اعلیٰ تعلیم ، میڈیا ، سماجی ترقی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن
پاکستان جیسے کثیر الجہتی سماج میں قومی مسائل کے ادراک اور ان کے حل کے لیے تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور مطابقت کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن جیسے فعال، متحرک اور ثمر آور ادارے کی ضرورت ہے۔ کمی، کوتاہی کے باوجودایچ ای سی نے گذشتہ ڈیڑھ عشرے میں اپنے نتیجہ خیز کردار سے قومی تفاخر میں اضافہ کیا ہے۔ ڈاکٹر مختا ر احمد جیسی حوصلہ مند، محب وطن اور تعلیم دوست قیادت میں اعلیٰ تعلیم کا کمیشن ادارہ نہیں بلکہ ادارہ ساز بن رہا ہے۔ اختلاف رائے کی گنجائش کے باوجود یہ اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے ملی تقاضوں، قومی آرزؤوں اور اجتماعی دانش کا مرکز فضیلت بن گیا ہے۔ ایسے اداروں کا مقصد محض تدریس کے عمل پر کنٹرول اور ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوتا بلکہ یہ اقوام کی تقدیر بدلنے والی علمی ثقافت کے مقصدِ عظیم کے علمبردار ہوتے ہیں۔ قومی ترقی اور مثبت تبدیلی کے عمل میں یونیورسٹیاں اہم ترین وسیلہ ہوتی ہیں اور علوم جدید و تحقیق و تفکر کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ جامعات معاشرے اور ملت کی ذہنی زندگی کو جلا بخشتی ہیں اور تہذیبی اعتبار سے لوگوں کے معیارِ زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے میں بھرپور کردار ادا کرتی ہیں۔ فکری تازگی، ندرتِ خیال اور جدتِ فکر سے اعلیٰ ثقافت کو پروان چڑھانے میں مددگار ادارے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر مختار احمد جیسے ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ جامعات اپنے زمانے کے لیے آئینے کی حیثیت رکھتی ہیں اور اجتماعی شعور کی نمائندہ بھی، اس لیے جامعات کو ایسے عمل کا دعویدار ہونا چاہیے جو انسانوں میں فکری قوت پیدا کرے تاکہ منزل کا ادراک ہو سکے۔ ان کا خیال ہے کہ جامعات دنیا بھر میں اس لیے فکر و علم کا مرکز رہی ہیں کہ ان میں آزاد�ئفکرو اظہار کوبہت اہمیت حاصل ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن بھی دانش گاہوں کے دانشور قائدین کو گاہے گاہے اکٹھا کرتا ہے اور تفکر اور تدبر سے اعلیٰ تعلیم کے معاملات، مشکلات اور مسائل پر اجتماعی غور کی مجتہدانہ سعی کے ذریعے فریضۂ قومی کی ادائیگی کا اہتمام کرتا ہے۔ چیئرمینHECنے اس بار سہ روزہ وائس چانسلرکمیٹی میٹنگ کا اہتمام24,23اور25مئی کو لاہور میں کیا۔ افتتاحی اجلاس کے بعد ایگزیکٹو ڈائریکٹر HEC ڈاکٹر ارشد علی نے انسٹی ٹیوشنل پرفارمنس اور پروگرام ریویو پر بھرپور پریزنٹیشن دی۔ اسی طرح ایک روز ٹینو ر ٹریک TTSکے مسائل کے حوالے سے سنجیدہ پینل ڈسکشن ہوئی۔
ملک بھر سے ڈیڑھ سو سے زیادہ وائس چانسلرز کی شرکت نے اسے حقیقی معنوں میں وائس چانسلرز کی ’’مجلس علمی ‘‘کا روپ دے رکھا تھا ۔ اعلیٰ تعلیم کے تکنیکی، پیشہ وارانہ اور تحقیقی و تدریسی مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ایک بھرپور پینل ڈسکشن اعلیٰ تعلیم ، میڈیا اور سماجی ترقی کے بیانیے پر بھی رکھی گئی۔ یہ سیشن ماہرین تعلیم کے ابلاغ کی اہمیت کے ادراک کا منہ بولتا ثبوت تھا۔HECنے بیانیے کے مباحث پر گفتگو کے لیے سنجیدہ دانشوروں ، دانشمند صحافیوں اور پرجوش اینکرز و سنجیدہ کالم نگاروں کا قابل داد پینل منتخب کیااس کی صدارت علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مدبر قلمکار ڈاکٹر شاہد صدیقی نے کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ سماجی و تہذیبی ترقی میں تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر نے بساط بھر کردار ادا کیا۔ اعلیٰ تعلیم کے حاصلات کو ابلاغ عامہ میں وہ مقام نہیں ملتا جس کے وہ حقدار ہیں۔ میڈیا سماجی تبدیلی کا طاقتور ذریعہ ہے ۔ اعلیٰ تعلیم کے معلمین کی کاوشیں اور میڈیا کے ماہرین کی مثبت کارکردگی معاشرتی ترقی میں نتیجہ خیز ہو سکتی ہیں۔ کالم نگار پروفیسر نعیم مسعود نے اعلیٰ تعلیم کے مسائل، ان کی کارکردگی اور ابلاغ کے عمل کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ معیار کی بہتری نتیجے کے لیے لازمی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے معلمین اور میڈیا کے ماہرین دونوں کو اپنی اپنی کارکردگی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ دُعا ہے کہ تعلیم بیوروکریسی کے شکنجے سے محفوظ رہے۔اینکر اجمل جامی کا کہنا تھا کہ تعلیم کو ترقی کا محور بنا کر پائیدار سماجی ترقی کا مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور ترقی کے تعلق کو مربوط کرکے میڈیا کو آگاہی کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے۔ کالم نگار و اینکر حبیب اکرم کا خیال تھا کہ اعلیٰ تعلیم اور اس کے ادارے ترقی کی بجائے تنزلی کا شکار ہیں۔ ہماری اعلیٰ تعلیم سماج کی روح اور تہذیبی تقاضوں سے مربوط نہیں۔ پلاک کی ڈائریکٹر اور خوش فکر کالم نگار ڈاکٹر صغریٰ صدف نے کہا کہ ہمارے تعلیمی نظام میں تربیت کا عنصر غائب ہو گیا۔ تربیت کے بغیر اعلیٰ تعلیم مفید اور ثمر آور نہیں ہو سکتی دوسری طرف میڈیا کے مسائل اور مفادات نے اس کے فرائض اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر غلبہ حاصل کر لیا ہے۔ ایسے میں اعلیٰ تعلیم اور میڈیا کا اشتراک محض خواب ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی تعلیم سماجی شعور کا نام ہے جب اعلیٰ تعلیم روح عصر سے مطابقت حاصل کرے گی تو سماج میں قبول عام کی حامل بھی ہو جائے گی۔ کالم نگار یاسر پیرزادہ نے کہا کہ اعلیٰ تعلیم کے ادارے اور محققین سماجی مطابقت کے حامل نہیں۔
ہمارے نظام تعلیم کا رُخ سماجی ترقی یا قومی تقاضوں کی طرف نہیں۔ ہماری اعلیٰ تعلیم ہمارے قومی مسائل سے لاتعلق ہے اس طرح وہ سماجی ترقی کا فریضہ کیسے ادا کر سکتی ہے؟دہشت گردی، انرجی کا بحران اور معاشی مسائل اس سماج کے آج کے بنیادی مسائل ہیں لیکن ہماری جامعات محققین نے ان مسائل پر توجہ دی نہ سائنٹفک تحقیق کی۔ جب اعلیٰ تعلیم سماجی ترقی کے عمل کے ساتھ جڑی ہی نہیں تو میڈیا اس پر توجہ کیوں دے گا؟ میڈیا میں جو موضوعات مباحثے کا موضوع ہوتے ہیں اعلیٰ تعلیم کو ان کی طرف توجہ دیناہو گی تبھی تو تعلیم اور ترقی کے عمل میں ربط ہو گا۔ وسائل کی فراوانی ضروری مگریہ ہی بہتری کا واحد ذریعہ نہیں۔ نامور شاعر وا دیب امجد اسلام امجد کا کہنا تھا کہ حکومت اور میڈیا تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے بارے میں ایک ہی صفحہ پر ہیں۔ اس اتحاد نے سماج میں علم کو معلومات سے بدل دیا ہے۔ معلومات کے سیلاب میں تخلیق اور تحقیق کا دم گھٹ کر رہ گیا ہے۔ مادی طرزِ حیات نے استاد کو مالیات کے ترازو میں تولنا شروع کر دیا ہے۔ نجی تعلیم کے تیز عمل نے والدین کو کلائنٹ اور استاد کو سہولت کار بنا کر رکھ دیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم اور قومی تقاضے ایک سنجیدہ قومی مکالمے اور مباحثے کے متقاضی ہیں۔ دانشور جناب احمد جاوید نے کہا کہ ادارے خواہ تعلیم کے ہوں یا میڈیا ، صرف کردار سے ہی ان کا معیار متعین کیا جا سکتا ہے۔ ہمارا معاملہ اُلٹ ہے ہمارے ہاں کوئی فرد، ادارہ، گروہ یا سرکار کوئی بھی سماج بننے کے عمل میں اپنا کردار ادا کرتا دکھائی نہیں دیتا۔ بغیر سماج بنے ہم حاصلات و ثمرات کا درست تجزیہ نہیں کر سکتے۔ معاشرہ جس اجتماعی نصب العین ، تخلیق اور selflessness سے ثروت مند ہوتا ہے۔ ہم ابھی اس سے متعارف ہی نہیں ۔ میں کو ہم میں بدلنے والے افراد اور اداروں کے بغیر مفاد عامہ کا سوال بے معنی ہو جاتا ہے۔ اخلاق اور اہلیت تعلیم کے بنیادی عناصرہیں جن کی تلاش کا عمل ابھی جاری ہے۔ تعلیمی اصلاحات کی بجائے انقلاب کی تعلیم ناگزیر ہے۔ سماجی تطہیر کے ذریعے تعلیم کی بہتری سے تخلیقی شعور قومی ترقی کا ضامن ہو سکتا ہے۔ سینئر دانشور تجزیہ کار سجاد میر کا کہنا تھا کہ فلسفیانہ مباحث اپنی جگہ مگرتلخ حقیقت یہ ہے کہ اب تو ہر پرائیویٹ یونیورسٹی نے اپنا میڈیا ہاؤس بنا لیا۔ آج کل تعلیم فروشی سب سے منافع بخش کاروبار بن گیا۔ تعلیمی اخلاقیات تو کہیں پیچھے رہ گئی ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے ادارے کچھ بھی کر لیں ان کے لیے میڈیا کے پا س وقت نہیں۔ مثالی صورت نہ سہی ہماری جامعات میں بہتری ضرور آئی ہے جس پر انہیں تھپکی دینا ضروری ہے۔ حوصلہ افزائی سے یہ مزید بہتر ہوں گی۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کے چیف ایڈیٹر محترم مجیب الرحمن شامی نے میر محفل کی حیثیت سے گفتگو کی کہ ہماری خوشحالی، ترقی اور سلامتی کی سب راہیں تعلیم اور اعلیٰ تعلیم ہی کھول سکتی ہے۔ آج اعلیٰ تعلیم سے بڑا پیداواری سیکٹر کو ئی نہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اعلیٰ تعلیم میں سرمایہ کاری کو بڑھانا ہو گا۔ تعلیم جب تک ہماری ترجیح نہیں بنے گی ہم ترقی کے خواب کی تعبیر نہیں پائیں گے۔ جامعات کو بھی اپنے کردار کا سنجیدگی سے جائزہ لینا ہے۔ ماضی میں علی گڑھ، دیوبند اور بریلی کی جامعات نے ہمارے سماج پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ لیکن آج جامعات سماجی راہبری اور فکری اثرات کی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ پاکستانی جامعات کے سربراہوں کے اس اجتماع میں نئے فکری ، علمی اجتہاد کی آرزو کی جا سکتی ہے۔ حکمرانوں کو بھی تعلیم پر خرچ کے لیے جی ڈی پی کی شرح کو بڑھانا ہو گا۔ اعلیٰ تعلیم پر خرچ کیے بغیر مثالی کارکردگی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کئی شیوخ الجامعات نے اعلیٰ تعلیم کے نظام کی مدافعت میں اعداد وشمار کا انبار لگا دیا۔ مگر مباحثے سے یہی نتیجہ نکلا کہ اعلیٰ تعلیم کے مؤثر اور انقلابی عمل کے لیے وسائل کا انتظار کیے جانا قومی تقاضا نہیں ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے کار پردازان کو اپنا کردار بھی ادا کرنا ہو گا، کارکردگی بڑھانے کے لیے ہمیں رویوں میں بہتری لانا ہو گی۔
ہائر ایجوکیشن کمیشن کے وائس چانسلرز کی لاہور میٹنگ تجدید عہد کی متقاضی دکھائی دے رہی تھی۔ جامعات کے وائس چانسلرز کی بے تابی اور متحرک شرکت انکے تجسس اور قومی ذمہ داریوں سے آشنائی کی نوید دے رہی تھی۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ بامقصد مکالمے اور مباحثے کے ذریعے اعلیٰ تعلیم کے ماہرین نے قوم پر یہ ضرور واضح کر دیا کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے وقف وسائل اور قومی ضرورتوں میں جو تفاوت ہے میڈیا اس حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے تو سماجی ترقی کی راہیں ہموار ہو سکتی ہیں۔ HECنے مکالمے کی ذمہ داری کا فریضہ ادا کر دیا ہے ۔واضح ہوا کہ اس کمیشن کو جہدِ مسلسل اور سرکاری نگہداشت کی ضرورت ہے، اس راہبری نے ایک بار پھر عیاں کر دیا کہ HECپاکستان کے ان معدووے چند اداروں میں سے ایک ہے جن کی کارکردگی معیاری رہی ہے اور جن کی توجہ اہداف پر کامیابی سے مرکوز رہی ہے۔ اجلاس کے دوران جب یہ اعلان ہوا کہ ترکی کے ایک ادارے نے مینجمنٹ کے حوالے سے پاکستان کے HEC کو پہلا نمبر دیا ہے تو اس کامرانی پر چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے عاجزی سے اسے تمام جامعات کے وائس چانسلروں کی کامیابی قرار دیا ۔ اب میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ اس کمیشن کی کوتاہیوں پر لکھنے اور بولنے کے ساتھ ساتھ اس کی کامیابی کا تذکرہ بھی نمایاں انداز میں کرے۔ اُمید ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ ادارہ قوم کی علمی و عملی راہنمائی کا فریضہ بہتر انداز میں کرے گا۔