پانامہ،تماشا دیکھتے جائیں
پانامہ کیس کے فیصلہ میں جب سے گاڈ فادر کا حوالہ آیا ہے ذہن میں کئی طرح کے ڈائیلاگ گردش کر رہے ہیں۔ ایک فلم میں ولن اپنے چمچے کو قانون کی تعریف کچھ اس انداز میں بیان کرتا ہے ’’ٹونی قانون کو بنایا ہی اس لئے جاتا ہے ،تاکہ امیروں اور غریبوں کے درمیان فاصلہ قائم رکھا جا سکے۔ جب کبھی بھی کوئی غریب اس فرق کو کم کرنے کی کوشش کرے اس پر فوراً قانون لاگو کر کے جکڑ لیا جائے‘‘۔
اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ افسانوں‘ڈراموں اور فلموں وغیرہ میں زوردار ڈائیلاگ زیب داستان کے لئے ہوتے ہیں مگر کئی مرتبہ یہ ڈائیلاگ زمینی حقائق کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ چند روز قبل اس کا عملی مظاہرہ رائے ونڈ کے ایک پر تعیش فارم ہاؤس میں ہونے والی شراب و شباب کی محفل کے دوران دیکھنے میں آیا۔ عیاشی کے لئے سجائی گئی تقریب میں شراب ‘چرس ،گانجا اور کوکین بھی دستیاب تھی۔ بڑے بڑے گھرانوں کے جوان لڑکے مل کر مستیاں، بلکہ بدمستیاں کر رہے تھے۔ یوں تو اس محفل میں کچھ بھی منع نہیں تھا پھر بھی چند شرکاء آپس میں لڑ پڑے،شراب کے نشے کی زیادتی یا پھر کوکین کی اوور ڈوز کے سبب جھگڑے نے طول پکڑا تو کسی پڑوسی نے پولیس کو آگاہ کر دیا۔ ادھ ننگے لڑکے ،لڑکیوں کو تھانے چلنے کا کہا گیا تو ایسی ایسی بااثر شخصیات کے حوالے دیئے گئے کہ افسران و اہلکار دنگ رہ گئے۔ پھر سب دھڑا دھڑ چھوٹ کر باعزت روانہ ہونے لگے۔ علاقے کا اے ایس پی سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ یقیناًوہ سوچ رہا ہو گا کہ مقابلے کا امتحان پاس کر کے پولیس سروس میں اعلیٰ عہدہ حاصل کرنے کے بعد یہی دن دیکھنے تھے کیا؟ اسی طرح کا چھاپہ کسی عام ہوٹل یا اڈے پر پڑا ہوتا تو پولیس اہلکار عورتوں اور مردوں کو ٹھڈے،جوتے مارتے باہر لاتے اور میڈیا کے سامنے پیش کر کے نمبر بھی ٹانکتے مگر بااثر والدین کی عیاش اولادوں کے روبرو تو ان کی تھانیداری ‘تابعداری میں تبدیل ہو گئی۔ ملک کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ جس کا جہاں بس چلتا ہے من مانی کر گزرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ رجحان کینسر کی طرح پھیل رہا ہے کہ احتساب صرف دوسرے کا ہونا چاہیے اس حوالے سے ادارہ جاتی تعصب اب کوئی راز نہیں رہ گیا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے کے لئے کوئی تیار نہیں،صرف دوسروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں ۔ظاہر ہے کہ گزشتہ کئی سال سے سب سے زیادہ سافٹ ٹارگٹ سیاستدان ہی ہیں ورنہ کون کیا کر رہا ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔
ملک کا مالک بنے بیٹھے ادارے اپنے لوگوں کی بڑی سے بڑی واردات پر جو سزا سناتے ہیں اس کی حقیقت صرف اتنی ہی ہوتی ہے کہ جیسے کوئی اپنے لاڈلے بچے کے دونوں گال تھپتھپا کر کہے ’’شرارتی بچہ‘‘،،سپریم کورٹ کی جانب سے پانامہ کیس کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد وکلاء کو ہی دیکھ لیں۔ ایک دھڑے نے وزیراعظم کو ’’حکم‘‘،جاری کیا ہے کہ استعفیٰ دیں ورنہ عدلیہ بحالی تحریک سے بھی بڑا احتجاج ہو گا۔ احتجاج تو جب ہو گا دیکھا جائے گا مگر کیا انہیں قانون کا علم نہیں کہ اکثریتی فیصلہ ہی لاگو ہوتا ہے۔ 3 ججوں نے جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا ،جبکہ دو نے وزیراعظم کو بیٹھے بٹھائے نااہل قرار دے ڈالا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام سب پر لازم ہے پھر یہ استعفیٰ کا مطالبہ کیسا۔ شاید یہ کسی مغالطے کا نتیجہ ہے۔ عدلیہ بحالی کی تحریک کی کامیابی اسی وقت ممکن ہو سکی تھی جب سیاسی جماعتوں نے بھرپور حصہ ڈالا۔ خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے تاریخی مارچ کے باعث حکومت تو حکومت ،خود اسٹیبلشمنٹ بھی مطالبات کی منظوری پر تیار ہو گئی تھی۔ ابھی کل کی بات کو کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ ۔سیاسی جماعتوں خصوصاً مسلم لیگ (ن) کے متحرک کردار سے قبل عدلیہ بحالی تحریک تقریباً مرجھا چکی تھی ۔سبکدوش چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اس قدر مایوس تھے کہ جگہ جگہ فریاد کرتے پائے جا رہے تھے کہ مشرف چلا گیا پھر بھی مجھے بحال کیوں نہیں کیا جا رہا؟ اس پوری تحریک میں پیش پیش سب سے بڑے وکیل رہنما جو دیانتداری اور دلیری میں کسی سے کم نہیں بھی کسی معجزے کے منتظر تھے۔ تحریک ادھ موئی ہو چکی تھی ایک جگہ ملاقات ہوئی تو پوچھا آپ کے مطالبے کا کیا بنے گا؟ مزید راستے کیا ہیں؟ ٹھنڈی آہ بھری اور فرمانے لگے جدوجہد تو کر کے دیکھ لی معاملہ مگر اٹک کر رہ گیا ہے ‘مگر میرا دل یہ کہتا ہے کہ ہمیں کامیابی ضرور ملے گی۔ گویا ’’مرض‘‘،کا علاج دوا کے بجائے دعا سے کرنے کی نوبت آ چکی تھی۔
عدلیہ بحالی تحریک کے حتمی نتائج میں وکلاء نے اپنے لئے ہر طرح کی آزادی حاصل کر لی جس کے مظاہرے آئے روز دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ پانامہ کیس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اس لحاظ سے بھی حساس معاملہ ہے کہ تحقیقات میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افسروں کو بھی ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ بعض عناصر کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کی بھد اڑائے جانے کی کوششوں کے تناظر میں کور کمانڈرز کی کانفرنس میں اہم پیغام دیا گیا۔ پاک فوج نے یہ کہہ کر واضح کر دیا کہ عدالتی فیصلے پر آئین اور قانون کے مطابق عمل ہو گا۔ اس عمل سے جہاں شفاف تحقیقات ممکن ہوں گی وہیں شرارتی عناصر کو پیغام بھی دے دیا گیا کہ عدالتی فیصلے کا احترام سب پر لازم ہے۔ بعض قانونی اور سیاسی حلقوں کی رائے یہ بھی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو تفتیشی عمل میں فوجی اداروں کو شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس فیصلے نے فوج کو بطور ادارہ مشکل میں ڈال دیا ہے کیونکہ سارا معاملہ سیاسی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اب ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ پاک فوج سپریم کورٹ سے درخواست کر سکتی ہے کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو جے آئی ٹی کا حصہ نہ بنایا جائے۔اگر ایسا ہوا تو اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ یوں لگے گا کہ ملک کا سب سے طاقتور اور منظم ادارہ بھی پراپیگنڈے کے دباؤ میں آ گیا ہے ۔پانامہ کیس کے فیصلے کو تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی وغیرہ نے تسلیم نہیں کیا ۔جے آئی ٹی کی رپورٹ کیسے اور کب آتی ہے بہتر ہو گا کہ اسے دیکھ کر ہی حکومت مخالفین اپنا اگلا لائحہ عمل طے کریں۔ ٹی وی چینلوں پر بیٹھے جعلی دانشوروں کی پیش گوئیوں پر یقین کرنے کے بجائے انہیں محض ایک تماشا کے طور پر دیکھیں، تاکہ جی بہلتا رہے۔ زیادہ تر اینکروں اور اینکرنیوں کی اپنی قابلیت کا یہ عالم ہے کہ دل ’’عش عش‘‘،کر اٹھتا ہے۔ پانامہ کیس پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک اینکر نے جو الفاظ استعمال کئے وہ اسی وقت اسلام آباد میں فرائض سرانجام دینے والے سینئر صحافی مسرور گیلانی نے فیس بک پر پوسٹ کر دیئے۔
انہوں نے بتایا کہ ٹھیک اسی وقت ایک اینکر قوم کو پانامہ کیس کا فیصلہ سمجھانے کی کوشش میں کھوسہ کو کھوسے ،تاریخ کو تریخ اور قانون کو قنون کہہ رہا ہے۔ اسے پڑھتے ہی فیس بک فرینڈز نے دھڑا دھڑ مختلف نام دینا شروع کر دیئے۔ ٹاپ ٹرینڈ میں ایک نیم خواندہ کا نام سامنے آیا جسے سینئر تجزیہ کار کہہ کر متعارف کروایا جاتا ہے ۔ مسرور گیلانی نے ایک دو اشارے مزید دیئے تو پتہ چلا کہ یہ وہ والا جاہل نہیں، بلکہ ایک ’’سند یافتہ‘‘،اینکر ہے۔ بہرحال یہ تماشا دلچسپ رہا۔ ہمارے سادہ لوح عوام ٹی وی پر آنے والے ہر فرد کو سچ مچ کا دانشور سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ پتہ انہیں عام آدمی جتنا بھی نہیں ہوتا۔ زیادہ تر تو گالیاں اور بددعائیں دینے کے عوض بھاری مشاہرے لیتے ہیں۔ کچھ کو باقاعدہ ’’گائیڈ لائن‘‘،ملتی ہے جو ضروری نہیں کہ حقیقت پر مبنی ہو۔ اس کا فائدہ صرف انہیں استعمال کرنے والا ہی اٹھاتا ہے۔ طالبان سے منحرف ہو کر آنے والے احسان اللہ احسان کا معاملہ بھی آج کل خوب موضوع بحث ہے۔ کوئی اسے غدار کہہ رہا ہے،کوئی پھانسی پر چڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کچھ کی منطق ہے کہ اسے دہشت گردی کا شکار ہونے والے افراد کے ورثاء کے حوالے کر دیا جائے۔ اینکر اور اینکرنیاں بھی اپنے اپنے فیصلے جاری کر رہے ہیں۔ اس سارے فسانے میں بات صرف اتنی ہے کہ منحرف ہو کر سرنڈر کرنے والے طالبان ترجمان کو میڈیا میں لا کر پوری دنیا کو پیغام دیا گیا کہ ’’را‘‘،انہیں ہر طرح سے مدد فراہم کر رہی ہے۔ احسان اللہ احسان کے اعترافات اور گفتگو کا تمام محور سرحدوں کے پار تھا۔ یہ کام مکمل ہو گیا تو پیمرا نے ایک اچھا قدم اٹھاتے ہوئے احسان اللہ احسان کے میڈیا میں آنے پر پابندی لگا دی۔ میڈیاکا ضرورت سے زیادہ استعمال اور ادھر اُدھر کی گفتگو کے دوران بسا اوقات غیر ضروری فقرے بھی منہ سے نکل جاتے ہیں اور پھر مشکل ہو جاتی ہے۔ پانامہ معاملے کے حوالے سے ایسے ہی کسی لمحے کے دوران حسین نواز نے کہہ ڈالا تھا ’’الحمد للہ ایجور روڈ لندن کے فلیٹ ہمارے ہیں‘‘،یار لوگ اس بیان کو لے کر آج تک مزے لے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ میں کیس لگنے کے بعد کسی منچلے نے تو یہ پوسٹ بھی کر دی تھی۔ ’’الحمد للہ ابو پھنس گئے‘‘۔