مستقبل کی سیاسی جدوجہد میں مریم نواز کا کردار!

مستقبل کی سیاسی جدوجہد میں مریم نواز کا کردار!
 مستقبل کی سیاسی جدوجہد میں مریم نواز کا کردار!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اس سال28 جولائی سے پاکستان سیاسی جدوجہد کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکا ہے۔ یہ جدوجہد قیامِ پاکستان کے کچھ سال بعد ہی شروع ہو گئی تھی،جب ملک کے پہلے وزیراعظم کو قتل کیا گیا اور چند سال بعد اس وقت کے گورنر جنرل غلام محمد نے دوسرے وزیراعظم اور اسمبلی کو برطرف کر دیا۔

غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں نے اس واردات کے لئے چیف جسٹس پاکستان کو اپنا آلۂ کار بنایا،جس نے نظریہ ضرورت ایجاد کر کے اس ملک کی بنیاد ٹیڑھی کر دی۔

وہ دن اور آج کا دن ، 63 سال گزر چکے ہیں، اس ٹیڑھی بنیاد پر کھڑی عمارت بار بار لرزتی ہے۔پاکستان مملکتِ خدا داد ہے اور اس کی اصل منزل ملک کی عوامی جمہوری قیادت کی بالادستی ہے،اِس لئے یہ ایک کشمکش ہے،جو گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے جاری ہے اور اُس وقت تک رہے گی، جب تک عوام کی منتخب قیادت اس ملک کو بار بار پٹری سے اتاردینے والی غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں پر حتمی بالادستی قائم نہیں کر لیتی۔

اس سال 28 جولائی کو جب غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں نے ایک ایسے وزیراعظم کو ایوان سے نکال باہر کیا جسے اس ملک کے دو تہائی عوام کا مینڈیٹ حاصل تھا (اور ہے) تو عوامی وزیراعظم نے عوام کی تائید سے سیاسی جدوجہد کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ عوام کو ان سے چھینا گیا مینڈیٹ کب واپس ملتا ہے اور اس دن کا سورج کب طلوع ہوتا ہے،جب ملک کی غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتیں ہتھیار ڈال کر اپنا اپنا کام کریں گی اور ملک کی باگ ڈور عوام کے ہاتھ حتمی طور پر دے دیں گی، لیکن جدوجہد بہرحال ہو رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔
میاں نواز شریف کے لئے سیاسی جدوجہد کوئی نئی بات نہیں ہے، وہ 1986ء سے سازشوں کا مقابلہ کر رہے ہیں۔

ان کا تعلق ایک ایسے خاندان سے ہے جو قیام پاکستان کے پہلے سے سٹیل کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ کسے پتہ تھا کہ یہ سٹیل بنانے کی بھٹیاں ایسے انسان بھی بنائیں گی جن کے اعصاب سٹیل کے بنے ہوں گے، جس طرح سٹیل ہر دفعہ بھٹی سے گزرنے کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے،اسی طرح میاں نواز شریف ہر سازش کے بعد پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئے۔اُردو زبان میں مردِ آہن کی اصطلاح ہو یا انگریزی کا محاورہ man of steel ،میاں نواز شریف سے زیادہ کسی اور پر پورے نہیں اترتے۔

میاں نواز شریف جب 1985ء میں وزیراعلیٰ پنجاب بنے تو پنجاب کی وڈیرہ شاہی پر ایٹم بم گر گیا اور اس نے پہلے دن سے ہی سازش کے تانے بانے بننے شروع کر دئیے۔آج سے 31سال پہلے پنجاب کی وڈیرہ شاہی نے پنجاب اسمبلی کی اکثریت اپنے ساتھ اکٹھی کر لی تاکہ ایک ایسے شخص کو ایوانِ وزیراعلیٰ سے باہر نکال دیا جائے جو وڈیرہ یا بڑا جاگیردار نہیں ہے۔

اس سازش کا مقصد مخدوم زادہ حسن محمود کو وزیراعلیٰ بنانا تھا اور اس میں پیر پگارہ، مخدوم زادہ حسن محمود، مخدوم سجاد قریشی، یوسف رضا گیلانی، چودھری برادران کے علاوہ تما م مزاری، لغاری، جتوئی، قریشی، ٹوانے، کھوسے اور بڑے بڑے وڈیرے شامل تھے۔

یہ سازش ناکام ہو گئی، لیکن میاں نواز شریف کو سیاسی جدوجہد کا پہلا سبق پڑھا گئی۔ اس کے بعد میاں نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور تینوں بار عوام کے دو تہائی سے زیادہ مینڈیٹ کے ساتھ، اور تینوں بار انہیں غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں نے سازشی عمل کے ذریعہ ایوان وزیراعظم سے باہر نکالا۔

1993ء میں غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں نے اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کو استعمال کیا اور پھر آرمی چیف کے وضع کردہ فارمولہ کی بنیاد پر دوتہائی مینڈیٹ رکھنے والے وزیراعظم کو باہر نکال دیا۔ اس وقت کی سپریم کورٹ نے بحال کیا تو دوبارہ باہر نکال دیا۔

1997ء میں ایک بار پھر اس وقت کے صدر فاروق لغاری غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں کے آلہ کار بنے ،اس دفعہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ ان کے ہمرکاب تھے۔ عوام کی تائید سے میاں نواز شریف نے سازشوں کا مقابلہ کیا اور سرخرو ہوئے، لیکن دو سال بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

اس طرح ایک دفعہ پھر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اور پھر جلاوطن کر دیا گیا اور ملک آٹھ سال سے زائد کے لئے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ڈوب گیا۔ ٹیلی ویژن کے کسی پروگرام کا ایک انگریزی جملہ بہت مشہور ہوا تھا، ’’واٹ اے کنٹری‘‘۔

مَیں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارا بھی کیسا ملک ہے،جو ایک جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں ایک بہت بڑے جمہوریت پسند رہنما محمد علی جناحؒ نے بنایا تھا، لیکن ان کے انتقال کے فوراً بعد سے ہی یہاں غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں نے ایسا کھیل شروع کر دیا کہ لگ بھگ 70 سال ہو گئے ہیں اس قوم کو غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

خواجہ ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی سے شروع ہونے والی جدوجہد میں بعد کے برسوں میں محترمہ فاطمہ جناح ؒ ، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو نے اپنا اپنا حصہ ڈالا اور یوں چھ سات دہائیوں سے یہ یہ جدوجہد جاری ہے،لیکن یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ 31برسوں میں جس لیڈر نے بار بار غیر منتخب اور غیر جمہوری طاقتوں سے ٹکر لی وہ میاں نواز شریف ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی وہ ملک کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔

میاں نواز شریف کی حالیہ جدوجہد کا ایک مثبت پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ پاکستان بہادر خواتین کو بھی جنم دیتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں فوجی آمروں کو مردانہ وار مقابلہ کرنے والی محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو شجاعت کی روشن مثالیں ہیں ،جن پر فخر ہوتا ہے۔

محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ایوبی آمریت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا تھا،جبکہ بے نظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کا بیس سال سے زائد بہادری سے مقابلہ کیا۔

میاں نواز شریف کے اس دورِ ابتلا میں ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف ایک خاتونِ آہن بن کر سامنے آئی ہیں۔ یہ سطور میں 28 اکتوبر کی شام کو مریم نواز شریف کی 44ویں سالگرہ کے دن لکھ رہا ہوں جب منتخب وزیراعظم کو نکال باہر کرنے کے بعد شروع ہونے والی سیاسی جدوجہد کو تین ماہ ہو چکے ہیں اور ان تین مہینوں میں مریم نواز شریف نے ثابت کردیا ہے کہ وہ مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون ہیں اور انگریزی محاورہ کے مطابق انہیں woman of steelکہنا غلط نہ ہو گا۔

ویسے تو سیاسی تاریخ میں ماضی میں برطانیہ کی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر اور جرمنی کی موجودہ چانسلر انجیلا مرکل بھی iron lady کے نام سے مشہور ہیں۔ ان تین ماہ کے دوران مریم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد دیکھنے سے گمان ہوتا ہے کہ آنے والے وقت میں وہ پاکستان کی iron lady ہوں گی۔

مریم نواز شریف نے 2013ء کے الیکشن میں اپنے والد میاں نواز شریف کی لاہور کے حلقہ 120 کی انتخابی مہم بہت موثر طریقہ سے چلائی تھی،اس کے بعد بتدریج وہ سیاسی افق پر نمایاں ہوتی گئیں، لیکن ان کے اصل جوہر پانامہ مقدمہ کے بعد کھل کر سامنے آئے۔مریم نواز شریف مستقبل کی قیادت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہیں۔

جنرل پرویز مشرف کے پاس گوئیبلز (Goebbels) کی ایک ٹیم تھی جو اپنے مرشد کی ان تعلیمات پر عمل پیرا تھی کہ اتنا جھوٹ بولو کو وہ سچ لگنے لگے،چنانچہ شریف برادران کی جلاوطنی کے دِنوں سے ہی یہ بے پر کی اُڑا دی گئی کہ مسلم لیگ(ن) میں میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے الگ الگ گروپ ہیں۔

2005ء اور2006ء میں شریف برادران کی جلاوطنی کے دور میں لندن میں میری میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف سے ملاقاتوں میں واضح ہوا کہ پارٹی میںdichotomy کی افواہیں منظم پراپیگنڈا ہیں۔یہی صورت حال آج بھی ہے اور ان افواہوں کا دائرہ کار اگلی نسل تک پھیلا دیا گیا ہے، جس کے تحت مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو سیاسی حریف ہونے کا غلط پراپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

اس سال 9اکتوبر کو مریم نواز شریف کی سیاسی جدوجہد کا باقاعدہ آغاز ہوا،جب ان کے خاوند کو ریاستی اداروں نے گرفتار کیا اور دونوں کو احتساب عدالت کے سامنے پیش کیا۔ (جاری ہے)

مزید :

کالم -