دلت بھارتی صدر

دلت بھارتی صدر
 دلت بھارتی صدر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے صدارتی امیدوار رام ناتھ کو وند 65فی صد سے زائد ووٹوں کے ساتھ بھارت کے 14ویں صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ پاکستان سمیت کسی بھی پارلیمانی نظام کے حامل ملک میں صدر کا عہدہ ایک علامتی عہدہ ہوتا ہے، جس کے پاس حقیقی اختیارات نہیں ہوتے، مگر بعض مرتبہ پارلیمانی نظام میں بھی صدارتی انتخاب کو سیاسی قوت منوانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ تو بھارتی صدارتی انتخاب اس لئے بھی اہمیت کا حامل رہا، کیونکہاس انتخاب میں بی جے پی ایک ایسے امیدوار کو سامنے لائی جس کا تعلق دلت طبقے سے ہے۔ بی جے پی نے صدارتی مہم میں رام ناتھ کووند کے دلت ہونے کو ہی نمایاں کیا۔ خود رام ناتھ کووند نے صدر بنتے ہی ٹی وی پر ایک بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’آج میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ رام ناتھ کووند غریبوں اور سماج کے پسے ہو ئے طبقات کے نمائندے کے طور پرراشٹرپتی بھون(ایوان صدر) میں رہے گا‘‘۔۔۔71سالہ رام ناتھ کووند کا تعلق اتر پردیش کی ریاست سے ہے اور سپریم کورٹ میں وکیل ہونے کے ساتھ ساتھ وہ 1994ء سے2006ء تک بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے،جبکہ صدر بننے سے پہلے وہ ریاست بہار کے گورنر تھے۔ رام ناتھ کووند کاتعلق آر ایس ایس سے بھی رہا ہے۔ یوں اس وقت بھارت کے تین اعلیٰ ترین عہدوں (صدر کووند، وزیراعظم مودی اور سپیکر لوک سبھاسومترا مہاجن) پر ایسی شخصیات فائز ہوچکی ہیں، جن کا تعلق آر ایس ایس سے رہا ہے۔ بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اسے ایک ’’مثبت تبدیلی ‘‘ قرار دیا ہے۔


جہاں تک رام نا تھ کوو ند کے دلت ہونے کا تعلق ہے تو مودی یا بی جے پی نے کووند جیسے ایک غیر معروف شخص کو بھارت کا صدر بنواکر بہت سے سیاسی فائدے حاصل کرنے کی کوشش کی۔ کووند کا تعلق اترپردیش سے ہے، اس ریاست کی حکمرانی بھی اب بی جے پی کے ہی پاس ہے، مگر تاریخی اعتبار سے بی جے پی اس ریاست میں دلت ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کر پاتی۔کئی سال تک بی جے پی جن طبقات کی ترجمان جماعت سمجھی جاتی رہی ہے، ان میں بنیا، برہمن، اونچی ذاتیں اور متوسط طبقات شامل رہے ہیں۔اب مودی اور امت شاہ کے تحت بی جے پی کی کوشش ہے کہ دلتوں، مہادلتوں، قبائلیوں، پس ماندہ ذاتوں اور انتہائی پس ماندہ ذاتوں کی بھی حمایت حاصل کی جائے۔ 1990ء سے پہلے غریب، دلت ذاتوں، پسماندہ اور انتہائی پسماندہ ذاتوں کی حمایت کانگرس پارٹی کو حاصل ہوتی تھی، مگر کانگرس اتنے عرصے تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ان طبقات کے لئے عملی طور پر کچھ نہ کرسکی۔ اس لئے 90کی دہائی کے بعد کانگرس پارٹی اور نچلی ذاتوں کا اتحاد ٹوٹنے لگا اور خود دلت اور پسماندہ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں نے ان طبقات کی حمایت حاصل کرنا شروع کردی۔ یوپی اور بہار جیسی ریاستوں میں نچلی ذات کی علمبردار جماعتوں کی حکومتیں بھی بننے لگیں، مگر نچلی ذات کی علمبرار جماعتوں نے بھی اقتدار ملنے کے بعد نچلی ذاتوں کے مسائل حل کرنے کی بجائے لوٹ کھسوٹ کے نئے ریکارڈ بنانے شروع کردیئے۔ یوں دلت ووٹروں کی اکثریت دلت سیاست کی علمبردار جماعتوں سے مایوس ہونا شروع ہوگئی۔


2014ء کی انتخابی مہم میں مودی اور بی جے پی نے دلت ووٹوں کو لبھانے کی بھرپور کوشش کی۔ 2014ء کے لوک سبھا اور2017ء کے یوپی ریاستی انتخابات میں چمار(دلت) ذات کے 25 فیصد ووٹروں نے بی جے پی کو ہی ووٹ دیا۔ چمار ذات کے ووٹوں نے یو پی میں بی جے پی کی جیت میں اہم کردار ادا کیا۔ اب مودی 2019ء کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یوپی کے دلت ووٹوں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ دراصل بھارت میں دلت کوئی وحدانی مظہر نہیں ہے۔ دلتوں کے اندر بھی کئی ذاتیں اور پھر ان ذاتوں کے نیچے بھی کئی ذاتیں موجود ہیں جو دلت ہی کہلاتی ہیں۔ بی جے پی دلتوں کی جس ذات کے ووٹروں کی حمایت حاصل کررہی ہے، اس کا تعلق’’غیر جاتیو‘‘ دلتوں سے ہے جو یوپی میں انتہائی غر یبی کی زندگی گزانے پر مجبور ہیں۔ بھارت کے معروف دلت راہنما ’’بی آر امبید کر‘‘ کی نام لیوا دلت جماعتیں ( بہو جن سماج پارٹی) بھی کبھی’’غیر جاتیو‘‘ ذات کی حمایت حاصل نہیں کرسکیں، اس لئے یوپی میں ’’غیر جاتیو‘‘ دلتوں نے2014ء کے لوک سبھا اور2017ء کے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کی حمایت کی۔ یوپی میں اس وقت دلت ذاتیں سیاسی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہوچکی ہیں۔ دلتوں کی کچھ ذاتیں بہوجن سماج پارٹی، کئی ذاتیں بی جے پی اور تیسرا طبقہ ایسا ہے جو ان دونوں جماعتوں کا شدید مخالف ہے اور دلتوں کے حقوق کے لئے شدت پسندی کا حامی ہے دلتوں کے حقوق کے لئے بنائی گئی انتہا پسند تنظیم ’’بھیم آرمی‘‘ اس طبقے کی شدت پسندی کا ایک اظہار ہے۔
حال ہی میں سہارن پور میں دلتوں اور اونچی ذات والوں کے ما بین ہونے والے فسادات میں اس تنظیم ’’بھیم آرمی ‘‘نے نمایاں کردار ادا کیا۔ بی جے پی دلتوں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے دو طرفہ حکمت عملی اپنائے ہوئے ہے۔ ایک طرف بی جے پی دلت سیاسی جماعتوں سے مایوس دلت سیاستدانوں، جیسے رام ولاس پاسوان، رام داس اتاوالے، ادت راج کی حمایت حاصل کررہی ہے تو دوسری طرف رام ناتھ کووند، وجے سونکرشاستری جیسے دلتوں کو بھی اہم مقام دلارہی ہے کہ جن کا تعلق آر ایس ایس یا خود بی جے پی سے ہی ہے۔ یہ ہے وہ معروض جس کے تحت بی جے پی جیسی جماعت نے ایک دلت کو بھارت کا صدر بنوایا۔ ایک دلت کو بی جے پی کا صدراتی امیدوار بنواکر مودی اور بی جے پی نے اپوزیشن کو بھی تقسیم کر دیا، بی جے پی کے اتحادی ’’لوک جن شکتی پارٹی‘‘ کے رہنما رام ولاس پاسوان نے اعلان کیا کہ جو بھی رام ناتھ کو و ند کی مخالفت کرے گا، وہ دلت مخالف تصور کیا جائے گا۔ بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایا وتی کو بھی بیان دینا پڑا کہ وہ دلت صدارتی امیدوار کووندکی مخالفت نہیں کرسکتی، حتیٰ کہ مودی مخالف ملائم سنگھ یادیوکی جماعت سماج وادی پارٹی کے کئی رہنماؤں نے بھی کو وند کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ شاید یہی دباؤ تھا کہ کانگرس اور اس کے اتحادیوں نے بھی کووند کے مقابلے میں ایک دلت ’’میرا کمار‘‘ کو ہی اپنا صدارتی امیدوار نامزد کر دیا، یوں بھارتی صدارتی انتخاب مکمل طور پر ذات کے مسئلہ پر ہی ہوا اور ایک دلت کا دوسرے دلت سے مقابلہ ہوا۔
اس امر میں کو ئی شک نہیں کہ دلت بھارت کا انتہائی مظلوم طبقہ ہے۔ آزادی کے70سال گزرجانے کے باوجود بھی دلتوں کو بہت سی محرومیوں کا سامنا ہے اور ان محرومیوں کی واحدوجہ ان کا دلت ہو نا ہی ہے۔ بھارت کی بڑی سیاسی جماعتیں دلتوں کی محرومیوں پر مگر مچھ کے آنسو بھی بہاتی ہیں۔ بھارت کے حالیہ صدارتی انتخابات میں بھی بی جے پی نے اس بات کو بڑے فخر سے پیش کیا کہ اس نے ایک دلت کوا پنا صدارتی امیدوار چنا جس کے باعث کانگرس کو بھی ان انتخابات میں ایک دلت کو ہی اپنا امیدوار نامزد کرنا پڑا، مگر یہاں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا کسی دلت کے صدر بن جانے سے دلتوں کے مسائل ختم ہوجائیں گے؟ سیاسیات کے جدید نظریے دان یہ ثابت کرتے ہیں کہ کسی فرد یا حکمران سے زیادہ اہمیت اس سیاسی اور سماجی نظام کی ہوتی ہے جس کے تحت کوئی بھی فرد کسی منصب تک پہنچنے میں کا میاب ہوتا ہے۔بھارت میں اس سے پہلے 1997ء سے لے کر 2002ء تک بھی ایک دلت ’’ کے آر نارائن ‘‘ بھارت کے صدر رہے۔ نارائن کو ایک انتہائی زیرک ، وسیع مطا لعہ اور بصیرت رکھنے والا شخص قرار دیا جاتا تھا، مگر اس کے با وجود کے آر نارائن کے صدر بننے سے بھارت کی عام دلت کی زندگی میں کیا سدھار آیا؟ ذات پات کی جڑیں بھارت کے سماجی نظام میں پیوست ہیں، اس لئے ذات پات کی اس تقسیم اور اس کے باعث جنم لینے والی محرومیاں اس وقت تک بر قرار رہیں گی، جب تک پسماندہ سماجی نظام اپنی جگہ پر قائم رہے گا ۔

مزید :

کالم -