نئے آرمی چیف ۔۔۔۔۔۔توقعات اور ترجیحات

نئے آرمی چیف ۔۔۔۔۔۔توقعات اور ترجیحات
 نئے آرمی چیف ۔۔۔۔۔۔توقعات اور ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

نومبر کا مہینہ سب کے لئے کڑا تھا ایک طرف ملک کی داخلی سیاسی صورتحال کے گرداب نے تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنی گرداب میں لئے رکھا ، کبھی پانامہ لیکس کا بھونچال تو کبھی اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے کا سونامی ، دوسری جانب داخلی طورپر دہشت گردی کے خوفناک واقعات کے ساتھ ساتھ خارجی سطح پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی اشتعال انگیزیوں کے باعث معصوم شہریوں اور فوجی جوانوں کی شہادتیں ، مشرقی سرحد پر بھارت نے آگ اور خون کی ہولی کھیلنا شروع کئے رکھی جبکہ اس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین سفارتی محاذ پر بھی گرما گرمی رہی ،داخلی اور خارجی سطح پر ان سنگین نوعیت کے چیلنجز کے ساتھ ساتھ پاک فوج کی کمان میں تبدیلی کا اہم ترین مرحلہ تھا لیکن نومبر کا مہینہ خیریت سے گزر گیا ، لاک ڈاؤن کا کلائمکس ہی انٹی کلائمکس میں بدل گیا پانامہ کیس کا بھونچال سپریم کورٹ نے سنبھال لیا ، حکومت فوری خطرے سے بچ گئی ،ڈان لیکس کا معاملہ التواء کا شکار ہوگیا ، ڈان لیکس کی وجہ سے جمہوری نظام لرزہ براندام تھا لیکن’’ ہوش نے ناخن لیے ‘‘اور جوش ٹھنڈا پڑ گیا ، بعض جماعتی اور سیاسی نجومیوں کی پیش گوئیاں ایک دفعہ پھر منطقی انجام تک نہ پہنچ سکیں ، انہیں مزید پیش گوئیاں کرنے کا موقع مل گیا ، جبکہ فرزند راولپنڈی کی جھولی پھیلی کی پھیلی رہ گئی ، ان کی امیدیں بر نہیں آئیں ، ملک کا نوزائید ہ جمہوری نظام اس وار کو سہ گیا اور حکومت سمیت سب اپنی اپنی پرانی تنخواہ پرکام کرنے لگ گئے ہیں ،تاہم اس تمام اتار چڑھاؤمیں پاک فوج کی کمان کی تبدیلی کا عمل بھی بالآخر پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ،وزیراعظم محمد نوازشریف نے نومبر کے ’’گردش ایام‘‘کے تناظر میں اپنا ائینی اختیار استعمال کرتے ہوئے لوگوں کے صبر کا امتحان بھی خوب لیا ، لیکن الحمد اللہ ،بالآخر یہ اہم ترین کام بھی بخیر و خوبی انجام پاگیا ، تمام غیر ضروری طورپر جنم لینے والی قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں ،پاک فوج جیسے اعلیٰ اور طاقتور ادارے میں کمان کی تبدیلی یقیناًایک غیر معمولی عمل ہے ، ہمیں وہ مناظر یاد ہیں جب جنرل پرویز مشرف نے اپنی سٹک جنرل کیانی کے حوالے کی تھی ، اس وقت جنرل مشرف کے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ وہ شائد اپنی ذات کے حوالے سے ناخوش گوار کام کررہے ہیں تاہم اس بار صورتحال برعکس تھی سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنے عہدے کو اپنی صلاحیت اور جوانمردی کے ساتھ انتہائی اونچے مقام پر پہنچا کر بھرا میلہ چھوڑنے کو ازخود ترجیح دی ، پاک فوج کی کمان کی تبدیلی کے عمل سے پورے نظام کو استحکام اور تسلسل ملنے کا تاثر قائم ہوا ،اسلام آباد میں گزشتہ کئی مہینوں سے ایک سیاسی حبس کی جو کیفیت تھی وہ ختم ہوگئی ، نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک پروقار تقریب میں پاک فوج کی کمان سنبھال لی ہے ،سب سے پہلے نئے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کو جنرل راحیل شریف کے مرتبہ و مقام کے تناظر میں پرکھا جائیگا انہیں اس حوالے سے اپنے آپ کو منوانے کا اہم چیلنج درپیش ہوگا ، انہیں اپنا عہدہ سنبھالتے ہی داخلی و خارجی سطح پردیگر اہم چیلنجز کا سامنا بھی ہوگا ،


ایک طرف مشرقی و مغربی سرحدوں پر خطرات کے سائے منڈلا رہے ہیں تو دوسری جانب پاکستان جنوبی ایشیاء میں سفارتی تنہائی کا شکارہوتا نظر آرہاہے جبکہ بھارتی وزیراعظم مودی نے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی حالیہ لہر سے توجہ ہٹانے کی غرض سے لائن آف کنٹرول پر خون کی ہولی شروع کر رکھی ہے ،جس کے نتیجے میں پاکستان کے سفارتی چیلنجز میں بھی اضافہ ہوگیا ہے ،پاکستان کو سرحدوں پرمضبوط دفاع کیلئے دفاعی اقدامات کے ساتھ ساتھ خطے اور دنیا میں اپنی سفارتی حیثیت کو بہتر بنانے کا ٹاسک درپیش ہے جس کیلئے ایک بھر پور سفارتی پہل کی ضرورت ہے ،جبکہ بعض ناقدین سفارتی تنہائی کا شکار ہونے کے تاثر کی ایک وجہ سول ملٹری تعلقات میں مطلوبہ ہم آہنگی کے فقدان کو قرار دیتے ہیں اس لئے سول اور فوجی قیادت ایک صفحہ پر آکر ہی خطے میں اپنی سفارتی ترجیحات اور پالیسیوں کو واضح کرکے پاکستان کو بڑھتی ہوئی سفارتی تنہائی سے نکال سکتی ہے جبکہ امید ہے کہ نئے آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ داخلی طورپر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے جاری ضرب عضب کو مضبوط ادارہ جاتی ڈھانچہ فراہم کرنے میں ٹھوس اقدامات کرینگے ،


گزشتہ روز اس بات کا اقرار سامنے آیا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ وفاقی دارالحکومت میں اعلیٰ غیر ملکی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ دنیا کی جانب سے دونوں ممالک کو تحمل کی پالیسی اپنانے کا مشورہ کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ،جبکہ بھارت کے اعلیٰ سفارتی ذرائع کابھی یہ کہنا ہے کہ ’’شائد ‘‘یہ احساس جاگزیں ہوگیا ہے کہ بس بہت ہوگیا بالخصوص ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز کی باہمی گفتگو کے بعد سرحدوں پر شانت ہوگیا ہے‘‘ یہ اک اچھی خبر ہے جو ہمیں سفارتی ذرائع سے ملی لیکن ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ بھارت کی جانب سے سرحدی اشتعال انگیزیوں کو روکنے کی ایک وجہ امرتسر میں 3اور4دسمبر کو ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس کا ائندہ انعقاد بھی ہوسکتاہے اس لئے یہ ایک عارضی چال بھی ہوسکتی ہے ،لیکن ان تمام حالات کے باوجود مشیر خارجہ سرتاج عزیز اس کانفرنس میں شرکت کیلئے بھارت جارہے ہیں ،سرتاج عزیز کے دورہ بھارت سے پاکستان تاحال زیادہ توقعات نہیں لگا سکتا کیونکہ بھارت ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان کا زیادہ سے زیادہ ملبہ پاکستان کے سر ڈالا جائے ،مشیر خارجہ سرتاج عزیز افغانستان اور بھارت کے ممکنہ الزامات کا جواب دینگے لیکن سول اور فوجی قیادت کی ایک پیج پر آکر تشکیل دی جانیوالی مضبوط خارجہ پالیسی ہی ہمارے دشمنوں کی دشنام طرازی کو لگام دے سکتی ہے ۔

مزید :

کالم -