مائنس الطاف حسین

مائنس الطاف حسین

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایم کیو ایم نے اپنے Bad image کی بہت بھاری قیمت ادا کی ہے۔ کراچی میں جاری پاکستان رینجرز کے آپریشن میں کوئی سیاسی جماعت اس کی مدد کے لئے نہیں آئی، تبھی تو رینجرز کے قطعی انتظامی نوعیت کے آپریشن کو ایم کیو ایم نے سیاسی آپریشن ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تاکہ سندھ کے اُردو سپیکنگ حلقوں میں اس کی ساکھ بنی رہے۔


دیکھا جائے تو ایم کیو ایم اپنی اس کوشش میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہی ہے اور بلدیاتی انتخابات کے پہلے دو مرحلوں میں اس کے امیدواروں نے خاطر خواہ کامیابی حاسل کی ہے۔ البتہ ایم کیو ایم جہاں پر خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہے وہ ٹی وی چینلوں پر جناب الطاف حسین کی تصویر اور تقریر پر پابندی کا خاتمہ ہے ۔ ایم کیو ایم کے سربراہ کی ٹی وی پر جلوہ گری پر پابندی تاحال قائم ہے۔ اخبارات میں بھی ان کے حوالے سے کچھ شائع نہیں ہو رہا ہے۔ وہ ایک زخمی شیر کی طرح پنجرے میں قید پڑے ہوئے ہیں اور ایم کیو ایم کی قیادت عملاً ڈاکٹر فاروق ستار کے پاس ہے۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی مائنس الطاف حسین ایم کیو ایم کی خواہش مند تھی!


اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف مسقبل میں اس جماعت کی قیادت پر ہاتھ صاف کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، کیونکہ ایک زمانے میں یہ بات کھلے بندوں کی جارہی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کی قیادت الطاف حسین سے لے کر پرویز مشرف کے حوالے کرنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے تاکہ ایک بڑی سیاسی جماعت کو نہ صرف ان کی سربراہی میں دے دیا جائے، بلکہ وہ پنجاب کے ناراض نون لیگیوں اور قاف لیگیوں پر مشتمل ایک نئے سیاسی اتحاد کی بنیاد بھی رکھ سکیں۔


البتہ یہ معاملہ اس لئے کھٹائی میں پڑ گیا تھا کہ جناب الطاف حسین نے بار بار استعفیٰ دے کر اور ان کے ووٹروں سپورٹروں نے بار بار انہیں اپنا لیڈر مان کریہ ثابت کردیا تھا کہ ان کے اور الطاف حسین کے درمیان اسٹیبلشمنٹ کی خلیج حائل نہیں ہو سکتی ہے۔ اس صورت حال میں جب الطاف حسین نے ضرورت سے بڑھ کر بڑھکیں لگائیں تو حکومت کو جواز مل گیا کہ ان کی میڈیا میں براہ راست کوریج پر پابندی لگا دی جائے۔یہ الگ بات کہ حلقہ 246اور بعد میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے دو مراحل میں یہ بات بار بار ثابت ہوئی ہے کہ الطاف حسین کو مائنس کرنا آسان نہیں ہے اور اگر 5دسمبر کو ایم کیو ایم نے کراچی کا میدان بھی مارلیا تو پھر تو بالکل ہی مشکل ہو جائے گا۔


دوسر ی جانب ڈاکٹر فاروق ستار نے انتہائی چابکدستی سے میڈیا پر اپنا کیس پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ ایم کیو ایم کے خلاف ایک سازش کا جال بنا جا رہا ہے ، اسے دیوار سے لگایا جا رہا ہے اور ایم کیو ایم کی جگہ کسی اور جماعت ، کسی اور الائنس کو لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ایم کیو ایم نے اپنی سیاسی قوت کی بنا پر اپنی بچت یقینی بنائی ہے وگرنہ اس کا bad imageاور منفی public perceptionاسے بحیرہ عرب میں ڈبونے کے لئے کافی تھا۔اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی سیاسی حیثیت کی اہمیت اس کے سیاسی امیج سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ ایم کیو ایم ایک مخصوص قومیت کی نمائندگی کرتی ہے، جو مُلک کے ایک مخصوص حصے میں آباد ہے اِس لئے ایک نسل، ایک رنگ اور ایک زبان ہونے کی وجہ سے ایم کیو ایم کے ووٹر سپورٹر پوری طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، ان کے پاس متحد رہنے کا بہت سا جواز ہے،کیونکہ ان کی محرومیاں اور ناکامیاں ایک سی ہیں اور ان کی کمزوری ان کی طاقت بنی ہوئی ہے اور یوں رینجرز کے آپریشن کا ایم کیو ایم کو سیاسی طور پر فائدہ ہوا ہے کہ اس کے ووٹر اور سپورٹر ایک دوسرے کے قریب ہوتے جا رہے ہیں اور ایک دوسرے کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات کو ملک کے مڈٹرم انتخابات سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ان انتخابات کے نتائج نے ہر سیاسی جماعت کی 11مئی 2013ء کے عام انتخابات کی پوزیشن کو بحال رکھا ہے ماسوائے پاکستان تحریک انصاف کے جو 2013ء کے مقابلے میں اپنا گراؤنڈ کھوتی جا رہی ہے ، یہی صورت حال رہی تو 2018ء کے انتخابات کے نتائج کا اندازہ لگانا کچھ زیادہ مشکل نہیں رہتا، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں نے ملکی سیاست میں ایجنسیوں کے کردار کو رد کرنا شروع کر دیا ہے اور وہ پاکستان تحریک انصاف کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں!

مزید :

کالم -