بندۂ آزاد۔۔۔آزاد کوثری!
اپنے دور کے مشہور و منفرد ہندو شاعر دلو رام کوثری، حمد، نعت، منقبت، سلام کہنے میں بھی یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ ان کا ایک ناقابلِ فراموش مقطع یوں ہے:
اللہ ہو غنی کوثری اتنا چالاک
گنگا سے جو پھسلا لبِ کوثر پہنچا
کوثری تخلص والے دلو رام کے بعد اس تخلص کے حامل ایک بہت پڑھے لکھے، روشن خیال، روشن ذہن روشن ضمیر شخص ملک آزاد حسین بھی تھے جو آزاد کوثری کے نام سے سیاست و صحافت کے ساتھ ساتھ ادب و ثقافت کے میدان میں بھی رواں دواں رہے۔ اِدھر اُدھر کے مختلف رسائل و جرائد و اخبارات میں قلمکاری کے بعد ’’یک در گیر و محکم بہ گیر‘‘ کے مصداق ایک ہی اخبار ’’جنگ‘‘ میں عمرِ عزیز کے 25برس گزار دیئے۔ نصف صدی کا نہ سہی یہ، پون صدی کا قصہ ہے دوچار برس کی بات نہیں۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے [آنرز] تھے مگر اپنی سادگی و سادہ لوحی اور وضع قطع کے سبب لگتے نہیں تھے کہ بی اے آنرز تو کیا میٹریکولیٹ بھی ہوں گے! البتہ جب بات کرتے تو ان کے خفتہ جوہر کھلتے تھے۔ ابتدائی تعلیم بلکہ انٹر تک کی تعلیم ڈھڈیال اور چکوال میں حاصل کی کہ اکادمی ادبیاتِ پاکستان سے مطبوعہ، ’’وفیاتِ مشاہیرِ پاکستان‘‘کے مرتب، ڈاکٹر منیر احمد سلیچ کے مطابق وہ 15ستمبر 1942ء کو کوٹھا بھٹی ضلع چکوال میں پیدا ہوئے تھے جبکہ ایم آر شاہد کی مرتب کردہ کتاب ’’لاہور میں مدفون مشاہیر‘‘[جلد دوم] کے تحت پیدائش موضع کوٹ اقبال ڈاک خانہ ڈھڈیال ضلع چکوال میں ہوئی۔ تاریخ و سنہ پیدائش پر دونوں کتابوں میں البتہ اتفاق ہے اور تاریخ وفات 18جون 2003ء پر بھی کہ وہ سانس کی مستقل تکلیف کے شدید عارضے میں مبتلا ہو کر جناح ہسپتال لاہور میں زیر علاج رہے اور بالآخر قبرستان میانی صاحب میں جاسوئے۔! ایک بیوہ اور اکلوتی بیٹی بے یارو مددگار چھوڑ گئے۔ رہے نام اللہ کا۔ چکوال سے لاہور آکر وہ لاہور ہی کے ہو رہے تھے۔1965ء میں روزنامہ ’’آزاد‘‘ سے روزانہ عملی صحافت کا آغاز کیا۔1981ء میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے وابستہ ہوئے اور اس وابستگی کو اس وقت تک دل جمعی سے نبھایا جب تک وہاں سے فارغ نہ کئے گئے۔۔۔!
’’جنگ‘‘ کی ملازمت سے فراغت کے بعد آخری چند مہینے آزاد کوثری نے ایک ’’سول سوسائٹی آرگنائزیشن‘‘ کی نوکری اختیار کئے رکھی، مگر ان کا مضطرب ذہن یہاں بھی مطمئن نہ تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر یہ انسانی حقوق کے تحفظ کی علمبردار تنظیمیں اپنے ملازمین کو کنٹریکٹ یا تقرری کے لیٹر کی کاپی تک دینے کو آمادہ نہیں تو کسی کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے ان سے کیا توقعات باندھی جا سکتی ہیں؟
آزاد کوثری شہرِ زندہ دلان لاہور کو مستقل مسکن بنا کے یہاں کی بہت سی ادبی، سیاسی، سماجی، ثقافتی اور نظریاتی تنظیموں سے منسلک رہے۔حلقۂ اربابِ ذوق، حلقہ اربابِ ادب، ینگ تھنکرز ایسوسی ایشن اور کئی ہم خیال تنظیمیں۔۔۔! آزاد کوثری نے افسانے بھی لکھے، شاعری بھی کی، تراجم بھی کئے۔ تنقید بھی لکھی، چنانچہ: ’’نئے افسانے کی سماجی بنیادیں‘‘۔۔۔ ان کی نہایت قابلِ قدر ادبی کاوش کہی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ’’باتیں مسعود کھدر پوش کی‘‘[انٹرویو]۔ ’’تشخص کا بحران‘‘۔ ’’پاکستانی کلچر کی مختلف جہتیں‘‘ اور ’’تحریک پاکستان کے اقتصادی پہلو‘‘ ان کی چند فکر انگیز کتابیں ہیں۔ تراجم کے سلسلے میں لوہسون کی شاعری کا ترجمہ ’’گھاس کا سمندر‘‘ ۔۔۔ ’’روسی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ‘‘۔۔۔ ’’ویت نام ورکرز پارٹی کی تاریخ‘‘اور ’’البانیہ پارٹی کی تاریخ‘‘ ان کی رواں دواں اردو میں منتقل کردہ نظریاتی وابستگی سے متعلقہ اہم کتابیں ہیں، انہیں ان کی ایک گراں قدر تصنیف ’’نئے افسانے کی سماجی بنیادیں‘‘ پر 1994ء میں بک کونسل آف پاکستان کا نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔آزاد کوثری ایک وسیع المطالعہ، کتاب دوست شخص تھے۔ یہی قدرِ مشترک انہیں اکثر میرے دفتر ’’ادبِ لطیف‘‘ تک کھینچ لاتی یا پھر وہ پاک ٹی ہاؤس میں میری میز پر بیٹھنا اور ادبی گفتگو کرنا پسند کرتے۔ ان کی ذاتی زندگی زیادہ تر کتابوں، رسالوں اور ضخیم و دقیق قسم کے انگریزی جرنلز کے درمیان گزرتی، وہ بیک وقت آرٹ ،کلچر، شاعری، فنونِ لطیفہ، فلسفہ، تاریخ، سیاست کے ساتھ ساتھ علم نجوم، علم جفر علمِ سیارگان اور موجودہ عہد کی دین کمپیوٹر سائنسز تک کے موضوعات پر دسترس رکھتے تھے۔ آزاد کوثری کو شدت سے احساس تھا کہ :
اہل ہونا جرم ہے اس دور میں ناصر یہاں
اس لئے تقدیر نااہلوں میں لے آئی مجھے
[ناصرزیدی]
اس احساس کے راوی ان کے ایک ہمکار اقبال حیدر بٹ بھی ہیں کہ وہ ان سے مخاطب ہو کر اکثرکہتے:’’یار بٹ! لگدا اے میری آڈینس گواچ گئی اے‘‘ یہ جملہ سن کر اکثر ہمکار بے ساختہ قہقہہ لگاتے مگر دراصل اس ایک جملے میں جو ’’کمیونیکیشن گیپ‘‘ کا دکھ بھرا ہوا ہے، اس کا وہ صحیح ادراک نہ کر پاتے۔۔۔!
ان کا المیہ یہ تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے نظریات پر قائم رہے، مگر خود کو ’’پروموٹ‘‘ نہ کرا سکے نہ اپنے نظریے کو اس حد تک منوا سکے کہ ان کا کوئی ہم خیال، دوست، ساتھی مُقلد یا شاگرد ان کے نام اور کام کو آگے بڑھا سکتا یا بعد از مرگ ان کے لئے کچھ عملی جدوجہد کر سکتا، جس پیپلزپارٹی سے وہ 25برس وابستہ رہے، اس نے دوبار اقتدار میں آکر بھی انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس کا اہل نہ جانا جبکہ اکثر جعلی لوگوں کو نوازا گیا۔ وہ میرے اس وقت کے ساتھی تھے جب حماقت کے سبب ہم بھی جیالے ہوا کرتے تھے، پھر یوں ہوا کہ میری ’’امروز‘‘۔ ’’مساوات‘‘۔ ’’الفتح‘‘۔ ’’آزاد‘‘ اور ’’حیات‘‘ میں مطبوعہ تحریروں کو ملتان کے ایک چیتھڑے کے صحافی، نام نہاد کوڑے کھانے کے دعویدار ’’ہمنام‘‘ کے کھاتے میں ڈال کر ’’پلاٹ‘‘ اور ’’پرائیڈ آف پرفارمنس‘‘ کے ساتھ ساتھ دیگر نوازشات کی بھی بارش کر دی گئی۔ میں اک غریب کھڑا رہ گیا پلیٹ لئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید مجھے جانتی پہچانتی تھیں۔ ان کے اقتدار کے دونوں ادوار میں مَیں ان کا ’’اسپیچ رائٹر‘‘ رہا۔ محترمہ بیگم نصرت بھٹو کو اللہ تعالیٰ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے وہ میری والدہ کے انتقال پر تعزیت کے لئے 76ڈی ماڈل ٹاؤن لاہور تشریف لائیں۔میری والدہ کا انتقال بھٹو کی پھانسی کی خبر پڑھ کر ہارٹ اٹیک کے سبب ہوا تھا۔ اس وقت بیگم صاحبہ جیل میں تھیں جب رہائی ملی تو آئیں۔ ہاں یاد آیا شیخ رفیق بھی آئے تھے، بلکہ انہوں نے تو جیل سے تعزیتی خط بھی بھجوایا تھا۔اب صورت حال یہ ہے کہ ’’زرداری پارٹی‘‘ سے ہمارا تعارف ہی نہیں۔ یوں بھی قائداعظم کے بعد قائد عوام نہیں بلکہ میرے آئیڈیل رہنما روشن خیالی کا واضح وژن رکھنے والے وژنری لیڈر، کمانڈو، بہادر فوجی جرنیل پرویز مشرف ہیں ۔