پانی کا پرانا نظام فرسودہ تو جدید کیا؟

پانی کا پرانا نظام فرسودہ تو جدید کیا؟
پانی کا پرانا نظام فرسودہ تو جدید کیا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہم جیسے پرانے لاہوریوں کو خوب اچھی طرح یاد ہے کہ اس شہر میں کبھی پانی کی کمی نہیں ہوتی تھی۔ پرانے شہر میں مکانات تین تین منزلہ ہیں اور اس دور میں نلکے میں تیسری منزل پر بھی پانی ملتا تھا جبکہ جو مزہ مسجد سے ملحق کنویں سے پانی نکال کر غسل خانے میں نہانے کا تھا وہ آج کے باتھ ٹب میں نہانے والوں کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔ کوٹھے پر پانی پینچنے والی وجہ بتانے سے پہلے قارئین کے لئے یہ زیادہ دلچسپی کا باعث ہوگاکہ قیام پاکستان سے پہلے اور بعد میں طویل عرصہ تک واسا کے ہاتھ پانی آنے سے پہلے تک مرد حضرات یا نو مساجد والے غسل خانوں یا پھر گرم حماموں میں غسل فرماتے تھے۔ شہر کی تقریباً تمام مساجد سے ملحق کنویں ہوتے تھے اور ان کنوؤں سے چرغی کے ساتھ بندھے ہوئے چمڑے کے برتن نما (یوکے) مشکیزہ سے پانی نکالا جاتا اور ساتھ بنے غسل خانے میں جمع کرکے اس سے نہایاجاتا تھا۔ محلے والے جلدی آکر اپنی باری لگالیتے اور نہانے کیلئے اپنی باری سے پہلے کنویں سے پانی نکال کر غسل خانے کی ٹینکی بھر لیتے تھے اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا کہ مرد حضرات اپنے اپنے کام کاج پر چلے جاتے ۔مساجد میں وضو کے لئے بھی اسی کنویں سے پانی بھرا جاتا تھا، گرم حمام عموماً سردیوں میں رش لیتے لیکن گرمیوں میں بھی جلدی والے حضرات ان کا رخ کرتے تھے کہ عموماً یہ گرم حمام حجام کی دکان والے نے بنائے ہوتے تھے۔ یہ سلسلہ تا دیر جاری رہا، اب توکنویں بند ہو چکے ممکن ہے کسی گلی کوچے میں اب بھی کوئی ایسی یادگار بچ گئی ہو، کامران لاشاری صاحب کو توجہ کرنا چاہیے کہ پرانا کنواں یا گرم حمام آثار قدیمہ میں بھی شمار ہو سکتا ہے، جیسا کہ دہلی دروازہ سے ملحق شاہی حمام، جس کی تزئین و آرائش بار بار ہوتی رہتی ہے کہ آخر کار فنڈز بھی تو استعمال ہونا ہیں۔


یہ تو بات کنوؤں، غسل خانوں اور مردوں کے غسل کی تھی اور جہاں تک تعلق گھروں میں سرکاری پانی کا تھا تو نلکے لگوائے جاتے۔ سرکاری طور پر بلدیہ دو وقت پانی مہیا کرتی۔ مجموعی طورپر اس کی مدت بارہ گھنٹے ہوتی تھی اور پانی کی کبھی شکائت نہیں ہوئی کہ تیسری منزل تک خود ہی پہنچتا تھا۔ اس کے علاوہ جن گھروں میں سرکاری کنکشن نہیں تھا، ان گھروں میں بہشتی ماہوار معاوضے کے عوض مشکیزوں سے پانی دیا کرتے تھے اس سہولت کی رقبہ بہت آسان تھی کہ واٹر سپلائی کا نظام پانی والا تالاب کہلاتا تھا، یہ شہر کے مغربی طرف ٹیکسالی گیسٹ کے قریب تھا۔ یہ شہر کا اونچا مقام ہے اور یہاں اوورہیڈ ریزر واٹر(پانی ذخیرہ کرنے کی بڑی ٹینکیاں) تھے۔ ٹیوب ویل سے پانی ان ٹینکیوں میں پہنچایا جاتا اور یہاں سے پائپوں کے ذریعے پورے شہر میں سپلائی کیا جاتا تھا۔ یوں شہر میں سب سے اونچے مقام پر ہونے کی وجہ سے یہ پانی سائیفن سسٹم کے تحت از خود مکانوں کی تیسری منزل تک پہنچتا تھا اور کبھی کوئی شکائت نہیں ہوئی دو وقت صفائی اور مشکیزوں کے ذریعے سرکاری بہشتیوں کے پانی والے چھڑکاؤ کا ذکر تو کئی بار محترم عطاء الحق قاسمی بھی کر چکے ہوئے ہیں۔ آج جب یہ سب کچھ تحریر کیا ہے تو خود کو عجیب سا لگا اور ایسا محسوس ہوا جیسے الف لیلیٰ کا کوئی قصہ بیان کیاجا رہا ہے۔



آج لاہور میں پانی، پانی کی پکار ہے کہ لوڈشیڈنگ نے پانی کے پائپ خشک کر دیئے ہیں، کیونکہ واسا کے ’’بہترین دماغوں‘‘ نے بچت کا یہ حل نکالا کہ اوورہیڈ ریزرواٹرکا نظام ختم کرکے براہ راست سپلائی کا سلسلہ شروع کرا دیا، ٹینکیاں ختم کر دی گئیں اور دعویٰ کیا گیاکہ چوبیس گھنٹے پانی مہیا کیا جائے گا۔ یہ کوئی احسان نہیں یا کسی نیوٹن کی کوئی ایجاد نہیں۔ یہ تو براہ راست سپلائی کے نظام کا ایک لازمی حصہ ہے کہ پانی لوہے کے پائپوں کی بجائے سیمنٹ کے پائپوں کے ذریعے مہیا کیا جاتا ہے، جن کا پوری طرح بھرے رہنا لازمی ہے دوسری صورت میں سیمنٹ کے یہ پائپ خالی ہوں تو اردگرد سے پانی نما گند کو کھینچ لیتے ہیں، اس نظام سے ٹیوب ویل چوبیس گھنٹے چلانے کی ضرورت ہے اور یہاں یہ عالم تھا (اور اب تو بہت بری حالت ہے) کہ ٹیوب ویل کو بچانے کے لئے کچھ عرصہ موٹر بند کرنا پڑتی تھی اس سے قریب سے گزرنے والے گٹر کا پانی بھی سرائت کر جانا تھا، پھر اس کا حل یہ نکالا گیا کہ ایک علاقے کے تمام ٹیوب ویلوں کے پائپ ایک دوسرے سے منسلک کر دیئے گئے کہ اگر کوئی ٹیوب ویل کسی وجہ سے بھی بند ہو تو دوسروں کا پانی اس ٹیوب ویل کے علاقے میں بھی ملتا رہے، یوں ٹیوب ویلوں کو آرام دینے کا ایک نظام وضع کر دیا گیا، تاہم اب تک اوورہیڈ ٹینکیاں بنانے کا عمل پھر سے شروع نہیں ہوا۔ ریلوے کی بعض کالونیوں اور ریلوے سٹیشنوں پر یہ نظام اب بھی دیکھا جا سکتا ہے۔


اب صورت حال یہ ہے کہ لاہور کی پھیلتی ہوئی آبادی کے مطابق پہلے ہی ٹیوب ویل کم ہیں۔ اوپر سے لوڈشیڈنگ نے ’’مت‘‘ مار دی ہے اور بارہ سے چودہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے۔ایسے میں نہ ٹیوب ویل چلتے اور نہ پانی آتا ہے یوں پورا شہر مجموعی طور پر قلت کا شکار ہو گیا ہے اور ہر طرف سے پانی نہ ملنے کی شکائت سننے کو ملتی ہے۔ واسا کی طرف سے جنریٹر کرائے پر لینے کا اعلان کیا گیا لیکن یہ عملی شکل اختیار نہیں کر سکاکہ ٹیوب ویلوں پر جنریٹر مہیا ہی نہیں کئے گئے جہاں کہیں ایک دو مقامات پر ہیں، وہاں ڈیزل کا مسئلہ رہتا ہے۔ اکثر اوقات محلے دار چندہ کرکے ڈیزل ڈلوا دیتے ہیں کہ ان کو پانی تو مل جائے۔


یہاں کسی خاص علاقے کے ذکر سے دوسروں کے حقوق سلب ہوں گے ۔ خود واسا والوں کو علم ہے کہ کہاں کیا صورت حال ہے، وہ خود آگے بڑھ کر اسے درست کرنے کو تیار نہیں ہیں، لوگ بجلی کے ساتھ ساتھ پانی کو بھی ترس گئے ہین اور کوسنے دے رہے ہین اوریہ کس کو اور کس کے لئے قارئین! خود ہی اندازہ لگا لیں، نوٹ: یہ بھی ذہن نشین فرما لیں کہ اگر کسی علاقے میں آگ بھڑک اٹھے اور لوڈشیڈنگ ہو تو آگ بجھانے کے لئے پانی بھی نہیں ملے گی چہ جائیکہ کہ جنگ ہو۔۔۔ *

مزید :

کالم -