پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کے لئے کوشاں (2)

پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کے لئے کوشاں (2)
 پیپلزپارٹی پنجاب میں دوبارہ قدم جمانے کے لئے کوشاں (2)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1986-87ء کا یہ وہ زمانہ تھا جب میاں نواز شریف کے مری کے پرانے دوست حسن محمود پیرزادہ عرف حسن پیرزادہ کی زیر نگرانی ایک ایسی کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے ذمے صرف یہ کام تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی کو دوسرے صوبوں سے نہیں تو کم از کم پنجاب سے نکال دیا جائے۔ ظاہر ہے کہ یہ کمیٹی پرائیویٹ سطح کی تھی۔ فنڈز بھی اس کے لئے انہی لوگوں سے لئے گئے، جو صنعتوں کو قومی تحویل میں لینے کی بدولت پہلے سے ہی اس کے خلاف تھے۔ ضیا الحق نے کافی صنعتیں پرانے مالکان کو واپس بھی کر دی تھیں،لیکن پھر بھی بینک اور انشورنش کمپنیاں واپس نہیں ہو سکی تھیں۔ یہ وہی زمانہ تھا جب آگے چل کر1988ء کے الیکشن میں میاں نواز شریف تن تنہا مُلک کی ایک بڑی اور مضبوط پارٹی،یعنی پی پی پی کے خلاف، بلکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف میدان میں آئے تو چاروں صوبوں کے عوام اُن کے گرویدہ ہو گئے۔ وہ جہاں بھی جلسہ کرنے (خصوصاً پنجاب میں) جاتے اور لوگوں سے بھرپور انداز میں سوال کرتے کہ لوگو بتاؤ، روٹی، کپڑا اور مکان کون دیتا ہے تو ہزاروں آوازیں آئیں کہ ’’اللہ، تو وہ بھی ہاتھ اُٹھا کر کہتے کہ بے شک روٹی کپڑا اور مکان اللہ دیتا ہے،لیکن یہاں ایک سیاسی پارٹی کہتی پھرتی ہے کہ ہم دیتے ہیں اس پر چاروں طرف سے ’’لعنت، لعنت‘‘ کے نعرے لگتے۔ یہ نعرہ اِس قدر عام ہوا کہ اس کی پانچ پانچ منٹ کی دستاویزی فلمیں بنا کر سینما گھروں میں چلائی گئیں۔ یوں پی پی پی کی توڑ پھوڑ کا آغاز پنجاب سے کر دیا گیا۔ لاکھوں مساجد میں جمعہ کے خطبہ میں امام صاحبان یہی کہنا شروع ہو گئے کہ کوئی سیاسی پارٹی روٹی، کپڑا اور مکان نہیں دیتی۔ کروڑوں پمفلٹ تقسیم کرائے گئے اور کروڑوں پمفلٹ مساجد کی دیواروں پر اسی مضمون کے لگائے جاتے رہے اور پھر چل سو چل یہ سلسلہ جاری و ساری رہا اور میاں نواز شریف آگے چل کر جب وزیراعظم (1990ء) بنے تو اس مشن کو مزید تقویت حاصل ہوئی۔ پیپلزپارٹی کو خاص طور پر پنجاب سے ختم کرنے کے جس کام کا آغاز 1987-88ء میں ہوا تھا وہ اس تواتر کے ساتھ جاری رہا کہ آخر 2013ء میں یہاں پر اس پارٹی کی آخری ہچکی سنائی دی۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پنجاب میں پی پی پی کا جہاز ایک ایسے گہرے سمندر میں چین کی نیند سو رہا ہے جسے کوئی معجزہ ہی واپس سطح سمندر پر لا سکتا ہے۔ رہی2007ء والی میثاق جمہوریت کی بات، تو اس کے بارے میں تو برادر خورد رؤف کلاسرہ ہی بہتر رائے دے سکتے ہیں کہ آخر کیوں کر میاں نواز شریف نے اور کس دِل کے ساتھ اس پر اپنے دستخط کئے تھے۔


جہاں تک اس پارٹی کو پنجاب سے باہر نکالنے کی جدوجہد ہے تو اس کا تمام تر سہرہ میاں نواز شریف کے سر ہے البتہ کچھ حصہ مشرف دور میں چودھری ظہور الٰہی کے خاندان نے بھی اس کام میں ڈالا ہے۔ جب چودھری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کے ذریعے پیپلزپارٹی کے منتخب ارکان پارلیمینٹ سے پاکستان مسلم لیگ (ق)کے لئے ظفر اللہ جمالی کو وزیراعظم بنانے کے لئے ووٹ لیا گیا۔(فیصل صالح حیات نواز شکور وغیرہ) پی پی پی کے پنجاب سے تعلق ر کھنے والے زعما کو پلاٹوں کی سیاست کے ذریعے ہی نہیں ایل این جی۔ سی این جی۔ پٹرول پمپس وغیرہ کی سیاست میں بارہا اُلجھایا گیا۔ اس پر تو اب بہت سی کتابیں بھی آنے والی ہیں۔میثاق جمہوریت کو ویسے بھی اب دس برس کا عرصہ ہو چلا ہے اور اس کا طلسم بھی اب وہ نہیں رہا، جو شروع میں تھا۔میرا جہاں تک یقین ہے اگر آنے والے الیکشن میں آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے لئے میاں نواز شریف سے پنجاب میں کچھ قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشستیں بھیک میں بھی مانگیں تو یہ صریحاً ظلم و زیادتی ہو گی اگر اس درخواست پر کسی نے غور بھی کیا۔میرے خیال میں تو حمزہ شہباز شریف کھلم کھلا مخالفت کریں گے اور کہیں گے کہ پیپلزپارٹی کے لئے ذرہ بھر بھی لچک نہ دکھائی جائے۔ یہ وہی پارٹی ہے جس کے سربراہ، یعنی بھٹو نے پنجاب میں ہر سال وزیراعلیٰ تبدیل کئے،بلکہ ایسے ایسے قصے بھی سُننے کو ملے کہ جب حنیف رامے کو نکال باہر کیا گیا تو وہ وائی ایم سی اے ہال لاہور میں ایک جلسہ کی صدارت کر رہے تھے۔ وہاں پر کمشنر لاہور یہ پیغام لایا کہ آپ جلسہ ختم کریں اور پیدل گھر روانہ ہو جائیں(وہ بھی ننگے پاؤں) کیونکہ اب آپ چیف منسٹر نہیں ر ہے۔ سرکاری گاڑی بھی واپس بلوا لی گئی ہے۔


آصف علی زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا خطاب حسین حقانی نے ہی دیا تھا جب وہ میاں نواز شریف کی ٹیم میں تھے۔ (1988-89ء) اور بعد میں مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کا خطاب بھی اُنہی کا دیا ہوا ہے۔ لہٰذ کسی بھی طرف سے اب اگر پنجاب میں پی پی پی اپنے اربوں روپے خرچ،یعنی تباہ کرنے کی تیاری کر رہی ہے تو اس پیسہ کو بچا لے۔پاکستان پیپلزپارٹی کا اگر صوبہ پنجاب کے لئے کوئی میڈیا سیل یا میڈیا کے لئے دیکھ بھال کرنے والا کوئی مخلص شخص یا گروپ یہاں موجود ہے تو وہ بھی اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے پارٹی کے مالکان،یعنی سیٹھ صاحبان تک یہ صورتِ حال پہنچائیں تاکہ اُنہیں بھی مکمل آگاہی حاصل ہو۔ یہ وہی صوبہ ہے جہاں ریڑھی والے سے لے کر تانگہ بان تک اور تھڑے پر بیٹھ کر داستان سنانے والے سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے جیالے بھی پی پی پی کے لئے ہر وقت جان لڑانے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اُن دنوں توپارٹی کے جلسوں اور جلوسوں میں جگہ کم پڑ جاتی تھی،لیکن پھر ایسا ہوا کہ محترمہ بے نظیر برسر اقتدار آئیں تو پارٹی کارکنوں کو کسی نے بھی نہ پوچھا اور یہی واردات اُن کے ساتھ ایک بار پھر 1993ء میں بھی ہو گئی۔ چنانچہ انہوں نے اس کا بدلہ1997ء میں ایسے لیا کہ یہ جیالے1997ء کے عام انتخابات میں پورے پنجاب کی کسی بھی یونین کونسل میں ووٹ دینے سرے سے پولنگ سٹیشنوں پر ہی نہیں گئے اور پی پی پی الیکشن ہار گئی۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے اب تو یہ جیالے ساٹھ ستر سال سے بھی زیادہ عمر کے ’’بابوں‘‘ میں ڈھل چکے ہیں،لہٰذا یہ اب جواب میں صرف یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ’’جاؤ۔ بابا اللہ بھلا کرے۔ ہمارے آرام میں مت دخل دو‘‘۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے1972ء کے بعد آج تک کبھی نوجوانوں کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا، نہ ہی اُن کا کوئی معروف یا مقبول لیڈر کبھی کسی یونیورسٹی میں طلباء سے خطاب کرنے گیا ہے اور نہ ہی آج تک ایسی کوئی تقریب منعقد کی گئی ہے، جس سے صرف اور صرف 18سے25 یا تیس برس عمر کے لوگوں کو بلوایا گیا ہو یا اُن کی عمر کے نوجوانوں کا کوئی کنونشن منعقد کرایا گیا ہو۔ (ختم شد)

مزید :

کالم -