دباؤ میں کمی آئے گی جو اس پر آہستہ آہستہ کراچی سے باہر بھی احتساب کرنے کے حوالے سے پڑ رہا ہے۔ سیاستدانوں کے علم میں یہ بات ہے یا نہیں کہ سوشل میڈیا پر جنرل راحیل شریف سے عوام جو مطالبات کر رہے ہیں، وہ بہت تشویشناک ہیں خوش آئند بات یہ ہے کہ سب اس نکتے پر متفق ہیں کہ جنرل راحیل شریف اور موجودہ فوجی قیادت کسی غیر آئینی تبدیلی کے حق میں نہیں، وہ جمہوریت کو جاری دیکھنا چاہتے ہیں مجھے شاہین صہبائی کی اس بات سے بھی اتفاق نہیں کہ جنرل راحیل شریف کو فیلڈ مارشل بنانے کے لئے کوئی مہم چل رہی ہے البتہ مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں فوج اس ملک کے بہت سے دیرینہ دکھوں کا علاج کر سکتی ہے۔ اس میں وہ دکھ بھی شامل ہیں جو خود ماضی میں فوجی حکمرانوں کی وجہ سے ملے اور ابھی تک قوم کے لئے عذابِ جاں بنے ہوئے ہیں۔

مزید :

کالم -