پولیس میں رینکرز اور پی ایس پی کی جنگ

پولیس میں رینکرز اور پی ایس پی کی جنگ
 پولیس میں رینکرز اور پی ایس پی کی جنگ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ملک کا سیاسی منظر نامہ عمومی طور پر جمود کا شکار ہے۔ ابھی کچھ نیا نہیں ہو رہا ہے۔ تا ہم پنجاب میں رینکرز اور پی ایس پی افسران کے درمیان ایک جنگ شروع ہو گئی ہے۔ بظاہر تو آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ کے فیصلہ پر عمل کرتے ہوئے پنجاب پولیس میں آؤٹ آف ٹرن ترقی پانے والے افسران کی تنزلی کر دی ہے۔ اور اس تنزلی کے بعد ان افسران میں سے اکثریت کو سی پی او یعنی آئی جی آفس رپورٹ کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔


یہ خبر اتنی سادہ نہیں ہے۔ جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ ایک محتاط اندذہ کے مطابق پنجاب پولیس کے ہزاروں رینکر افسران اس حکم سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ رینکرز اپنی اس تنزلی کا براہ راست ذمہ دار پی ایس پی افسران کو قرار دے رہے ہیں۔ اور ان کا موقف ہے کہ پی ایس پی نے پولیس میں اپنا تسلط اور قبضہ برقرار رکھنے کے لئے سپریم کورٹ کے حکم کو غیر قانونی انداز میں پنجاب میں عمل کیا ہے۔


سپریم کورٹ نے پورے ملک میں پولیس سے آؤٹ آف ٹرن ترقیوں کے خلاف ایک فیصلہ دیا تھا۔ جس پر پنجاب میں سب سے آخر میں عمل کیا گیا ہے۔ لیکن رینکرز کا موقف ہے کہ پنجاب میں آؤٹ آف ٹرن ترقیاں پنجاب اسمبلی سے پاس کئے جانے والے ایک قانون کے تحت دی گئی تھیں ۔ گو کہ یہ قانون اب ختم ہو چکا ہے۔ لیکن جب یہ آؤٹ آف ٹرن ترقیاں دی گئی تھیں ۔ تب پنجاب اسمبلی کا یہ قانون نافذ تھا۔ یہ قانون ایک خاص تناظر میں بنا یا گیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں فرقہ وارانہ دہشت گردی اپنے عروج پر تھی۔ اور کوئی نیشنل ایکشن پلان نہیں تھا۔ بلکہ پولیس ہی واحد ادارہ تھا جو اس فرقہ وارانہ دہشت گردی کے خلاف نبر آزما تھی۔ اس موقع پر ان پولیس افسران کی حوصلہ افزائی کے لئے جو غیر معمولی بہادری یا فرض شناسی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ انہیں آؤٹ آف ٹرن ترقی دینے کا قانون بنا یا گیا۔ اور اس قانون کے تحت مختلف مواقع پر غیر معمولی بہادری اور فرض شناسی کا مظاہرہ کرنیوالے افسران کو ترقی دی گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے خود کئی پر وقار تقاریب میں ان افسران کو بیجز لگائے تھے ۔ اور ان افسران کو بہت خراج تحسین بھی پیش کیا گیا۔رینکرز افسران کو یہی گلہ ہے کہ پنجاب پولیس کے پی ایس پی افسران نے سپریم کورٹ کو یہ نہیں بتا یا کہ پنجاب میں ان آؤٹ آف ٹرن ترقیوں کے لئے ایک قانون بنا یا گیا تھا۔ اور یہ تمام ترقیاں اس قانون کے تحت دی گئی ہیں۔ سندھ کی طرح کسی صوابدیدی اختیار کے تحت نہیں دی گئیں۔ لیکن پنجاب نے اپنا مقدمہ ٹھیک طریقہ سے پیش نہیں کیا ۔ او ر اس کا خمیازہ ان افسران کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔


اب بہت سالوں بعد بلکہ کئی کو تو ترقی حاصل کئے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے ۔ یہ ترقیاں واپس لے لی گئی ہیں۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ پولیس کا نظام چلانے والے پی ایس پی افسران یہ کیسے سمجھ رہے ہیں کہ پولیس جیسے ڈسپلن فورس میں یہ افسران اب تنزلی کے بعد دوبارہ پولیس فورس میں اپنا کام کر سکتے۔ میرے خیال میں پی ایس پی افسران کو علم ہے کہ یہ افسران اب تنزلی کے بعد کام نہیں کر سکتے ہیں ۔ اس لئے یہ اب پولیس فورس چھوڑ جائیں گے۔ اس طرح پولیس نے اب ان تمام افسران سے چھٹکارا حاصل کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اور اب مرحلہ وار اس پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔


یہ بات بھی کتنی خوبصورت حقیقت ہے کہ ان رینکرز کی ترقیوں پر ان پی اسی پی افسران ہی نے دستخط کئے تھے۔ لیکن افسران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ۔ جب یہ مان لیا گیا ہے یہ ترقیاں غلط اور غیر قانونی تھیں۔ تو جن افسران نے یہ ترقیاں دی ہیں۔ وہ بھی تو کسی سزا کے حقدار ہونے چاہئے۔ ان تنزلیوں سے پولیس میں رینکرز اور پی ایس پی کے درمیان عرصہ سے موجود ایک سرد جنگ ابھر گئی ہے۔ رینکرز اپنی ان تنزلیوں کا براہ راست ذمہ دار پی ایس پی کو ٹھہرا رہے ہیں۔


یہ بھی حقیقت ہے کہ پولیس میں رینکرز کی ترقی کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں ۔ جو قواعد موجود ہیں ان پر یہ پی ایس پی عمل نہیں کرتے۔ یہ تو رینکرز کی اے سی آر پر کئی کئی سال دستخط نہیں کرتے۔ جس سے ان کی ترقیاں التوا کا شکار رہتی ہیں۔ رینکرز اور پی ایس پی کی یہ لڑائی اب ایک جنگ کی شکل اختیار کرنے والی ہے۔ رینکرز ایک تحریک چلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ یہ اندازہ ہے کہ پولیس کی نچلی فورس اس تحریک کی حمایت کرے گی۔ اور اگر اس میں شریک نہیں ہو گی۔ تو ہمدردیاں ضرور ہوں گی۔


ہزاروں کی تعداد میں تنزلی کا شکار یہ پولیس افسران آج جب اپنے افسران سے مدد مانگ رہے ہیں ۔ تو وہ نظریں چرا رہے ہیں۔ جب یہ افسران اپنے کارنامے یاد کروا رہے ہیں تو افسران گم سم ہیں۔ لیکن گم سم رہنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ رینکرز اگر احتجاج کرنے سڑک پر آتے ہیں تو نہائت افسوسناک ہو گا۔ حکومت کو اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے کسی آؤٹ آف بکس حل کی تلاش کرنی چاہئے۔

مزید :

کالم -