بلدیاتی الیکشن،کسے فائدہ، کسے نقصان؟
لطیفہ تو گھسا پٹا ہے، لیکن وہ سنانے پر مصر تھے۔ آج کل بلدیاتی انتخابات کا زمانہ ہے۔ یہ گلی محلے کے انتخابات ہیں، اِس لئے جہاں چار لوگ جمع ہوں بات اِسی حوالے سے ہوتی ہے۔ گزشتہ روز سیر صبح کی محفل جمی تو کسی نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز شریف کا ذکر چھیڑ دیا، امریکی دورے کے حوالے سے اُن کی مصروفیات اور اس بارے میں شائع ہونے والی بعض خبروں کا ذکر ہوا، ان میں امریکی اخبار و جرائد بھی تھے، ان میں یہ تاثر دیا گیا کہ وزیراعظم محمد نواز شریف اپنی صاحبزادی کی تربیت اس انداز سے کر رہے ہیں کہ وہ آئندہ قیادت سنبھالنے کی اہل ہو جائیں، لقمہ دیا گیا یہ بھی تو کہا گیا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی تو بے نظیر بھٹو کی تربیت اِسی طرح کی تھی، ایک صاحب دُکھ سے بولے! یہاں وراثتی سیاست کی مخالفت کی جاتی ہے، لیکن عملی طور پر تو یہی ہوتا ہے ، اس مرحلے پر وہ لطیفہ دہرایا گیا ’’ایک میراثی کے صاحبزادے نے اپنے باپ سے پوچھا‘‘ ابا، اگر ہمارے پنڈ(گاؤں) کا نمبردار مر جائے تو اگلا نمبردار کون ہو گا،باپ نے جواب دیا نمبردار کا بیٹا،صاحبزادے نے کہا اگر وہ بھی مر جائے تو؟ اس میراثی کو غصہ آ گیا اور اس نے جھڑکی دے کر کہا جا ، جا کر کام کر، سارا پنڈ(گاؤں) مر جائے، مگر تُو نمبردار نہیں بن سکتا۔ ان صاحب کا اصرار تھا کہ ہماری سیاست میں کوئی حرج تصور نہیں ہوتا‘‘۔
بیگ صاحب نے کہا بھٹو کی جگہ بے نظیر بھٹو نے لی اور بے نظیر کی جگہ اب بلاول بھٹو زرداری قیادت سنبھالے ہوئے ہیں، وزیراعلیٰ شہباز شریف کے ساتھ ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز مستقبل کے قائد ہیں، بات یہی نہیں، بھارت پر بھی نظر ڈالیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ پنڈت جواہر لال نہرو کے بعدان کی جگہ اندرا گاندھی اور ان کے بعد راجیو گاندھی نے لی تھی، چنانچہ ہمارے پورے خطے میں شخصیت پرستی ہے، تو اس میں کیا حرج ہے۔ یوں بھی غیر ملکی جریدے نے ساتھ اہلیت کی بھی تو تعریف کی ہے، اِس لئے اگر محمد نواز شریف مستقبل کے لئے اپنی صاحبزادی کو بڑھاوا دے رہے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے، کیونکہ مریم نواز شریف اچھی سمجھ دار خاتون ہیں اور انہوں نے اب تک جن محاذوں پر کام کیا ان کی تعریف ہی کی گئی ہے۔ پھر سب کو چپ ہی سادھنا پڑی۔
بات قدرتی طور پر بلدیاتی انتخابات کی طرف چلی گئی ، تو معروضی حالات کا ذکر ہونے لگا۔ حاجی مقبول احمد نے فیصل آباد کے چودھری شیر علی کا ذکر کیا اور کہا وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف سے ملاقات اور قیادت پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے چودھری شیر علی نے کہا تھا کہ ان کو وزیراعظم محمد نواز شریف اور وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف پر بھی مکمل اعتماد ہے اس کے بعد بھی انہوں نے جلسہ کر ڈالا، حاجی مقبول کے مطابق یہ غلط ہوا، اس سے مسلم لیگ (ن) کو نقصان ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گلی محلے کے انتخابات ہیں، یہاں ٹکٹ تقسیم کرتے وقت احتیاط کی ضرورت تھی، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور کئی حق دار رہ گئے اور اب وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب میں حصہ لے رہے ہیں، وسیم ڈار کے مطابق علامہ اقبال ٹاؤن میں خالد کھوکھر کے خلاف محاذ بن گیا اور مسلم لیگ ورکرز اتحاد کے نام پر ایک اور اکٹھ ہو گیا، ان کے امیدوار بھی میدان میں ہیں، اِسی طرح شیخ روحیل اصغر ناراض ہیں اور انہوں نے آزاد امیدواروں کا گروپ تشکیل دے لیا ہے،حاجی مقبول کہہ رہے تھے کہ رائیونڈ اور جوہر ٹاؤن میں ایم این اے افضل کھوکھر مشکل میں ہیں کہ جن کو ٹکٹ نہیں ملا وہ آزاد امیدوار بن گئے ہیں، اس سے مسلم لیگ(ن) کو نقصان ہو گا، ان کو ٹکٹ کا جھنجھٹ ہی نہیں پالنا چاہئے، سب کو آزاد چھوڑ دیتے، ہمارا سوال تھا کہ اس ساری صورت حال سے فائدہ کس کو ہو گا؟ تو جواب واضح نہیں تھا صرف مسلم لیگ(ن) کے اختلاف یا انتشار کا ہی ذکر تھا۔
گزارش کی کہ یہ عدم اتفاق یا اختلاف ہے، لیکن اس سے فائدہ اٹھانے والی کوئی دوسری جماعت نہیں ہے۔ اگر تحریک انصاف اچھی طرح چھان پھٹک کر ہر حلقے میں اچھا پینل دے سکتی، تو خطرہ ہو سکتا تھا، لیکن تحریک انصاف والوں کو تو زمینی حقائق ہی کا علم نہیں ہے، چودھری محمد سرور تو پورے پنجاب اور یہاں کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے کچھ بھی نہیں جانتے، اِس لئے ان کی بھاگ دوڑ کا براہِ راست فائدہ نہیں، میاں محمود الرشید اور چودھری اعجاز تو مقامی سیاست سے واقف ہیں وہ بھی امیدواروں کے چناؤ میں کوئی حصہ نہیں ڈال سکے۔ اگر تحریک انصاف ہر حلقے میں پینل کھڑا کرتی اور امیدوار بھی قدرے بہتر ہوتے تو اس انتشار کا فائدہ اسے ہو سکتا تھا، لیکن تحریک تو پورے امیدوار بھی مہیا نہیں کر سکی،اس لئے جو مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر جیتا وہ تو جیتے گا اور مسلم لیگی ہی ہو گا تاہم جو آزاد حیثیت سے لڑ کر منتخب ہوئے وہ کوئی بھی ہوں سب اپنے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ ان کے ناز نخرے برداشت کرنا ہوں گے، اس کی مثال 1979ء کے انتخابات کی ہے، کہ لاہور میں پیپلزپارٹی ’’عوام دوست پینل‘‘ بنا کر جیت گئی، لیکن جب میئر کے انتخاب کا وقت آیا تو رکن پھر ہار گئے، میاں شجاع میئر بن گئے۔ویسے بھی فیصل آباد ہو یا لاہور فریقین آپس میں اختلاف رکھتے ہیں، لیکن دونوں مسلم لیگ (ن) کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں، دوسرے معنوں میں آزاد یا ٹکٹ ہولڈر جو بھی جیتا وہ مسلم لیگی ہی ہو گا کہ لڑائی چودھری شیر علی اور رانا ثناء اللہ کی ہے، دونوں گروپوں نے قیات پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا۔
ان انتخابات کے پہلے مرحلے کے لئے پولنگ 31 اکتوبر کو ہونا ہے اور اِسی میں فیصلہ ہو جائے گا بہرحال تحریک انصاف حالات کے مطابق کچھ لوگ منتخب تو کرا ہی لے گی!