انڈیا میں یومِ کارگل!

انڈیا میں یومِ کارگل!
انڈیا میں یومِ کارگل!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

انڈیا نے 25تا27جولائی 2015ء کے تین دن کارگل وار کے ایامِ فتحِ کے طور پر منائے۔ یہ انڈیا کا سولہواں یومِ فتح (یا ایام فتح) قرار دیا گیا جس میں نریندر مودی نے دہلی میں بیٹھ کر اپنی مسلح افواج کے جوانوں کی ’’بہادری اور دلیری‘‘ کو خراجِ عقیدت پیش کیا، جنہوں نے (بقول بھارت) 1999ء میں اپنے 490افسروں اور جوانوں کا بلیدان دے کر ہندو جاتی کو سرخرو کر دیا تھا۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں، یہ جنگ مئی 1999ء میں شروع ہوئی تھی اور جولائی 1999ء میں بٹالک سیکٹر سے آخری پاکستانی سولجر واپس آنے کے بعد ختم ہوگئی۔ دو ماہ سے زائد اس جنگ /تنازعہ میں پاکستانی فوج کا بھی جانی نقصان ہوا لیکن بھارت کے مقابلے میں کم تھا۔دونوں ممالک کی طرف سے سرکاری اعدادوشمار جاری نہیں کئے گئے۔ بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طرفین کا بھاری جانی نقصان ہوا۔ ان نقصانات میں زخمیوں کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ دونوں طرف آخری آدمی، آخری گولی کا حکم تھا۔


بھارت نے یہ تقریبات دراس میں منائیں جو سری نگر۔ لیہ روڈ پر کارگل سے پہلے آتا ہے، ایک بڑا قصبہ ہے اور یہاں چند کلو میٹر کا علاقہ سطح مرتفع (پلیٹو) ہے جس میں ایک چھاؤنی ہے اور چند نجی اور سرکاری عمارتیں اور رہائش گاہیں ہیں۔ انڈین آرمی کے آرمی چیف جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ آج سے تین دن بعد 31جولائی کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ جاتے جاتے کارگل کا ’’جعلی‘‘ جشنِ فتح مناتے جائیں۔ اس جشن کے لئے ان سینکڑوں خواتین کو بھی دراس طلب کیا ہوا تھا جن کے پیارے اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔ پہلے پروگرام تھا کہ ان خواتین کو وزیر دفاع پریکار کے ہاتھوں سے تحفے تحائف اور میڈل وغیرہ نذر کئے جائیں۔ لیکن جس روز بھارتی وزیر دفاع نے (آرمی چیف کے ہمراہ) آنا تھا، اس روز موسم خراب ہو گیا اور وہ نہ آ سکے۔ اگلے روز بھی موسم کے اطوار کچھ ایسے ہی تھے لیکن جنرل دلبیر سنگھ نے ہمت کرکے ہیلی کاپٹر کو دراس کے ایک تنگ سے ہیلی پیڈ پر اتروا ہی لیا۔ جن خواتین کو میڈل دیئے گئے ان کو ’’دلیر خواتین‘‘ ڈکلیئر کیا گیا۔ ہندی میں ان کو اب Veer Narisکہہ کر پکارا جائے گا۔’’ویر‘‘ کا مطلب ہے دلیر اور ناری تو اردو میں بھی خاتون کے ہم معنی لفظ ہے۔


جنرل دلبیر سنگھ سوہاگ نے جشنِ کارگل کی اس تقریب میں افسروں / جوانوں اور خواتین/ حضرات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’انڈین آرمی اب کبھی کارگل کو دہرانے کی اجازت نہیں دے گی۔ جو ہونا تھا سو ہو چکا۔ اب ہماری فوجیں سرحدوں پر لگی ہوئی ہیں اور اس حالت میں ہیں کہ کوئی کارگل دہرانے کا سوچ بھی نہیں سکتا‘‘۔


کارگل کی جنگ جن دنوں ہوئی، ان میں بھارت میں بھی (اور پاکستان میں بھی)اس پارٹی کی حکومت تھی جس کی آج ہے۔ اٹل بہاری باجپائی کا بی جے پی کو کو سنا کہ انہوں نے کارگل وار میں تذبذب سے کام لیا اور بین الاقوامی سرحد پار کرکے پاکستان پر حملہ نہیں کیا، گویا اپنے آپ کو کوسنا ہے۔ باجپائی صاحب، نریندر مودی کے پیشرو تھے۔ اس وقت کے انڈین آرمی چیف (جنرل مالک ) ریکارڈ پر ہیں کہ انہوں نے اپنے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ انٹرنیشنل بارڈر کراس کرکے 6ستمبر 1965ء کو دہرایا گیا تو اس کے نتائج تباہ کن ہوں گے۔۔۔ نجانے جنرل دلبیر سنگھ کا یہ موجودہ بیان اپنی سینا کا مورال اونچا کرنے کے لئے تھایا پاکستان کو ایک اور دھمکی تھی کہ سرجیکل سٹرائیک اور کولڈ سٹارٹ سٹرٹیجی کے علاوہ بھی ہماری پٹاری میں کئی سانپ اور سنپولئے ہیں۔ دیکھیں اب جنرل سوہاگ کے بعد نئے آنے والے آرمی چیف کا موقف کیا ہوتا ہے۔


انڈین آرمی چیف کا ایک اور کاگل کی ’’اجازت‘‘ نہ دینے کا مطلب یہی ہے کہ اب پاک آرمی لائن آف کنٹرول کے پار آنے کی ’’جرات‘‘ نہیں کر سکتی۔ اگر ان کا یہ مطلب ہے توپھر لائن آف کنٹرول کا سٹیٹس بدلنا ہوگا اور اسے ورکنگ باؤنڈری سے پوائنٹ 9842تک بین الاقوامی سرحد بنانا ہوگا۔۔۔ لیکن ایسا کرنا کسی جنرل سوہاگ کے بس میں نہیں۔ جب تک کشمیر کا مسئلہ حل نہیں ہو جاتا، تب تک یہ ’’اجازت‘‘ موقع کی منتظر رہے گی اور جب بھی موقع ملے گا، کارگل دہرایا جائے گا۔ جنرل راحیل شریف ایک بار نہیں دو تین بار بھارتی مسلح افواج کو وارننگ دے چکے ہیں۔ سیالکوٹ کی ورکنگ باؤنڈری پر انڈین بی ایس ایف (بارڈر سیکیورٹی فورس) کے تازہ حملے کوئی نئی بات نہیں۔ اس سیکٹر میں بسنے والے پاکستانیوں نے کئی بار یہ قربانیاں دی ہیں اور کئی بار بھارت کو یاد دلایا ہے کہ ہم تیر کھا کر بھی کمان کھینچنے اور جوابی تیر بازی کرنے کے اہل ہیں۔


ہمیں معلوم ہے کہ جس فلم کا ولن کمزور ہو وہ باکس آفس پر زیادہ کاروبار نہیں کر سکتی۔یہی بات اقوام عالم پر بھی صادق آتی ہے ،جس قوم کا دشمن کمزور ہوگا، وہ خود کمزور رہے گی۔ ازل سے اقوامِ عالم کا دستور یہی ہے۔ جرمِ ضعیفی کی سزا ایک ایسی وارننگ ہے جو پاکستان کو ہمیشہ یاد رہتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ کس کی بغل میں چھری اور منہ میں رام رام ہے۔


سیاسیات منافقت کا کھیل ہے ۔اس میں صداقت ، امانت، دیانت کے معانی وہ نہیں جو عام ڈکشنریوں میں پائے جاتے ہیں۔ افواج عالم کا بھی یہی حال ہے۔ اصطلاح میں اسے Surprise اور Deceptionکا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دونوں پہلو اُن دس عدد اصول ہائے جنگ (Principles of war) میں شامل ہیں جو ہر فوجی کو بتائے، سکھائے اور پڑھائے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو عسکریات کا باب، سیاسیات کے باب سے مختلف نہیں۔ ہاں ایک بڑا فرق ضرور ہے!۔۔۔ اور وہ یہ ہے کہ جہاں سیاست دان اپنے عوام کو دھوکا دینا گناہ نہیں سمجھتے وہاں فوجی کمانڈر اپنے ٹروپس سے فریب کاری نہیں کر سکتے۔ یہ ناگہانیت (Surprise) اور یہ دھوکہ بازی (Deception) صرف اور صرف دشمن کے لئے ہوتی ہے۔ دشمن کو کس حجم اور کس انداز کا دھوکا دیا جاسکتا ہے اس کی اگر کوئی تفصیل دیکھنی ہو تو ازل سے آج تک دنیا کی تمام چھوٹی بڑی لڑائیوں اور جنگوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں۔آپ کا دشمن زیادہ طاقت ور ہوگا تو آپ خود زیادہ طاقت ور ہوں گے۔


دوسری جنگ عظیم میں جب ہٹلر کی نازی افواج نے آناً فاناً یورپ اور شمالی افریقہ پر قبضہ کر لیا تھا تو تمام مفتوحہ ممالک (بشمول برطانیہ اور فرانس) حیران تھے کہ 1918ء میں ایک شکست خوردہ جرمن قوم نے کس طرح دنیا کی سپرپاور (برطانیہ) کو شکستِ فاش دے دی۔۔۔۔ آج کا عسکری مورخ جب دوربین کو ماضی کی طرف گھما کر دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ، فرانس، سپین، اٹلی، پرتگال اور وہ تمام یورپی ممالک جو دنیا کے دوسرے براعظموں میں جاجا کر وہاں کی افواج کو اپنی جدید وار ٹیکنالوجی سے شکست دے چکے تو ان مفتوحہ ممالک نے فاتح ممالک کی جدید وار ٹیکنالوجی سے منہ موڑ لیا۔ اور تن بہ تقدیر ہو کر بیٹھ رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فاتح اقوام کے دشمن کمزور ہوتے گئے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ فاتح اقوام کی ریگولر افواج بھی نیم مسلح فورسز یا پولیس فورس میں تبدیل ہوگئیں۔ ذرا اپنے برصغیر ہی کو دیکھ لیں۔ برٹش دور کا ایک پولیس کنسٹیبل (گورا نہیں، خاکی یا کالا) پورے گاؤں کو آگے لگا لیتا تھا۔ مبصروں نے اس سے یہ استدلال کیا کہ برٹش ایمپائر کی وسعت نے برٹش افواج کے دشمن، کمزور اور کم ہمت کر دیئے۔ دنیا بھر کی نو آبادیوں میں استعماری قوتوں کا کوئی بڑا دشمن یا حریف نہ رہا تو ان کی افواج کی قوتِ ضرب کمزور ہو گئی۔ اپنے برصغیر کی وہ تاریخ اٹھا کر بھی دیکھ لیں جو شہاب الدین غوری سے شروع ہوئی تھی اور بہادر شاہ ظفر تک آ پہنچی تھی۔ بہادر شاہ ظفر کی افواج اور اکبر و اورنگ زیب کی افواج کی قوتِ ضرب میں جو فرق آیا وہی فرق 1939ء کی جنگ عظیم کی ابتداء میں اتحادی افواج اور نازی افواج کے درمیان تھا۔ جرمنوں کی کوئی بڑی نوآبادی نہ افریقہ میں تھی، نہ ایشیا میں۔ اس لئے انہوں نے اپنی مسلح افواج کی ٹریننگ اور ان کی قوتِ ضرب پر پوری توجہ دی اور جب یکم ستمبر 1939ء کو یہ جنگ شروع ہوئی تو یورپین استعماری قوتوں کی افواج ایک ایک کرکے نازی افواج کے سامنے ڈھیر ہوتی چلی گئیں۔۔۔ خدا کا شکر ہے کہ پاکستان کا دشمن پاکستان سے (بظاہر) پانچ گنا زیادہ طاقتور ہے۔ چنانچہ پاکستان کی افواج کو ’’بالجبر‘‘ اپنی ٹریننگ کے معیاروں کو بھارت سے پانچ گنا بہتر بنانا پڑتا ہے!


ہم اپنے وزیراعظم پر الزام دھرتے رہتے ہیں کہ وہ بھارتی سیاستدانوں سے الفت کی پینگیں بڑھا رہے ہیں۔مجھے وزیراعظم کے دل میں جھانکنے کا ’’شرف‘‘ حاصل نہیں وگرنہ ممکن ہے کہ ان کے دل میں اصولہائے جنگ کے باب میں Surpriseاور Deceptionکے حربے چھپے ہوئے ہوں اور وہ جان بوجھ کر مودی (اور دیگر بھارتی رہنماؤں) کو آموں کی پیٹیاں بھیجتے ہوں۔۔۔ مجھے کسی دوست نے کل پوچھا کہ یہ ’’مینگوسٹریٹجی‘‘ کیا ہے تو میں نے ان کو ازراہِ تفنن جواب دیا کہ میاں صاحب کو خود مودی نے فون کرکے کہا تھا:
نامہ نہ کوئی یار کا پیغام بھیجئے
اس فصل میں جو بھیجئے بس آم بھیجئے
ایسے ضرور ہوں کہ انہیں رکھ کے کھا سکوں
پختہ اگر ہوں بیس، تو دس خام بھیجئے
معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس
دہلی، براہِ راست، میرے نام بھیجئے
یہ ’’مینگوسٹرٹیجی‘‘ کوئی نئی سٹرٹیجی نہیں۔نہ ہی اسے سرجیکل سٹرائیک یا کولڈ سٹارٹ سٹرٹیجی کی کوئی قسم سمجھئے۔ یہ سراسر سویلین سٹرٹیجی ہے۔ فوجی سٹرٹیجی تو وہ تھی کہ جب واہگہ بارڈر پر عیدالفطر کے موقع پر انڈیا کی بارڈر سیکیورٹی فورس نے پاکستانی رینجرز کو عید کی روائتی مٹھائی کا ٹوکرا دیا تھا تو رینجرز نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ معلوم نہیں مودی جی نے آم شریف واپس بھجوائے ہیں یا نہیں۔۔۔ اگر نہیں بھجوائے تو یہ محمد نوازشریف کی سویلین کامیابی ہے۔ فوجی کامیابی تب تصور کی جائے گی جب جنرل راحیل شریف، جنرل دلبیر سنگھ کو آموں کا کریٹ بھیجیں گے اور وہ اسے واپس نہیں لوٹائیں گے یا کوئی جنرل دلبیر سنگھ کسی جنرل راحیل شریف کو عید پر مٹھائی کی ٹوکری دیں گے تو وہ اسے واپس نہیں کریں گے۔

مزید :

کالم -