سفارتی میزانیہ 2016

سفارتی میزانیہ 2016
سفارتی میزانیہ 2016

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


یہ تاثر عام ہے کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہورہاہے اس تاثر میں کتنی حقیقت ہے یہ الگ معاملہ ہے لیکن اس تاثر کے محرکات میں رواں سال رونما ہونے والے چند اہم واقعات ہیں جنہوں نے پاکستان کی سفارتی پسپائی یا تنہائی کے بارے میں لوگوں میں پائے جانے والے تاثر کو پختہ کیا ،1۔پاکستان کے قدیم ترین حلیف امریکہ نے پاکستان کو ایف سولہ جنگی طیارے دینے سے ایسے وقت میں انکار کیا جب پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف امریکہ کی جنگ میں اس کے ہر جائز و ناجائز مطالبہ پرنہ صرف سر تسلیم خم کر رکھا تھا بلکہ افغانستان میں ایک بے نتیجہ جنگ میں پھنسی اس کی افواج کی باعزت واپسی کو ممکن بنایا تھا، 2۔ پاکستان کے انتہائی دوست اور برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی جانب سے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اپنے ہاں دعوت دے کر اسے وہاں کے اعلیٰ ترین سول ایوارڈ سے ایک ایسے وقت میں نوازا گیا جب بھارت مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلمانوں کے حقوق کو پوری شدت سے پامال کررہاتھا ،3۔جنوبی ایشیا میں ہندوستان کی ایما پر خطے کے تقریبا تمام ممالک نے بھارتی زبان بولتے ہوئے پاکستان میں سارک سربراہی کانفرنس کے التوا کو یقینی بنایا ، اگرچہ دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے ہفتہ وار بریفنگ میں یہ واضح کیا کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار نہیں ، ہوسکتا ہے کہ ان کے موقف میں شاید وزن بھی ہو ، لیکن ’’دل ہے کہ مانتا نہیں ‘‘اس پیتل کی دنیا میں صرف حقائق کا موجود ہونا کافی نہیں دانش وارانہ سطح سے لے کر عوامی سطح تک ہر جگہ ان حقائق کا چرچا ہونا اور روزمرہ امور میں ان کی عکاسی ہونا بھی ضروری ہے ، یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ سے لے کر عوامی اجتماعوں تک کہیں پاکستان کی خارجہ پالیسی کو ناکامی کے طعنے اور کہیں تنہائی کے الزامات سہنے پڑتے ہیں، حتیٰ کہ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی خارجہ پالیسی کو خوب آڑے ہاتھوں لیا جارہاہے جبکہ اسی تناظر میں یہ مطالبہ بھی کیا جارہاہے کہ پاکستان کے مستقل وزیر خارجہ نہیں اس لئے مستقل وزیر خارجہ کا تقرر کیا جائے ، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس مطالبہ کی عملاًاہمیت ہو یا نہ ہو لیکن اس کی سیاسی حیثیت مسلمہ ہے کیونکہ ایک تو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی حیثیت وزیرخارجہ کی ہی ہے دوئم جب ماضی کے ادوار میں مستقل وزرائے خارجہ بھی تھے تب بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی امریکہ کے ہی رحم و کرم پر تھی۔


ماضی کا زیادہ تر عرصہ ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کے دور کے ہماری خارجہ پالیسی ہمیشہ قدرت ، امریکہ اور ’’اینگرو یوریا‘‘کے بل بوتے پر ہی استوار ہی کیونکہ خارجہ پالیسی کا بہت زیادہ انحصار ہماری داخلی پالیسیوں کا معیشت اور سیاست پر ہی ہوتا ہے ، بالخصوص سول وفوجی تعلقات کا توازن ہی متوازن خارجہ پالیسی کی بنیاد ہوتا ہے ، جبکہ خارجہ پالیسی میں ہمیں اب وہ پھل بھی کھانے کو مل رہے ہیں جنکا بیج کسی اور نے بویا تھا کیونکہ حکومتوں کی تبدیلی سے خارجہ پالیسی میں فوری جو ہری تبدیلی ممکن نہیں ہوسکتی ۔تاہم ان تمام مختلف النوع محرکات کے باوجود حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں اپوزیشن یا عوام میں ابھرنے والے تاثر کو منطقی طورپر نظر انداز کردے ، اگر موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے میزانیہ کا بغور ’’Objectively‘‘جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کچھ کمزوریاں اور کوتاہیاں اورکوتاہ نظر یاں بھی ہیں اور کچھ ’’ناکردہ گناہوں کا بوجھ‘‘بھی ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کی بہت سی کامیابیاں فعال پبلک ڈپلومیسی کی کمی سے اجاگر نہیں ہوپارہی ہیں ،جبکہ کولڈ وار کے خاتمہ کے بعد ایک طویل سٹیٹس کو کو نائن الیون نے یکایک توڑا اور پھر امریکہ نے نائن الیون کی آڑ میں تن تنہا دنیامیں دندنانا شروع کردیا ، لیکن بالاآخر اب دنیا ایک نئی انگڑائی لے رہی ہے کولڈ وار کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا چاہتا ہے لیکن اس بار دنیا میں طاقت کے کئی مراکز ابھر رہے ہیں اور کئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔


پاکستان نے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں اور تعاون کے بعض دروازے بند ہونے کے پیش نظر اپنے نئے حلیفوں کے امکانات تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں اسی بناء پر پاک چین اقتصادی راہ داری میں روس ، وسط ایشیا اور ایران کی شمولیت کے اشارے مل رہے ہیں جبکہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے پاک روس اور چین کا تعاون بھی نہایت اہمیت کا حامل ہے اسی طرح پاکستان سعودی عرب اور ایران کے مابین کشیدگی میں نسبتاًایک ’’نیوٹرل‘‘کردار نبھانے کی کوشش میں سر گرداں ہے جس کی بنا پر پاکستان کو عرب دنیا سے اپنے روایتی تعلقات کو گرمجوش رکھنے کا اہم چیلنج درپیش ہے تاہم سعودی عرب کی توقعات کے برعکس پاکستان کی جانب سے یمن کے خلاف مسلح افواج نہ بھیجوانے کے تزویراتی فیصلہ کے بعد دفتر خارجہ کا مڈل ایسٹ ڈیسک عرب دنیا سے تعلقات اور تعاون کے نئے امکانات تلاش کرنے کا کٹھن فریضہ سر انجام دے رہاہے اس حوالے سے قطر سے ایل این اجی کے بڑے معاہدے کے علاوہ دیگر عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب سے بھی تعلقات کی گرمائش کو سرد نہیں ہونے دیا گیا سعودی عرب نے اگر چہ فرط جوش میں مودی کو ایوارڈ تو دے دیا لیکن بعد ازاں موثر سفارت کاری کے باعث پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات پرانی ڈگر پر استوار ہوگئے ہیں جبکہ اس کے نتیجہ میں سابق آرمی چیف جنرل (ر)راحیل شریف کو شاہی مہمان کے طورپر سعودی عرب بلوایا گیا ہے اور سعودی عرب دہشتگردی کے خاتمہ کے لئے ان سے رہنمائی کا طلب گار ہے جبکہ سفارت کاری کی بدولت ہی بحرین کے بادشاہ اپنی ذاتی جیب سے پاکستان میں پہلی ایک نرسنگ یونیورسٹی کا قیام عمل میں لا رہے ہیں اس مجوزہ کنگ حمادیونیورسٹی آف نرسنگ کا سنگ بنیاد جنوری کے پہلے ہفتہ میں رکھا جارہاہے جس کے لیے کنگ حماد کے چھوٹے بھائی جو بحرین کی نیشنل گارڈ ز کے سربراہ بھی ہیں پاکستان آئینگے ، دریں اثنا سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کی جنوری میں مدت ختم ہورہی ہے اس عہدہ کیلئے ایڈیشنل سیکرٹری مڈل ایسٹ تصور احمد خان کا نام زیر تجویز ہے جبکہ تھائی لینڈ میں بھی سفیر کا عہدہ خالی ہورہاہے اس پر تعیناتی کیلئے اقوام متحدہ کے حوالے سے ماہر سفارتکار عاصم افتخار کا نام زیر غور ہے ،یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی سفیر ملیحہ لودھی بظاہر نجی دورے پر پاکستان آئیں اور انہوں نے اعلی سیاسی و عسکری شخصیات سے ملاقاتیں کیں،بعض لوگ قیاس آرائیاں کررہے ہیں کہ وہ بھی واشنگٹن میں ’’تبادلے ‘‘کی خواہاں ہیں۔تاہم حکومتی حلقوں نے سیکرٹری خارجہ اعزازاحمد چوہدری کو واشنگٹن بھیجنے کی پہلے سے ہی آشیرباد دے رکھی ہے۔

مزید :

کالم -