قائد اعظم ؒ کے نظریات ا ور ان کا تصور پاکستان(1)

قائد اعظم ؒ کے نظریات ا ور ان کا تصور پاکستان(1)
 قائد اعظم ؒ کے نظریات ا ور ان کا تصور پاکستان(1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نظریۂ پاکستان کے داعی، محافظ اور مبلغ حمید نظامی مرحوم کے صاحبزادے محترم عارف نظامی ہمارے ملک کے ایک سینئر صحافی اور ممتاز تجزیہ نگار ہیں۔ عارف نظامی کم و بیش 35 سال تک اپنے چچا مجید نظامی مرحوم کے زیر تربیت اور زیر نگرانی رہتے ہوئے صحافت میں مجید نظامی کی سوچ، فکر اور نظریات کے عین مطابق اپنا کردار اور ذمہ داریاں احسن انداز میں نبھاتے چلے آ رہے ہیں۔ مجید نظامی مرحوم قائد اعظم اور علامہ محمد اقبال کے بعد اپنے بڑے بھائی حمید نظامی کو اپنا مرشد اور راہنما سمجھتے تھے۔ حمید نظامی اور مجید نظامی دونوں بھائیوں کے ادوار میں ’’نوائے وقت‘‘ نظریۂ پاکستان کے محافظ اور داعی کا کردار ادا کرتا رہا۔ ان دونوں بھائیوں کو اگر فکر لاحق رہتی تھی تو یہ کہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت جغرافیائی سرحدوں کے دفاع کے لئے انتہائی اہم ہے۔ نظریۂ پاکستان پر اگر ہمارا ایمان پختہ نہیں ہوگا تو ہم پاکستان کے دفاعی تقاضوں کو ایک مقدس فرض سمجھ کر ادا ہی نہیں کر سکتے۔


آگے بڑھنے سے پہلے مَیں عارف نظامی صاحب کے ایک کالم کا حوالہ دینا چاہتا ہوں جو 22 مارچ کو ایک قومی روزنامے میں شائع ہوا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’پاکستان یحییٰ خاں کے دور کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خاں کے نظریۂ پاکستان کے بجائے اپنے اصل نظریئے پر قائم رہتا تو وطن عزیز جنت نظیر بن چکا ہوتا۔‘‘

جنرل شیر علی خاں کا نظریۂ پاکستان کیا تھا؟ اس کا علم تو برادرم عارف نظامی کو ہوگا۔ تاہم نظریۂ پاکستان کے علمبردار اخبار ’’نوائے وقت‘‘ کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی کے نزدیک نظریۂ پاکستان کیا تھا وہ میں خود حمید نظامی ہی کی زبانی بیان کر دیتا ہوں۔ حمید نظامی 23 نومبر 1961ء کے ’’نوائے وقت‘‘ کے اداریئے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’صدر جنرل ایوب خان نے سکھر میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ایک بنیادی حقیقت کا اعلان کیا ہے کہ ’’پاکستان کی قومیت کی بنیاد اسلام پر ہے اور اسلام ہی ہمارے ذہن پر کندہ رہنا چاہئے۔ سچے مسلمان بنے بغیر ہم ایک قوم کی حیثیت سے ترقی نہیں کر سکتے۔‘‘ صدر ایوب اپنے اس اعلان کے لئے ہر محب وطن پاکستانی کے شکریئے کے مستحق ہیں۔ سیدھی سادی اور نا قابل تردید حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی بنیاد اس نظریہ پر رکھی گئی تھی کہ مسلمان ایک مستقل اور علیحدہ قوم ہیں۔ اور ان کی قومیت کی بنیاد ان کا دین ہے۔ اگر ملک و ملت کے بد خواہ اس بنیاد کو ڈھا دینے میں کامیاب ہو جائیں تو یہ عمارت دھڑام سے نیچے آ گرے گی اور یہ ملک خدانخواستہ ختم ہو جائے گا۔‘‘


حمید نظامی جنرل ایوب خاں کی فوجی آمریت کے حامی نہیں تھے لیکن جب جنرل ایوب خان نے صدر پاکستان کے طور پر یہ اعلان کیا کہ پاکستان کی قومیت کی بنیاد اسلام ہے تو حمید نظامی اپنی وفات سے تین ماہ قبل اپنے قلم سے اداریہ لکھ کر جنرل ایوب خاں کو اس حقیقت کے اعلان پر پوری قوم کی طرف سے شکریئے کا مستحق قرار دیتے ہیں۔ حمید نظامی نے اپنے 23 نومبر 1961ء کے کالم میں مزید لکھا تھا کہ ’’اگر ہمارے دشمن اور بد خواہ ہماری نوجوان نسل کو اسلام سے بد ظن اور اس کی روح سے بیگانہ یا کم از کم دین کے معاملہ میں بے رنگ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پھر پاکستان کو ایک نظریاتی مملکت کی حیثیت سے تباہ کر دینا نا ممکن نہ رہے گا۔‘‘ حمید نظامی کے بقول اگر ہماری نئی نسل کو اسلام سے بیزار، بدظن اور بیگانہ کر دیا جائے تو ہمارا ملک کسی غیر ملکی خارجی نظام کا غلام بن کر تو باقی رہ جائے گا لیکن ہمارے لئے ایک آزاد اور خود مختار نظریاتی مملکت کی حیثیت سے زندہ رہنا ممکن نہیں رہے گا۔
میں عارف نظامی صاحب کی خدمت میں عرض کروں گا کہ ان کے پاس تو ان کے والد گرامی حمید نظامی کی تحریروں کا تقریباً تمام ریکارڈ محفوظ ہوگا۔ نظریۂ پاکستان کی تفہیم کے لئے ان کو اپنے مرحوم والد کی تحریروں کا ضرور مطالعہ کرنا چاہئے۔ حمید نظامی نے ’’رجعت پسندی‘‘ کے الزام کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہوئے ’’ نوائے وقت‘‘ کے اداریوں میں بار بار اس حقیقت کا اعلان کیا کہ پاکستان کی بنیاد اسلام اور صرف اسلام ہے۔ حمید نظامی نے یہ بھی لکھا کہ ’’ ہمارے پاس تو ایک کمزور سا قلم ہے اس لئے ہم اپنی بساط کے مطابق پاکستان جو اللہ کے نام پر اور اللہ ہی کے فضل و کرم سے معرض وجود میں آیا تھا، اس کی حفاظت اور اس کو مضبوط و مستحکم بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ لیکن حکمرانوں کے پاس تو اختیار و اقتدار اور حکومت سب کچھ ہے۔ اس لئے ان کی ذمہ داریاں بھی بہت زیادہ ہیں۔ حکمرانوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اس امر کی نگہداشت کریں کہ سیاست نظم و نسق اور تعلیم و ثقافت کے میدان بلکہ قومی زندگی کے ہر دائرے میں جو رستہ اختیار کیا گیا ہے وہ اسلام کا صحیح رستہ ہے یا نہیں۔‘‘


حمید نظامی نے مزید فرمایا کہ حکمرانوں کی یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ یہ بھی دھیان رکھیں کہ ہماری قومی زندگی کے کسی شعبے میں دین و ملت کے دشمن ففتھ کالمسٹ تو چھپے ہوئے نہیں ہیں۔ یہ بات سمجھنے کے لئے بہت زیادہ عقل و دانش کی ضرورت نہیں کہ حمید نظامی نے ففتھ کالمسٹ کن عناصر کو قرار دیا تھا۔ یہ وہی لوگ ہیں جو حمید نظامی کے بقول تجدید اور ترقی پسندی کی آڑ میں اسلام پر حملہ کرتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کو اسلام سے بیزار، بدظن اور بیگانہ کر دینے کی سازشتوں میں مصروف رہتے ہیں۔
حمید نظامی کے اداریئے پڑھ کر ہمیں بڑی آسانی سے یہ علم ہو جاتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد کیا تھی، کیا ہے اور اس کی حفاظت میں اہل صحافت نے کیا کردار ادا کرنا ہے اور اہلِ اقتدار و اختیار کی ذمہ داریاں کتنی لا محدود ہیں۔ ہم میں سے ہر تعلیم یافتہ اور صحیح العقل فرد کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اہل خاندان اہل قبیلہ کو اسلام کے صحیح راستے پر چلائے لیکن حکمران پوری ریاست کا ذمہ دار ہوتا ہے اور حمید نظامی کے قول کے مطابق ایک مسلمان ریاست کے مسلمان حکمران سے قیامت کے دن یہ حساب لیا جائے گا کہ اس نے اپنے اقتدار، اختیارات اور حکومت کے ہوتے ہوئے ملک و قوم کو مذہب کے صحیح راستے پر چلانے میں اپنے فرائض پورے کئے یا نہیں۔


عارف نظامی صاحب نے اپنے کالم میں ہندو قوم کی ہولی اور دیوالی کی تقریبات میں وزیر اعظم نوازشریف کی شرکت پر حیرت اور مسرت کا اظہار کیا ہے۔ محترم نوازشریف کے خیالات جن کا اظہار انہوں نے ہندو قوم کی مختلف تقاریب میں شرکت کے مواقع پر کیا، ان پر تبصرہ کرتے ہوئے عارف نظامی کا نقطۂ نظر ہے کہ یہ نظریاتی طور پر مسلم لیگ کی سابقہ پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتے۔ عارف نظامی کے بقول نوازشریف کی سیاست نے جنرل ضیاء الحق کی رجعت پسندانہ سوچ سے جنم لیا تھا تاہم اب ان میں نظریاتی تبدیلی خوش آئند ہے۔ محترم عارف نظامی نے نوازشریف کی زبان سے قائد اعظمؒ محمد علی جناح کی 11 اگست 1947ء کی تقریر کا حوالہ سن کر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے اور اسے خلاف توقع بھی قرار دیا ہے۔ قائد اعظمؒ کی گیارہ اگست کی یہ تقریر ہمارے سیکولر اور نام نہاد لبرل حلقوں کو بہت پسند ہے۔(جاری ہے)


قائد اعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ’’ آپ آزاد ہیں، آپ اپنی مساجد میں جانے میں آزاد ہیں، آپ اپنے مندروں میں جانے میں آزاد ہیں، آپ اپنے عقیدے کے مطابق اپنی دیگر عبادت گاہوں میں جانے میں آزاد ہیں۔ آپ چاہے کسی مذہب، فرقے اور عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں۔ امور مملکت کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘


قائد اعظمؒ نے گیارہ اگست کے تین دن بعد دستور ساز اسمبلی ہی میں جو تقریر ارشاد فرمائی تھی۔ سیکولر اور نام نہاد لبرل طبقے کو اس تقریر سے خوشی کیوں نہیں ہوتی؟ قائد اعظمؒ کا ارشاد تھا کہ ’’ شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں سے رواداری اور حسن سلوک کا جو مظاہرہ کیا تھا وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ تیرہ سو سال پہلے ہمارے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف اپنے الفاظ سے بلکہ عملی طور پر یہودیوں اور عیسائیوں سے اس وقت بہترین سلوک کیا، جب وہ مغلوب اور مفتوح ہو چکے تھے اور ان کے ایمان اور عقیدے کا نہ صرف خیال رکھا بلکہ احترام کیا۔ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی حکومت رہی، تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے ایسے ہی انسانی اور عظیم اصولوں پر عمل کیا۔‘‘


قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر کا مفہوم بھی یہی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیں اسوۂ رسولؐ اور اسلامی تعلیمات پر عمل کرنا چاہئے۔ قائد اعظمؒ نے ہمیشہ یہ اعلان کیا کہ مسلمان اپنی اقلیتوں سے بہترین اور فیاضانہ سلوک کرتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی ایسا ہی کریں گے۔ 12 جولائی 1947ء کو قیامِ پاکستان سے ایک ماہ پہلے دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بھی قائد اعظمؒ نے یہی فرمایا تھا کہ ’’ غیر مسلم اقلیتوں کو ان کی عبادت میں مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ اور ان کے مذہب، عقیدے، جان و مال اور ثقافت کی مناسب حفاظت ہو گی۔ اقلیتوں کو بلا لحاظ مذہب اور بلا تمیز رنگ و نسل برابر کے شہری حقوق حاصل ہوں گے۔‘‘ لیکن پاکستان میں موجود سیکولر ذہن رکھنے والے عناصر کی بدنیتی یہ ہے کہ وہ فوراً قائد اعظمؒ کے ان خیالات کو سیکولر ازم کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے غیر مسلم اقلیتوں سے بہترین اور فیاضانہ سلوک کی جو بھی بات کی وہ اسلامی احکامات کے عین مطابق ہے۔ قائد اعظمؒ جب 30 اکتوبر 1947ء کو حکومت پاکستان کے افسروں سے گورنر جنرل کی حیثیت سے خطاب کرتے ہیں تو وہ دو ٹوک انداز میں یہ ارشاد فرماتے ہیں۔ ’’ پاکستان کا قیام بجائے خود مقصد نہیں تھا بلکہ ایک مقصد کے حصول کا ذریعہ تھا۔ ہمارا نصب العین یہ تھا کہ ہم ایک ایسی مملکت تخلیق کریں جو ہماری تہذیب و تمدن کی روشنی میں پھلے پھولے، جس ریاست میں ہم آزاد انسانوں کی طرح رہ سکیں اور جہاں معاشرتی انصاف کے اسلامی تصورات کو پوری طرح پنپنے کا موقع ملے۔‘‘


قائد اعظمؒ نے جب اور جہاں بھی سوشل جسٹس کی بات کی تو اسلامی اصولوں اور تصورات کا ساتھ حوالہ دینا ضروری سمجھا۔ تاکہ اس سے کوئی طبقہ بدنیتی سے سیکولر ازم کا مطلب نکالنے کی کوشش نہ کرے۔جو حضرات کبھی جنرل شیر علی خاں کا اور کبھی جنرل ضیاء الحق کا حوالہ دے کر نظریۂ پاکستان پر حملہ کرنے کی سازش کرتے ہیں۔ کیا ان کو قائد اعظمؒ کی 13 جنوری 1948ء کی وہ تقریر یاد نہیں جب انہوں نے اسلامیہ کالج پشاور میں یہ فرمایا تھا کہ ’’ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘‘ جب بانئ پاکستان خود پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ کا نام دے رہے ہیں تو پھر مالیخولیا کے مرض میں مبتلا کوئی شخص ہی یہ دعویٰ کرے گا پاکستان کا قیام ایک سیکولر ریاست تشکیل دینے کے لئے عمل میں لایا گیا تھا۔


قائد اعظمؒ نے کراچی بار ایسوسی ایشن میں اپنی 25 جنوری 1948ء کی تقریر میں تو براہ راست ان لوگوں کی خبر لی تھی جو دیدہ و دانستہ اور شرارت سے یہ پروپیگنڈہ کرتے رہتے تھے کہ پاکستان کا دستور شریعت (اسلامی تعلیمات) کے مطابق نہیں بنایا جائے گا۔ قائد اعظمؒ نے فرمایا کہ ’’ اسلام کے اصول آج بھی اسی طرح قابل اطلاق ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔ میں ایسے لوگوں کو جو بدقسمتی سے گمراہ ہو چکے ہیں، یہ صاف صاف بتا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ یہاں غیر مسلموں کو بھی کوئی ڈر اور خوف نہیں ہونا چاہئے۔ اسلام اور اس کے نظریات نے ہمیں جمہوریت کا سبق دے رکھا ہے۔ ہر شخص سے انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔ پھر کسی کو ایسی جمہوریت سے خوف کیوں لاحق ہو جو انصاف، رواداری اور مساوی برتاؤ کا بلند ترین معیار رکھتی ہو۔‘‘


قائد اعظمؒ کی زبان سے اسلامی نظریات، اسلامی اصول، اسلامی تصورات اور اسلامی معاشرتی انصاف اور اسلامی اصولوں پر مبنی مساوات اور رواداری کے الفاظ پھولوں کی طرح جھڑتے تھے۔ بڑے فصیح اور بلیغ انداز میں قائد اعظمؒ اسلام کو ہر مسلمان کے لئے مکمل ضابطۂ حیات قرار دیتے تھے۔ قائد اعظمؒ نے اپنے کئی خطابات میں یہ بھی فرمایا کہ اسلام ہماری روز مرہ کی زندگی میں ہمارے تمام افعال و اعمال حتیٰ کہ سیاسیات اور معاشیات کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی ہماری مکمل راہنمائی کرتا ہے۔ قائد اعظمؒ نے دستور پاکستان کے حوالے سے امریکی نامہ نگار کو ریڈیو کے لئے انٹرویو دیتے ہوئے یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ دستور کی حتمی شکل کا علم تو دستور ساز اسمبلی کو ہے جس نے دستور بنانا ہے لیکن ایک بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہوگا۔ قائد اعظمؒ نے اپنے اس انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ اسلام کے اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی پر بھی اسی طرح ہوتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا۔ قائد اعظمؒ کی یہ بات ہے بھی حقیقت۔ ہمارے نبئ آخر الزمانؐ تمام جہانوں کے لئے اور تمام زمانوں کے لئے رحمت اور راہنما بن کر آئے۔ 14 فروری 1948ء کو قائد اعظمؒ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’’ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری اصولوں والے ضابطۂ حیات پر عمل کرنے میں ہے جو ہمیں قانون دینے والے ہمارے عظیم پیغمبرؐ نے ہمارے لئے وضع کیا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا تصور یہ ہے (قرآن کا حکم) کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔‘‘
میں نے قائد اعظمؒ کے تصور پاکستان کو قائد اعظمؒ کے افکار کی روشنی میں اور خود ان ہی کے الفاظ میں قدرے تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت اس لئے محسوس کی ہے۔ عارف نظامی صاحب نے اپنے کالم میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے دور میں میڈیا کا ایک طاقتور حصہ نظریۂ پاکستان کا ٹھیکیدار بن بیٹھا تھا۔ ایک مقام پر وہ لکھتے ہیں کہ ’’ جنرل شیر علی خاں کا نظریۂ پاکستان۔‘‘ اس سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ نظریۂ پاکستان کا جنرل یحییٰ خاں کے وزیر اطلاعات جنرل شیر علی خاں سے پہلے کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ عارف نظامی صاحب نے اپنے کالم میں شریف برادران کی مالی امداد (سرکاری امداد) سے قائم ہونے والے نظریۂ پاکستان ٹرسٹ پر بھی تنقید کی ہے کہ یہ ٹرسٹ نظریۂ پاکستان کی غلط تصویر پیش کر رہا ہے۔ میں نظریہ پاکستان ٹرسٹ کے حوالے سے کسی بحث میں الجھے بغیر عارف نظامی صاحب سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قائد اعظمؒ کی اپنی تقاریر اور بیانات سے نظریۂ پاکستان کی جو تصویر بنتی ہے۔ اس سے تو عارف نظامی کو کوئی اختلاف نہیں۔ قائد اعظمؒ کے بنیادی نظریات اور ان کے تصور پاکستان کی صحیح تفہیم کے لئے قائد اعظم کے افکار و خیالات سے بہتر اور مستند ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ عارف نظامی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ کی طرف سے پیش کی جانے والی نظریۂ پاکستان کی تصویر کو قبول نہ کریں۔ لیکن میرا گمانِ غالب یہ ہے کہ قائد اعظمؒ کے نظریۂ پاکستان سے وہ انکار نہیں کریں گے۔ میرا یہ بھی خیال ہے کہ حمید نظامی کے جس اداریئے کا حوالہ میں نے اپنے کالم میں دیا ہے۔ اس کے مندرجات سے بھی عارف نظامی کو پورا اتفاق ہوگا۔


ویسے کوئی بھی صحیح الفکر پاکستانی جس کا حمید نظامی سے کوئی خاندانی اور خونی رشتہ نہ بھی ہو وہ بھی حمید نظامی کی اس بات کی تردید کیسے کر سکتا ہے کہ پاکستان کی بنیاد اس نظریئے پر رکھی گئی تھی کہ مسلمان ایک مستقل اور علیحدہ قوم ہیں اور پاکستانی قومیت کی بنیاد اسلام ہے۔ دراصل حمید نظامی قائد اعظمؒ کے سیاسی اور نظریاتی مرید تھے۔ قائد اعظم نے بیورلی نکلس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ اسلام صرف روحانی اور مذہبی اصولوں کا نام نہیں بلکہ ایک حقیقی عملی نظامِ حیات ہے۔ میں اسلام کے مکمل نظامِ حیات ہونے کی بنیاد پر ہی مسلمانوں کو ایک مستقل اور جداگانہ قوم سمجھتا ہوں۔‘‘ حمید نظامی نے جو کچھ اپنے 23 نومبر 1961ء کے اداریئے میں لکھا وہ قائد اعظمؒ کے نظریات کی ہی تقلید میں تھا۔


قائد اعظمؒ کے نظریات، تعلیمات، افکار اور ان کا تصور پاکستان ہی ہمارا نظریۂ پاکستان ہے۔ یا پھر نظریۂ پاکستان کو سمجھنا ہو تو حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کی دانش و فراست سے ہمیں راہنمائی لینی چاہئے۔ نظریۂ پاکستان کو کسی جنرل کے خیالات اور عمل سے گڈمڈ کر کے پاکستان کے نظریاتی تشخص اور شناخت پر حملہ کرنے کا جواز پیدا نہیں کرنا چاہئے۔

مزید :

کالم -