سسٹم ٹھیک ہو سکتا ہے
جب واقعہ ہوا تو اُس وقت وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ آج کے کالم کا موضوع بن جائے گا ۔ گھر سے نکل کر نہر والی سڑک پہ صبح سویرے نیو کیمپس کا رخ کرلینا یا دوسری طرف انڈر پاس میں داخل ہوئے بغیر جیل روڈ کو مڑ جانا کوئی عجیب بات تو نہیں۔ہاں،یہ خلافِ معمول تھا کہ جس جگہ نہر کنارے وزارتِ خارجہ کے کیمپ آفس کا بورڈ لگا ہوا ہے ، اُس سے چند گز پہلے دو ٹریفک سارجنٹ آپ کے بائیں ہاتھ نمودار ہوں اور گاڑی روکنے کا اشارہ کردیں ۔ ڈاکٹر کے پاس بقائمی ہوش وحواس جانے والے مریض کی طرح اچانک روکے جانے والے ڈرائیور کو بھی اپنی کسی نہ کسی بے احتیاطی کا پیشگی احساس ہوا کرتا ہے۔پر مَیں تو ابھی گھر سے نکلا ہی تھا ۔ نہ لال یا سبز بتی راستے میں،نہ کسی کو اوورٹیک کرنے کے لئے لین بدلی۔رہی تیز رفتاری تو بندہ اِس وصف سے پیدائشی طور پہ عاری ہے ۔ ’’السلام علیکم سر، آپ کے پاس ڈرائیونگ لائسنس یا رجسٹریشن تو ہو گی؟‘‘ سارجنٹ کا لہجہ نہائت شائستہ تھا۔ ’’لائسنس ضرور دیکھیں ، مگر یہ بتائیں کہ ہوا کیا ہے؟‘‘ اب جو جواب ملا وہ میرے فکری امکانات کے دائرے سے باہر تھا ۔ ’’آپ کی نمبر پلیٹ پلاسٹک کی ہے‘‘ ۔ گھپلے کی نوعیت میری سمجھ میں آ گئی اور اخبارات کے وہ باکس آئٹم بھی نظر میں گھومنے لگے جن میں سائز اور ترتیب و تناسب کو یقینی بنانے کی تازہ مہم میں ہر روز کسی نہ کسی وی آئی پی کی نمبر پلیٹ اکھاڑ پھینکنے کا مژدہ سنایا جاتا ہے ۔ مَیں ہوں تو بنیادی طور پہ ایک معتدل اور منطقی آدمی، پھر بھی لمحے بھر کو جب چیزیں گھومتی ہوئی محسوس ہوئیں تو مجھے بے تکلف دوست ڈاکٹر اسلم ڈوگر کی نصیحت یاد آگئی کہ پولیس سے کام پڑے تو دلیل کی بجائے کوئی انسانی عذر پیش کر دیا کریں ، جیسے رات بے آرام رہا یا بیمار ی کی پریشانی ہے، اس لئے غلطی ہو گئی ۔
قانون کے طالب علم کے طور پر اُس وقت یہ اعتراض اٹھانے کو جی تو چاہا کہ اگرچہ نمبر پلیٹ کی ہدایات کا آئندہ اطلاق تو سمجھ میں آتا ہے، مگر یہ قواعد و ضوابط گزرے ہوئے زمانے کے لئے پچھلی تاریخ سے کیسے نافذ العمل ہو گئے ؟ بہر حال، صلح صفائی کی خاطر اپنے جبلی طرزِ عمل پہ قابو پاتے ہوئے کہا کہ ’’ بیٹا ، کیوں تنگ کرتے ہو،اِس عمر میں بھی اگر رات تین بجے کوئی سرخ اشارے پہ رکتا ہے تو وہ میں ہوں اور کار بھی پرانے ماڈل کی ہے بلکہ اللہ کی مہربانی سے اِس نئی صدی کی ہمقدم‘‘۔اب ڈوگر صاحب کے فارمولے کی رو سے اپنی اور گاڑی کی کبیرسنی کا حوالہ موثر ثابت ہو جانا چاہئیے تھا مگر ایسا نہ ہوا۔ ’’آپ کی نمبر پلیٹ اتار کر موٹر کار ضبط کی جا سکتی ہے ، لیکن آپ نفیس آدمی ہیں ، اس لئے بس جرمانہ کر رہا ہوں جو مین مارکیٹ والے نیشنل بینک میں جمع کرا دیں ‘‘۔ سارجنٹ کا لہجہ بیک وقت خوشگوار اور فیصلہ کن تھا۔ اپنی بات کروں تو گھر سے نکلتے ہوئے پیشہ ورانہ ضرورت کے تحت دو دوستوں سے الگ الگ ملاقا ت کا پروگرام بنا رکھا تھا ، مگر شکست خوردگی کی ایک اپنی نفسیات ہوا کرتی ہے۔
چنانچہ محبِ وطن شہری نے سوچا کہ سب کاموں کو چھوڑ کر بلاتاخیر جرمانہ ادا کیا جائے تاکہ ذہنی دباؤ سے نجات ملے۔اب یہ تفصیل آپ کو بے ربط سی لگے گی کہ بینک کی جرمانوں والی کھڑکی پہ گہری سیاہ رنگت والے کیشئیر کو دیکھ کر احساس ہوا کہ اُس کا ظاہر باطن ایک ہی جیسا ہے یعنی چہرے کی طرح دل بھی کالا۔اسی لئے تو وہ لائن میں مجھ سے اگلے آدمی سے زور زور سے کسی کے متعلق کہہ رہا تھا’’وہ ہوتا کون ہے یہ کہنے والا ؟‘‘ ساتھ ہی ’’کہنے والا‘‘ سے پہلے ایک موٹی گالی اور میری طرف داد بٹورنے کے انداز میں’’کیوں صاحب ، ٹھیک ہے نا ؟ ‘‘ ’’جناب ، مَیں بس شکل سے عقلمند لگتا ہوں ، ورنہ مجھے اِن باتوں کی کچھ سمجھ نہیں‘‘۔ مَیں نے اپنی دانست میں سچ کے سوا کچھ نہ کہا ۔
یہاں تک پڑھ لینے کے بعد آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہو نہ ہو کالم نگار نے آج کے لئے موضوع کا چناؤ سیاہ رو کیشئیر کی ڈانٹ سے گھبرا کر کیا ۔ یا آپ یہ بھی پوچھ سکتے ہیں کہ اگر صیغہ واحد غائب یا تھرڈ پرسن سنگولر میں کسی آدمی کو برا بھلا کہا جا رہا ہو تو اس پر ایک شریف انسان کا رد عمل کیا ہونا چاہیے۔اکثر لوگ ٹریفک چالان جیسی ذلت سہنے کے عمل میں زیادہ صاف گو ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا مَیں بھی انتہائے سادگی میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ آپ نے ایک ایسے شخص کو جو یہاں موجود نہیں ، کچھ دیر پہلے جو گالی دی ہے اُس میں ہم سب کی بہتری کا کوئی نہ کوئی پہلو تو ضرور ہوگا ۔ کچھ معلوم نہیں کہ میرے مخاطب کو یہ پوائنٹ پسند آیا یا نہیں ، لیکن اُس نے مجھ سے اگلے آدمی کو نظرانداز کرتے ہوئے میرے کاغذات اور تین سو روپے ہاتھ میں لئے اور پھیکی سی رسید تھما کر فارغ کر دیا ۔ یہاں تک کالم کے لئے تھوڑا سا مواد جمع تو ہو چکا تھا ، مگر انگریزی میں میلو ڈرامہ کی مقبول اصطلاح ایک یا تین ایکٹ کے مخصوص کھیل کے لئے استعمال ہوتی ہے۔واقعات کا اتار چڑھاؤ اور کرداروں کا باہمی تال میل اپنی جگہ ، لیکن میلو ڈرامہ کے لئے ہمارے نجی ٹی وی چینلز کے خبر ناموں کی مانند کہانی کے سنسنی خیز ہونے کی شرط بھی ہے۔ساتھ ہی انسانی جذبات کو بھانے والا کوئی نہ کوئی واقعاتی عنصر ، اُس سے آگے کامل انصاف اور ہیپی اینڈنگ کا اختتامی مرحلہ ۔ یعنی جو کردار بے قصور ہیں، وہ بری الذمہ ٹھہریں اور جو قصور وار ہیں انہیں اپنے اپنے جرم کی شدت کے مطابق سزا ملے ۔ چونکہ اِس قسم کا انصاف اکثر صورتوں میں حقیقی زندگی کے تسلسل سے مختلف ہوا کرتا ہے،اِس لئے ادبی دانشوروں نے اِس کے لئے تخیلاتی عدل یا پوئٹک جسٹس کی ترکیب وضع کر لی ہے۔تو کیا جو کچھ میرے ساتھ ہوا وہ پوئٹک جسٹس تھا ؟
یہاں انگریزوں کی طرح یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ میرا جواب ’’ہاں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ دونوں کے بیچ ہے۔یہ درمیانی راستہ اس لئے کہ اگلے دن نہا دھو کر ڈرائیونگ لائسنس واپس لینے کے لئے تھانہ اچھرہ پہنچے تو قطار بندی سے پہلے ہی سکیورٹی گارڈ نے رسید دیکھ کر رہنمائی کی کہ آپ کو کاغذات اِس پولیس اسٹیشن سے نہیں بلکہ سامنے والی نئی بلڈنگ سے ملیں گے۔سرخ اینٹوں کی یہ نئی عمارت ، جس کا افتتاح اِسی مہینے ہوا،’’پارک اینڈ رائیڈ‘‘ والے احاطہ کے پار ہے اور اتنی صاف ستھری کہ روایتی پولیس سے دور دور تک اِس کا کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا ۔ پھر بھی ’مکاں کو مکیں سے شرف‘ ہوتا ہے ۔ چنانچہ پہلے ہی دریچے پہ مامور ایک صاحبہ نے کہا کہ مین مارکیٹ والے ڈرائیور اگلی کھڑکی پہ چلے جائیں۔اگلی خاتون نے رجسٹر پہ نظر ڈالی اور یہ کہہ کر جان نکال دی کہ آپ کے کاغذات ابھی یہاں پہنچے ہی نہیں‘‘ ۔ اور لوگ اِن موقعوں پہ نجانے کیا کرتے ہیں ، پر میں تو چکرا گیا کہ یااللہ ، اب کیا کروں! ۔
اسلم ڈوگر پھر کہیں گے کہ ’’تسیں میرے کول آ جانا سی ‘ ۔ ان کا کہا سر آنکھوں پہ ، لیکن اِدھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر شعبے میں ہم اہل مغرب کی نقالی کرنے والے لوگ ریلوے ٹکٹ حاصل کرنے ، بجلی کا بِل دینے اور چالان شدہ ڈرائیونگ لائسنس کی واپسی کے لئے لائن لگاتے ہوئے ندامت کیوں محسوس کرتے ہیں ۔ خیر ، میری ندامت لائن لگا کر شروع ہوئی ، جس کے بعد ہمیشہ کی طرح یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کرنا چاہئیے ۔ سوچا کہ ایک چکر اُس نواحی مقام کا لگا لیا جائے جہاں چوبیس گھنٹے پہلے چالان کی واردات ہوئی تھی، کیا پتا ’’ساہنوں نہر والے پل تے بلا کے‘‘ماہی آج بھی ڈیوٹی پہ متعین ہو ۔ اندرونی کیفیت بتاؤں تو مجھ جیسے کمزور دل انسان کو اُس لمحے اِسی چھوٹے سے نکتے کا آسرا تھا کہ چالان کی رسید پہ سارجنٹ کے دستخط ایک ایسے عالمِ دین کے نام سے مشابہت رکھتے ہیں جن کا محرم کی مجالس سے خطاب ہماری نوعمری میں صلح پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ پُل پر کار روکنے کی دیر تھی کہ ٹریفک کا ایک باوردی افسر خود بخود سڑک پار کرکے میری جانب آیا اور حالات سن کر پہلی بات یہ کہی کہ میں متعلقہ لوگوں کو آگاہ کرتا ہوں ، آپ گرمی کے پیشِ نظر کار ہی میں بیٹھیں۔عرض کیا کہ اپنے ساتھ کھڑا رہنے دیں کیونکہ ہم دونوں اسی ملک کے باشندے ہیں اور یکساں طور پہ گرمی کے عادی ۔ چند ہی لمحے گزرے ہوں گے کہ عالمِ دین کے نام والا سارجنٹ بھی میرے سامنے آگیا۔’’کاغذات تو کل ہی جمع کروا دئے تھے ، مگر کبھی کبھار رجسٹر میں اندراج ذرا دیر سے ہوتا ہے ۔ مَیں ابھی پتا کرتا ہوں ‘‘۔یہ کہہ کر اُس نے سرخ اینٹوں والی بلڈنگ کا رخ کیا ۔ مجھے اندر جانے کی زحمت سے بچایا اور ٹھیک پانچ منٹ میں میرا لائسنس واپس دلا کر دوبارہ ڈیوٹی پہ کھڑا ہو گیا۔ہاں ، رخصت ہونے سے پہلے اُس نے یہ بھی کہا ’سر، آپ کو بہت تکلیف ہوئی، میری طرف سے ایک ملک شیک تو پی لیں‘‘۔ مَیں نے شکریہ ادا کیا اور مسکراتے ہوئے الوداعی مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دیا۔