’’ہنیر پے گیا‘‘عمران کا احتساب مارچ اور کروڑوں کے اخراجات!
لاہور میں تحریک انصاف ایک بڑا سیاسی شو کرنے جارہی ہے، آج اڈہ پلاٹ رائے ونڈ پر جلسہ ہوگا اور زمان پارک کینال بنک سے رائے ونڈ کی طرف احتساب مارچ ہوگا جس کی قیادت خود عمران خان کریں گے جو گزشتہ دو تین روز سے لاہور میں ہیں، عمران خان کے بقول اس احتساب مارچ میں سارا پاکستان شرکت کرے گا، اس حوالے سے ضلعی انتظامیہ نے اجازت بھی دے دی اور اجازت نامے کے ساتھ 39شرائط بھی عائد کی ہیں، جو اب تک سامنے آئیں وہ مناسب ہیں کہ سیاسی کشیدگی اور محاذ آرائی کو روکنے کی کوشش ہے جبکہ حکمرانوں اور حکمران جماعت نے یکایک ٹھنڈے مزاج اور دماغ کا ثبوت دیا اور مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کو سخت ہدایات جاری کردی ہیں جن کے مطابق وہ کوئی سیاسی سرگرمی نہیں دکھائیں گے ریلی اور جلسہ گاہ کے ارد گرد اور راستے میں مسلم لیگی دفاتر بندرہیں گی۔
اس احتساب مارچ اور جلسے کے حوالے سے بعض دلچسپ ڈائیلاگ بھی ہوئے، پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے اپنی ایک پریس کانفرنس کے دوران بہت بڑا دعویٰ اور پیش کش کردی وہ اس میں بہت محتاط بھی تھے وہ فرماتے ہیں کہ عمران خان صاحب نے دعویٰ کیا کہ سارا پاکستان آئے گا اور پھر کہا پانچ لاکھ افراد ہوں گے، رانا ثناء اللہ کی پیش کش تھی کہ اگر تحریک انصاف دو لاکھ افراد بھی لے آئے تو وہ (رانا) ساراخرچہ معہ ٹرانسپورٹ دیں گے، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا کے مترادف تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق نے فوراً یہ پیش کش قبول کرلی اور کہا کہ مارچ اور ٹرانسپورٹ کے لئے ان (تحریک انصاف) کو رقم کی ضرورت ہے، رانا صاحب فوراً ادائیگی کریں۔اس کا جواب بہر حال نہیں دیا گیا کہ رانا صاحب کی پیشکش کا انداز ’’اگر‘‘ والا تھا کہ پہلے دو لاکھ شو کرو پھر رقم لے لو، اب بات یہ ہوئی کہ جلسہ ہوگا تو تحریک انصاف والے لاکھوں کلیم کر کے رانا صاحب سے رقم کا مطالبہ کریں گے اور رانا صاحب سرکاری اعدادوشمار والے گورکھ دھندے کے باعث بیس سے پچیس ہزار تعداد کے آگے کچھ دینے کو تیار نہیں ہوں گے۔یوں ’’نہ نومن تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی‘‘ کہ ہر کوئی اپنے موقف پر قائم رہے گا۔
تحریک انصاف نے بہر حال اس احتساب مارچ کو کامیاب بنانے کے لئے بڑی محنت کی اور کافی رقم بھی خرچ کی ہے، جلسہ گاہ میں ایک کلو میٹر تک کرسیاں،سٹیج اور کنٹینر ، ڈی۔جے اور فلیکس معہ بینرز جو پورے پاکستان میں لگائے گئے ہیں، اور مارچ کے راستے کو تو بھردیا گیا، اس پر کراچی سے پشاور تک سے آنے والے قافلوں کا خرچہ اور پنڈال میں مسلسل بجلی مہیا کرنے کا نظام الگ ہے، اب قارئین کرام خود اندازہ لگالیں کہ یہ سب کتنے اخراجات کا کام ہے، اس ایک احتساب مارچ پر کروڑوں روپے خرچ ہوں گے، ہمارے خیال میں تو اتنی بڑی رقم خرچ ہو گی کہ اس سے ایک ہسپتال(شوکت خانم کا فیز2) بھی تعمیر ہوسکتا تھا ۔ بہرحال یہ سیاست ہے اس میں کیسی فکر، اخراجات ہوئے تو کیا ، تاہم سوال یہ ہے کہ مطالبہ کیا ہے، مطالبہ صرف احتساب ہے کہ وزیراعظم اپنے وعدے کے مطابق خود کو احتساب کے لئے پیش کریں ان کو اور کوئی فکر نہیں،وہ سمجھتے ہیں کہ صرف وزیراعظم کے احتساب سے ہی دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی۔ بہرحال یہ ان کی صوابدید ہے۔
ہمیں تو اتنے بھاری اخراجات سن اور دیکھ کر بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان یاد آ گئے یہ جنرل ضیاء اور ایم آر ڈی کی جدوجہد کے دور کی بات ہے۔ ان دنوں جہانگیر بدر پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر تھے۔ ایم آر ڈی نے موچی دروازے میں جلسے کا پروگرام بنایا تو ایک میٹنگ میں انتظامات اور اخراجات کا جائزہ بھی لیا گیا، اب بات محترم نوابزادہ نصراللہ کی زبانی کہ اسی میں لطف ہے۔ ایک روز ہم معمول کے مطابق صبح دفتر جانے سے پہلے ان (نصراللہ) کی رہائش معہ دفتر حاضر ہوئے تو وہ معمول کے مطابق اخبارات دیکھ رہے اور اکیلے تھے۔ علیک سلیک کے بعد ہم بیٹھ گئے تو قدرتی طور پر گفتگو کا رخ ایم آر ڈی کی جدوجہد اور اس حوالے سے موچی دروازہ میں متوقع جلسے کی طرف مڑگیا۔
نوابزادہ نصراللہ بولے! ’’لو جی! ہنیر پے گیا‘‘ (تکیہ کلام) جہانگیر بدر کہتے ہیں کہ جلسے کے لئے آٹھ لاکھ روپے چاہئیں کہ اتنا ہی خرچ ہو گا۔ ہم تو چند سو روپے میں جلسہ کر لیا کرتے تھے۔ ایک مختصر سٹیج سامنے، چند کرسیاں اور پھر دریاں بچھا دی جاتی تھیں، اب یہ حال کہ ایک جلسے کے لئے آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوں گے۔ جب تفصیل پوچھی تو خود جہانگیر بدر نے بتایا کہ سٹیج کے فرنیچر کے علاوہ پنڈال میں کئی ہزار کرسیاں ہوں گی۔ پریس گیلری کے لئے میزوں کرسیوں کا انتظام ہو گا اور پھر ساؤنڈ سسٹم بھی نصب ہونا ہے تاکہ اکبری بلکہ دہلی دروازہ اور دوسری طرف شاہ عالمی دروازہ اور فلیمنگ روڈ تک تقریریں سنی جا سکیں۔ بہرحال نوابزادہ نصراللہ تو حیران ہی ہوتے رہے، آج اگر وہ زندہ ہوتے تو یقیناًبار بار کہتے ’’ہنیر پے گیا، ہنیر پے گیا‘‘۔
ہم نے اپنے ایک تجزیئے میں عمران خان اور شیخ رشید کے جملوں پر اعتراض کیا تھا، اس پر ہمارے رہائشی علاقے کے ’’چیتوں‘‘ نے تنقید کر دی اور اپنے ان رہنماؤں کو درست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ تاہم دلائل بہت پھس پھُسے تھے۔آج ہم نے ان حضرات سے پوچھا کہ اکیلے پرواز سے کیا حاصل ہوگا اور کیا عمران خان صاحب گزشتہ دو تین روز سے جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ مناسب ہے؟ اب وہ یہ تک کہہ گئے کہ اگر لاشیں (نعشیں) گریں تو ہم جاتی عمرہ کا رخ کریں گے حالانکہ مسلم لیگ (ن) اور انتظامیہ تو بیک فٹ پر چلے گئے ہیں۔ بہتر تو یہ تھا کہ عمران خان احتساب اور شریفوں کی حکومت ختم کرنے کے علاوہ بھی کچھ اور مانگتے مہنگائی، بے روزگاری اور نچلی سطح پر کام چوری اور کرپش کی بات کرتے وہ تو الیکشن کمیشن سے عدالتوں تک کے اداروں کو بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ اللہ ان کو ہم جیسے شہریوں کے مسائل پر بھی بات کرنے کی توفیق دے۔