اشعار کی درستی کا معاملہ

اشعار کی درستی کا معاملہ
اشعار کی درستی کا معاملہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ممتاز و منفرد لب و لہجے کے شاعر ناصر کاظمی نے غزل مخالف شاعروں سے زچ ہو کے کبھی کہا تھا:
کہتے ہیں غزل قافیہ پیمائی ہے ناصر!
یہ قافیہ پیمائی ذرا کر کے تو دیکھو!
اُردو کے ایک ’’پروفیسر‘‘ کو اشعار کی دُرستی اتنی آسان لگتی ہے جیسے ’’کسی موٹر سائیکل کے مالک کا نام پتا ایکسائز انسپکٹر بتا دے‘‘۔۔۔ اس احمقانہ دلیل کو ایک طرف رکھتے ہوئے، عرض ہے کہ یہ آسان کام ذرا خود بھی کر کے تو دکھاؤ۔ پروفیسر ڈاکٹر جواز جعفری نے فون کر کے اِس مصرعے کا پہلا یا دوسرا مصرع پوچھا ہے:
ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
ہمارے معترضِ اوّل و آخر محترم ناصر بشیر ذرا یہ آسان سا کام کر دیں، ہم ممنون ہوں گے، بلکہ ’’استاد‘‘مان لیں گے!
اب آیئے کچھ نئے پرانے مغالطوں کی درستی کی طرف یعنی درستیئ اشعار:
موقر دینی و ادبی ماہنامہ ’’خطیب‘‘ لاہور کی اشاعت دسمبر2006ء میں مطبوعہ ایک مضمون بعنوان ’’اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے‘‘ میں فاضل مضمون نویس عبدالوارث ساجد نے ایک مشہور شعر بغیر شاعر کا نام لئے، اس طرح رقم کیا ہے:
تازہ ہوا کے شوق میں اے پاسبانِ شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
متذکرہ شکل میں بھی شعر وزن میں تو ہے، مگر شاعر نے پہلے مصرعے میں ’’پاسبان‘‘ نہیں کہا تھا ’’ساکنان‘‘ کہہ رکھا ہے۔ دراصل یہ شعر صحیح یوں ہے:
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ در بناؤ کہ دیوار گر پڑے
روزنامہ’’اوصاف‘‘ کی اشاعت منگل 17مارچ 2015ء کو ایک مضمون ’’وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے‘‘ کے عنوان سے نظر سے گزرا۔ فاضل مضمون نویس قاری حنیف جالندھری نے اپنے اس مضمون میں حضرت علامہ اقبال ؒ کا ایک بہت مشہور شعر اِس طرح لکھا ہے:
وہ ایک سجدہ جِسے تُو گراں سمجھتا ہے
دیتا ہے ہزاروں سجدوں سے آدمی کو نجات
جبکہ علامہ اقبال ؒ نے پہلے مصرعے میں ’’وہ ایک‘‘ سے مصرع شروع نہیں کِیا ’’یہ ایک‘‘ کہا تھا اور دوسرا مصرع متذکرہ بے وزن اور بگڑی ہوئی بھونڈی شکل میں نہیں کہا تھا۔۔۔ علامہ اقبال ؒ کا صحیح شعر یوں ہے:
یہ ایک سجدہ جِسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
حفیظ گوہر نے اپنی کتاب ’’پاکستان کے حکمران‘‘ ]ایک سچی اور کڑوی کتاب[ کے سرورق کے آخری صفحے پر محسن پاکستان، عظیم ایٹمی سائنسدان، مصنف اور کالم نویس ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رائے شائع کر رکھی ہے۔ اس فلیپ کے آخر میں ایک بہت ہی مشہور، بلکہ ضرب المثل شعر اس طرح محترم ڈاکٹر خان صاحب نے درج کیا ہے:

خط اُن کا بہت خوب عبارت بھی ہے اچھی
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

جبکہ حضرتِ نواب مرزا داغ دہلوی کا یہ شعر صحیح اِس طرح ہے:
خط اُن کا بہت خوب، عبارت بہت اچھی
اللہ کرے حُسنِ رقم اور زیادہ
ہفت روزہ’’ الاعتصام‘‘ لاہور کی اشاعت 24تا30نومبر2006ء میں مولانا عبدالصمد ریالوی نے ’’عبادت کیا ہے؟‘‘ کے عنوان سے ایک فاضلانہ مضمون رقم کیا، آخری پیرا گراف میں لکھا:
’’آہ مجاز اعظمی کس موقع پر یاد آئے:
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
طوائف گھری ہوئی ہے تماش بینوں میں
اس سے قطع نظر کہ ’’مولانا‘‘ نے مصرع ثانی کو نثر بنا دیا ہے۔ یہ شعر کسی مجاز اعظمی نامی شاعر کا نہیں، بلکہ شاد عارفی مرحوم کا ہے۔ اس شعر کو اکثر شورش کاشمیری سے بھی منسوب کر دیا جاتا ہے کہ وہ جلسوں میں اسے بغیر شاعر کا نام بتائے پڑھا کرتے تھے۔ صحیح شعر حضرت شاد عارفی ]رامپور۔ انڈیا [ کا یُوں ہے:
ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو
گِھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
روزنامہ ’’فائنل نیوز‘‘ لاہور کی اشاعت جمعرات 19 مارچ2015ء کے ادارتی صفحے پر ایک فاضل مضمون نگار محمد حسنین مصطفائی کے مضمون بعنوان:
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
کے تحت مضمون کا اختتام ایک خاصے مشہور شعر پر یُوں بغیر شاعر کے نام کے کیا گیا ہے،
رُکا تو سمندر چلا تو ہواؤں جیسا تھا
وہ ایک شخص جو دھوپ میں چھاؤں جیسا تھا
جبکہ یہ ناصرِ صدیقی کی مشہور غزل کا مطلع ہے جو صحیح یُوں ہے:
رُکے تو چاند، چلے تو گھٹاؤں جیسا ہے
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاؤں جیسا ہے
یہ غزل مَیں نے اپنے دورِ ادارت میں ماہنامہ ’’ادب لطیف‘‘ لاہور کے خاص نمبر1966ء میں پہلی بار شائع کی تھی، ناصرِ صدیقی بعد میں محمد ناصر ہو گئے اور پی ٹی وی کراچی کے لئے بہت تواتر سے گیت لکھتے رہے تھے۔ اب نہیں معلوم کہاں ہیں؟ خدا کرے حیات ہوں اور بخیرو عافیت ہوں۔
اشعار کی دُرستی اپنی جگہ۔ ذرا اس سے ہٹ کر اہم بات ہم جو غیروں کی جنگ میں جھونکے جا رہے ہیں اور ہماری بہادر افواج کو ’’کرایے کے فوجی‘‘ بنانے کی افواہیں گرم ہیں۔ اس تناظر میں ملاحظہ ہو راہی شہابی کی ایک لازوال نظم ’’جنگ کیا ہے؟‘‘:
جنگ کیا ہے؟
وہ جن کی آنکھوں کے چاند تارے، حسین ، کڑیل، جگر کے ٹکڑے
گئے تھے اِک روزجنگ پر، تو گھروں کی جانب کبھی نہ پلٹے
تم اُن سے پوچھو، تمہیں وہ مائیں جواب دیں گی کہ جنگ کیا ہے؟

لئے ہوئے رَاکھیاں کھڑی تھیں، جو راستوں پر نظر جمائے
وہ جن کی آمد کی منتظر تھیں، سب آئے لیکن وہی نہ آئے
وہ غم کی ماری اُداس بہنیں جواب دیں گی کہ جنگ کیا ہے؟

وہ ننھے معصوم بھولے بچے کہ جن کے سر پر رہا نہ سایا
کوئی گلے سے لگانے والا، نہ گود میں کوئی لینے وَالا
وہ بے سہارا یتیم رُوحیں جواب دیں گی کہ جنگ کیا ہے؟

وہ بستیاں جن میں چاروں جانب مسرتوں کے دیئے تھے روشن
چٹک رہے تھے حسین غنچے، مہک رہے تھے گلوں کے دَامن
اب اُن کی اُجڑی ہوئی بہاریں جواب دیں گی کہ جنگ کیا ہے؟

نہ جانے کتنی حقیقتیں ہیں، جو بُھولی بسری سی داستاں ہیں
خدا اگر بولنے کی طاقت اُنہیں بھی دے دے جو بے زباں ہیں
تو پھر خدا جانے کتنی قبریں جواب دیں گی کہ جنگ کیا ہے؟

ہزاروں صدیاں گزر چکی ہیں، یہ سلسلہ اب تو ختم کر دو
ہر اِک لُغت سے یہ لفظ خونیں، ستم گرد! یوں نکال پھینکو

کہ کل جب اِنسان کے لبوں پر سوال آئے کہ جنگ کیا ہے؟
تو پوری دُنیا میں کوئی اُس کو بتا نہ پائے کہ جنگ کیا ہے؟

مزید :

کالم -