چِٹھی ورنہ چُھٹی
سر منڈواتے اولے پڑنا اسے ہی کہتے ہیں، سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا ہے کہ وہ وزیراعظم سے صدر زرداری کی کرپشن کے مقدمات کھولنے کے لئے خط لکھنے کے حوالے سے جواب لے کر آئیں، ویسے تو وزیر اعظم کو اپنی افتتاحی پریس کانفرنسوں سے ہی اس سوال کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو خط کب لکھیں گے، جس کے جواب میں وہ وہی پرانی مالا جپتے نظر آتے ہیں کہ ہر کام آئین کے مطابق ہوگا،جیسے آئین بالآخران کے کام کے مطابق ہو جائے گا، وہ وقت دور نہیں لگ رہا جب سپریم کورٹ راجہ صاحب کو ایک سطری آرڈر جاری کرے گی کہ چٹھی لکھو ورنہ چھٹی کرو!
مزار قائدؒ پر حاضری کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوںنے اپوزیشن کو محبت کا پیغام دیا، راجوں مہاراجوں کے منہ سے محبت کا پیغام عجیب لگتا ہے ، ہو سکتا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو بھی اپنی اپوزیشن ہی گردانتے ہوں، انہوں نے اس بات کی بھی توفیق مانگی کہ پاکستان کے لئے بہتری کر سکیں، کسی ادارے کے ساتھ ٹکراﺅ نہیں چاہتے کیونکہ یہ ملک کے حق میں نہیںوغیرہ وغیرہ، اتحاد ، ایمان اور تنظیم کا اعادہ بھی کیا!
بالفرض اگر ان کے فوراً بعد اسی مقام پر قائد اعظمؒ کی پریس کانفرنس ہوتی تو حکومت کم از کم اسے پی ٹی وی پر نہ چلنے دیتی کیونکہ جو کچھ انہوں نے کہنا تھا اس کا بیشتر حصہ ناقابل نشر و اشاعت ہوتا !
اگر قائد اعظمؒ کو سوال ہوتا کہ آپ وزیر اعظم کو کیا ایڈوائس کریں گے کہ وہ سپریم کورٹ کے کہنے پر سوئس عدالتوں کو صدر زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات کھولنے کے لئے چٹھی لکھیں یا نہ لکھیں، اس پر قائد اعظمؒ نے کہنا تھا کہ چٹھی ضرور لکھنی چاہئے ، اس سے ہمارا سر اقوام عالم میں بلند ہوگا کہ یہاں کوئی بھی قانون اور احتساب سے مبرا نہیں ہے، سربراہ مملکت ہو یا کوئی عام پاکستانی، قانون کی نظر میں ہر کوئی برابر ہے!
اس دوران کسی صحافی نے لقمہ دیا ہوتاکہ وزیر اعظمؒ کہتے ہیں آئین کے مطابق ہر مسئلے سے نپٹا جائے گا اور آئین میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں کہ وزیر اعظم کو خط لکھنا چاہئے ، تو قائد اعظم نے کہنا تھا کہ اگر نہیں ہے تو حکومت کو فی الفور ترمیم لا کر اس کو یقینی بنانا چاہئے کہ کوئی بھی حساب کتاب سے بالا نہیں ، اور اعلیٰ عدلیہ اگر آئین کی حکمرانی قائم کرنے کے لئے سربراہ مملکت کو عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دے تو اس کو حاضر ہونا چاہئے!
خیر مزار قائد پر قمر زمان کائرہ بھی یوں سج دھج کے پریس کانفرنس میں کھڑے نظر آئے ہیں جیسے کوئی وزیر اعظم کھڑا ہوتا ہے ، ہو سکتا ہے دل ہی دل میں پریکٹس بھی کر رہے ہوں کہ جب وہ وزیر اعظم ہوں گے تو کس سوال کا کیا جواب دیں گے !...شہیدوں کی کرسی پر غازی بیٹھ بیٹھ کر اٹھتے جا رہے ہیں، کسی میں ہمت نہیں کہ شہیدوں کا راستہ اپنائے اور امر ہو جائے!
ادھر اہم خبر یہ ہے کہ صدر زرداری نے گیلانی صاحب کو ایوان صدر میں اوپر کی منزل پر تین کمرے دے دیئے ہیں ، اب وہ اسلام آباد کلب کی بجائے ایوان صدر رہیں گے ، گویا کہ ایوان صدر میں ایک نہیں دو نااہل رہیں گے جب راجہ پرویز اشرف بھی آجائیں گے، اگر یہی حال رہا تو ملک میں ہر نااہل اپنے آپ کو ایوان صدر کا اہل سمجھنا شروع ہو جائے گا۔
سابق صدر رفیق تارڑ سے ضرورپوچھنا چاہئے کہ ایوان صدر میں رہائش اختیار کرنے کے لئے آدمی کا کس قدر نااہل ہونا لازمی ہوتا ہے، ویسے ایوان صدر میں رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی کی اگلی حکومت میں جناب گیلانی صاحب صدرمملکت بن جائیں کیونکہ جب تک رہیں گے اور کچھ کریں نہ کریں ایوان صدر میں وقت گزارنے کا طریقہ تو سیکھ ہی لیں گے!
لگتا ہے کہ صدر زرداری نے گیلانی صاحب کو اس لئے ایوان صدر رکھ لیا ہے کہ جب کبھی ان کا دل کسی کو نااہل کہنے کو چاہے تو کوئی تو ہو جو اس کے اہل ہو، ویسے بھی بیچارے فرحت اللہ بابر صاحب کب تک سنتے رہتے ، الحمد للہ اب باقاعدہ ایک نااہل شخص ایوان صدر میں صدر صاحب کے ساتھ مقیم ہے، جس کسی نے دیکھنا ہو جا کر دیکھ لے!
پتہ نہیں گیلانی صاحب سے کوئی کام بھی لیا جا رہا ہوگا یا نہیں کیونکہ نا اہل شخص سے تو ہر کام بچایا جاتا ہے کہ کہیں خراب نہ کر دے، سنا ہے کہ پارٹی کی تنظیم سازی کا کام انہیں سونپا جائے گا، اول تو ن لیگ کے پنجاب میں گیلانی صاحب کا اتنا بھی اثرورسوخ نہیں جتنا راجہ ریاض صاحب کا ہے اور جہاں تک جنوبی پنجاب کا تعلق ہے تو وہاں ان سے زیادہ تاج محمد لنگاہ کی قدرو منزلت ہے ،پس ثابت ہوا کہ صدر زرداری پارٹی کی تنظیم سازی میں سنجیدہ نہیں ہیں، تبھی تو ایک نااہل شخص کو اس اہم کام پر مامور کردیا ہے!
اگر گیلانی صاحب نے چپ کا روزہ نہ توڑا تو وہ دن دور نہیں جب لوگ دور دور سے انہیں دیکھنے کے لئے ایوان صدر کے باہر جمع ہوا کریں گے اور ایوان صدر کی باہری دیوار پر لکھا کریں گے ”گیلانی کو رہا کرو“!
نااہل ہونا اور نااہل کہلانا دو علیحدہ کیفیات ہیں، گیلانی صاحب نااہل ہوں یا نہ ہوں، تاریخ میں کہلائے ضرور جائیں گے، ان کی آئندہ نسلیں اپنی مرضی کی تاریخ لکھوا کر پڑھیں گی لیکن کالجوں یونیورسٹیوں میں جو تاریخ پڑھائی جائے گی اس میں انہیں نااہل ہی گردانا جائے گا!
ویسے اور کچھ نہیں تو پیپلز پارٹی کو ایک نااہل سیاسی شہید میسر آگیا ہے ، بلکہ ایک اور آنے والا ہے ، ایسے شہیدوں کا ڈھیر بھی لگ جائے تو تربوزوں کے ڈھیر جتنی قیمت نہ لگے،پاکستان اس حوالے سے بھی منفرد ملک ہوگا جہاں بیک وقت اتنے زیادہ نااہل وزرائے اعظم موجود ہوں گے!