اسباب بغاوت کا تدارک کیجئے

اسباب بغاوت کا تدارک کیجئے
اسباب بغاوت کا تدارک کیجئے
کیپشن: pic

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کالم لکھنے کا موضوع تلاش کرنے کے بعد دلائل کی تلاش شروع کی تو کتاب © ” اسباب بغاوت ہند“ ہاتھ آگئی۔ یہ ایک کتابچہ ہے جسے برصغیر کی بہت ہی برگزیدہ شخصیت سر سید احمد خان صاحب نے سن 1857 میں برصغیر میں پیش آنے والے تاریخی واقعہ کی روشنی میں سن 1858 میں تحریر کیا تھا۔ سن 1857کے واقعہ کو انگریز بغاوت قرار دیتے تھے جب کہ مسلمان جنگ آزادی کا پہلا قدم قرار دیتے تھے۔ سید صاحب کے دو یورپی دوستوں نے ان کے اس کتابچہ کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا۔ اس کتابچہ نے برطانوی پارلیمنٹ میں بھی ہل چل مچا دی تھی ۔ اس کتابچہ کا دیباچہ فرانسس روبنسن نے تحریر کیا۔ کتابچہ میں سید صاحب نے ان تمام اسباب کا احاطہ کیا ہے جو اسباب بغاوت تھے۔ اگر ممکن ہو سکے تو کوئی وزیر اعظم میاں نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری ،عمران خان اور سیاست کرنے والے دیگر حضرات کو یہ کتاب اس گزارش کے ساتھ پیش کرے کہ وہ اسے پڑھ لیں۔ ذہن کے دریچے کھل جائیں گے کہ پاکستان میں آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ 1857ءمیں بھی ہو چکا تھا۔ برصغیر سے انگریز کو جانا پڑا۔ مجبوری تھی لیکن جانا ٹہر گیا تھا۔ 1947ءمیں یعنی بغاوت ہند کے نوے سال بعد۔ قوموں کی زندگی میں ایک صدی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ قومیں بننے میں صدیاں لگا دیتی ہیں اگر ان کے حکمران اور بر سر اقتدار طبقہ پاکستانیوں جیسا ہو۔

اپنے اس کتابچہ میں سر سید احمد خان نے ایک جگہ لکھا ہے کہ کئی اسباب میں ” بڑا سبب حکومت کا اپنی رعایا کو نظر انداز کرنا اور ان کی طرف سے غفلت برتنا تھا “ ۔ یہ غفلت تو قوموں کوتباہی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ ملک بھر میں دیکھیں کہ کیا ہورہا ہے۔ کراچی مقتل بنا ہوا ہے۔ بلوچستان میں قانون اپنی بے بسی کا نظارہ کر رہا ہے۔ لاہور میں پولس نے سڑک پر مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو کس بے دردی کے ساتھ قتل کیا، شمالی وزیر ستان میں فوج کو دہشت گردی اور شدت پسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے کارروائی کرنا پڑی ہے۔ کہیں آبپاشی کے لئے پانی میسر نہیں ہے تو لوگ سندھ کے وزیر اعلی کی تقریر کے دوران ہنگامہ کر دیتے ہیں۔ صحت اور علاج معالجہ کی سہولتیں نہ ہونے پر لوگ احتجاج کرنے سڑک پر نکل آتے ہیں۔ بجلی کی فروانی کے ساتھ عدم فراہمی لوگوں کو احتجاج پر اکساتی ہے۔ شہروں میں پینے کے لئے پانی کی بوند کو لوگ ترستے ہیں۔
حال ہی میں حکومت کے ایک اہم ادارے کے دو ذمہ دار افسران سے ملاقات رہی۔ میں حیران تھا کہ وہ بھی وہی رونا رو رہے تھے جو عام پاکستانی روتے ہیں۔ انہوں نے دوران گفتگو اپنے اپنے تجزئیے پیش کئے۔ ان کے تجزیوں سے انکار ممکن نہیں تھا لیکن دونوں کے پاس اس ملک کو درپیش صورت حال کا حل بھی نہیں تھا۔ ایک نے کہا کہ جب تک ہم اپنے اندر کے پاکستانی کو سچ بولنے پر تیار نہیں کریں گے ، تبدیلی نہیں آئے گی۔ دوسرے کا کہنا تھا کہ حالات تبدیلی کے لئے خود ہی کوئی کروٹ لیں گے۔ دونوں حضرات کی گفتگو سے ایسا لگا کہ ہمارے پاس ہمارے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے۔ ہم اس اندھیری سرنگ میں بھٹک رہے ہیں جس کے کنارے سے روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آرہی ہے۔ اسی دوران سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا یہ بیان ٹیلی وژن کی اسکرین پر نمودار ہو ا کہ پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کے قیام کے وقت جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف این آر او پر دستخط فرمارہے تھے تو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان میں جموری حکومت کے پانچ پانچ سال کی تین مدتیں پوری کرنے سے قبل مار شل لاء نہیں لگایا جائے گا۔ شہلا رضا کا کہنا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات نے یہ یقین دہانی کرائی تھی اور اسی یقین دہانی کو یاد دلانے کے لئے آصف زرداری امریکہ تشریف لے گئے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے شہلا رضا کے اس بیان کی تردید آگئی۔ بات تردید یا تصدیق کی نہیں ہے۔
بات حالات کی ہے۔ بات اس خطے میں دلچسپی رکھنے والے ممالک کی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر خطے کے سیاسی اثرات اور مفادت کی بھینٹ چڑھا ہو اہے۔ امریکہ کیا چاہتا ہے۔ بھارت کے عزئم کیا ہیں۔ چین کے مفادات کیا ہیں۔ گوادر کی بندر گاہ قطر اور دبئی کے لئے کس طرح خطرہ بن سکتی ہے۔ اس کی وجہ سے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی سرگرم ہے۔ ایران اپنے مفادات کے لئے سرگرم ہے۔امریکہ کی طرح اسرائیل بھی پاکستان کے پاس جوہری ہتھیاروں کو دیکھنا نہیں چاہتا ہے۔ ایک طرف یہ سارے بیرونی عوامل ہیں جن کے اپنے اپنے اثرات ہیں ، ان اثرات کی وجہ سے ہی پاکستان عدم استحکام کا شکار ہے ۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ پاکستان کواندر سے خلفشار کا سامنا ہے کہ اس کی وفاقی حکومت ہو یا صوبائی حکومتیں ، وہ پاکستان میں پائے جانے والے خلفشار سے نمٹنے میں کامیاب نہیں ہو پارہی ہیں۔ جہاں دیدہ لوگوں کا پختہ یقین ہے کہ جس روز پاکستان میں حکمران طبقہ نے یہ فیصلہ کر لیا کہ پاکستان میں ہر قیمت پر اور ہر حالت میں قانون کی عمل داری اور بالا دستی کو یقینی بنایا جائے، اس دن سے پاکستان اندرونی استحکام کی طرف گامزن ہو جائے گا۔ یہ بڑا مشکل فیصلہ ہے۔ یہ بہت کٹھن معاملہ ہے۔
ملک میں موجود حکمران طبقہ جس میں جرنیل بھی شامل ہیں، ذرائع ابلاغ کا بھی عمل دخل ہو گیا ہے، قانون کی عملداری کو قدم قدم پر چیلنج کرتے نظر آتے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن کیوں کر تھانے پر حملہ کر کے اپنے ”بندے“ چھڑا کر لے جا سکتا ہے۔ کوئی لا قانونیت پر آمادہ کسی فرد یا گروہ کی کیوں کر پشت پناہی کر سکتا ہے۔ سپریم کورٹ پوچھتا ہے کہ جن علاقوں سے تیل اور گیس برآمد ہو رہا ہے ، ان کی حالت کیوں تبدیل نہیں ہوتی۔ کمپنیاں اربوں روپے کا منافع کماتی ہیں لیکن سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں اور اسپتال سہولتوں کے بغیر ہیں۔ سندھ ہائی کورٹ صوبہ کے جنگلات میں قانون کی صریحا خلاف ورزی کرتے ہوئے ، من پسند افراد کو لیز پر دی ہوئی سولہ ہزار ایکڑ زمینوں کی لیز معطل کرنے کا حکم دیتی ہے۔ کوئی فرد ہو یا کوئی ادارہ یا کوئی ملک، جب آپ اندر سے کمزور ہوتے ہیں تو وسوسے اور خدشات آپ کو کھائے جاتے ہیں۔ خوف آپ کے گرد ایک ایسی دیوار کھڑی کردیتا ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے۔ کوئی بھی کارروائی اپنا اثر کیوں نہیں دکھا رہی ہے ؟ اس لئے کہ حکمران قانون سے نہ صرف کھیلتے ہیں بلکہ اسے نچاتے بھی ہیں ۔ پھر انہیں یہ خدشہ بھی کھائے جاتا ہے کہ فوج مارشل لاءنافذ کر سکتی ہے۔ اس تماش گاہ میں یہ خدشہ اس وقت دم توڑ جائے گا جب پاکستان میں قوانین پر عمل در آمد سب کے لئے یکساں ہوجائے گا۔
سر سید احمد خان کے 1858 ءکتابچے کا جو حوالہ اوپر دیا گیا ہے اس میں کہا گیا تھا کہ ” گورنروں ( اس وقت کے ) اور رعایا کے درمیان کسی قسم کا حقیقی تعلق نہیں ہے۔۔۔ لوگوں کے پاس حکومت تک اپنی آواز پہنچانے کا کوئی طریقہ نہیں ہے تو پھر ان کے حالات کیوں کر بہتر ہو سکتے ہیں اور اگر وہ درخواستیں بھی دائر کرتے ہیں تو اول تو ان کی سماعت نہیں ہوتی اور اکثر ان درخواستوں کو سماعت کے قابل ہی نہیں سمجھا جاتا ہے“۔ پاکستان میں جمہور کوپانچ سال میں ایک بار ہی (نام نہاد طریقے سے ) موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے نمائندے منتخب کریں اس کے بعد لوگوں سے مشورہ کیا جاتاہے نہ ہی مشاورت کی جاتی ہے۔ منتخب نمائندے لوگوں کے ہاتھ ہی نہیں آتے ہیں ۔ اسی وجہ سے اسباب بغاوت جنم لیتے ہیں ۔ اس بغاوت کو کچلنے کے لئے اکثر فوج استعمال کی جاتی ہے ، اسی بغاوت سے دوسری بغاوت جنم لیتی ہے جس سے حکمران طبقہ خوف زدہ ہے۔     

مزید :

کالم -