مستقبل کی سیاست کا دھندلا منظر نامہ

مستقبل کی سیاست کا دھندلا منظر نامہ
 مستقبل کی سیاست کا دھندلا منظر نامہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تیزی سے بدلتے منظر نامے میں بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے۔ آصف علی زرداری ہر قسم کے مقدمات سے بری ہوگئے ہیں اور کھل کر پریس کانفرنسیں کررہے ہیں،نواز شریف لندن جاچکے ہیں، واپس کب آتے ہیں، کچھ پتہ نہیں، شریف فیملی کے اکثر افراد لندن چلے گئے ہیں،البتہ مریم نواز شریف ڈنکے کی چوٹ پر موجود ہیں اور قومی حلقہ 120میں اپنی والدہ کلثوم نواز کی انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ شہباز شریف اپنے محاذ پر ڈٹے ہوئے ہیں، لیکن ابھی انہیں مسلم لیگ کی کمان سنبھالنے کا گرین سگنل نہیں مل رہا، تاہم اس کے باوجود یہ چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں شہباز شریف کا کردار بہت اہم ہوگا۔

وہ مسلم لیگ (ن) کو کیسے متحد رکھتے ہیں اورانتخابات میں اس کی کمان سنبھالتے ہیں، یا صرف پنجاب تک محدود ہو جاتے ہیں، اس کا اندازہ کچھ وقت کے بعد ہی ہوسکے گا۔ اس وقت ان کی سوچ کا انداز کیا ہے، اس کا پتہ ان کی ملتان میں مختصر آمد اور اس میں ارکان اسمبلی سے ملاقات کے موقع پر ان کے خیالات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔انہوں نے ارکان اسمبلی کو سختی سے منع کیا کہ وہ عدلیہ یا فوج مخالف بیانات ہرگز نہ دیں، وفاقی حکومت کی طرف ہرگز نہ دیکھیں، بلکہ پنجاب حکومت کی ہدایات پر عمل کریں۔ اپنے اپنے حلقوں میں تیز رفتار منصوبے بنائیں، جن کے لئے پنجاب حکومت دل کھول کر گرانٹ فراہم کرے گی۔ شہباز شریف کی ان باتوں سے صاف لگتا ہے کہ وہ پنجاب پر مسلم لیگ (ن) کی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ پنجاب میں اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی تو مسلم لیگ (ن) سیاسی جماعت کے طور پر مضبوط بھی رہے گی اور زندہ بھی۔


اگر عمران خان درمیان میں نہ آتے تو مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی کے درمیان طے شدہ فارمولے کے مطابق2018ء میں باری تو پیپلز پارٹی کی بنتی ہے، لیکن اب یہ بات اتنی سادہ نہیں رہی۔ تحریک انصاف کی وجہ سے ایک بڑے حریف کا پاکستانی سیاست میں اضافہ ہو چکا ہے۔ آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں جو پریس کانفرنس کی اس میں میاں نواز شریف کو پھریقین دلایا کہ میں اب بھی مخالف نہیں ہوں،بلکہ ان کی مدد کررہا ہوں۔

یہ مدد کس نوعیت کی ہے اور کیا ہوسکتی ہے،اس کی انہوں نے وضاحت نہیں کی۔ نواز شریف تو اس وقت بری طرح مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ نااہل ہونے کے بعد انہیں نیب ریفرنسوں کا بھی سامنا ہے اور ان کی عدم موجودگی کے باوجود اسے دائر بھی کیا جائے گا اور چھ ماہ کے اندرفیصلہ بھی کیا جائے گا۔آصف علی زرداری نے کس مدد کی طرف اشارہ کیا ہے؟ شاید وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح تحریک انصاف انہیں نااہل کرانے کے بعد اب ان کی سزا کے لئے زور لگا رہی ہے، پیپلز پارٹی یہ مطالبہ نہیں کررہی، لیکن پھر بھی آصف علی زرداری کے لہجے کی تلخی بتاتی ہے کہ وہ نواز شریف سے خوش نہیں ہیں۔


البتہ ایسے واقعات ضرور ہورہے ہیں، جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ نواز شریف کی نااہلی کے بعد حکومت کی طرف سے کچھ چیزوں میں نرمی دکھائی دے رہی ہے، مثلاً ڈاکٹر عاصم حسین کو بیرون ملک جانے کی اجازت ملنا اور حکومت کی طرف سے اس کی مخالفت نہ کرنا، آصف علی زرداری کا احتساب عدالت سے بری ہونا اور مسلم لیگ (ن) کے کسی رہنما کی طرف سے کوئی تنقیدی بیان جاری نہ کیاجانا۔ عمران خان کا حسب سابق نواز شریف کے بعد آصف علی زرداری کو کرپٹ کہنا اور جلسوں میں یہ اعلان کرنا کہ اب آصف علی زرداری کو نکالنے کی باری ہے۔۔۔ رفتہ رفتہ تقسیم پھر یہی بن رہی ہے کہ ایک طرف مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نظر آئیں گی اور دوسری طرف تحریک انصاف، دونوں کا مقصد یہی ہوگا کہ کسی طرح تحریک انصاف کا راستہ روکا جائے۔ اس حوالے سے ایک غیر علانیہ این آر او بھی ہوسکتا ہے۔ شاید آئندہ انتخابات میں پھر وہی پرانا فارمولا دہرایا جائے کہ سندھ اور وفاق میں پیپلز پارٹی اور پنجاب اورخیبر پختونخوا میں مسلم لیگ(ن) اور اتحادیوں کی حکومتیں۔ آصف علی زرداری نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی باور کرادیا ہے کہ 2008ء میں وہ چاہتے تو پنجاب میں حکومت بناسکتے تھے، مگر انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کی وردی اُتروانے اور بعدازاں گاڈ آف اَنر پیش کرکے رخصت کرنے کی پالیسی کے تحت مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں حکومت بنانے دی۔

کیا مستقبل کے سیاسی نقشے میں بھی وہ اس فارمولے کو دوبارہ آزمائیں گے؟ یہ فارمولا انتخابات سے پہلے طے ہوگا یا انتخابی نتائج کے بعد۔۔۔ اور بعد کے نتائج کیا واقعی وہی آئیں گے، جن کے مفروضے پر مستقبل کا سیاسی نقشہ سوچا جارہا ہے؟اگر پہلے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرلیتی ہیں تو کیا عمران خان کے لئے ان دونوں کو ہدف بنانا آسان نہیں ہو جائے گا۔ ایک عام خیال یہ ہے کہ نواز شریف لندن میں بیٹھ کر زیادہ متحرک سیاست کرسکیں گے، پاکستان میں ان کی جماعت برسراقتدار ہے، صوبے میں بھی ان کی حکومت ہے، تاہم وہ یہاں کھل کر سیاست اس لئے نہیں کرسکتے کہ انہیں حکومتی پروٹوکول حاصل ہوتا ہے، ساری سرکاری مشینری ان کے ساتھ ہوتی ہے، جس کی وجہ سے میڈیا اور سیاسی مخالفین تنقید کرتے ہیں کہ ایک نااہل شخص کو اتنا پروٹوکول کیوں دیا جارہا ہے؟ لندن میں وہ زیادہ آزادی سے اپنا نقطہ نظر بیان کرسکیں گے، پھر یہ بھی ممکن ہے کہ آصف علی زرداری بھی وہاں پہنچیں اور دونوں کی ملاقات ہو جائے۔ اس ملاقات میں ایک این آر او پر بات ہوسکتی ہے، کیونکہ مسلم لیگ (ن) اور شریف فیملی آج کل جس دباؤ میں ہیں، اس سے نکلنے کے لئے ایک بڑے بریک تھرو کی ضرورت ہے، جو پیپلز پارٹی کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔


آصف علی زرداری خود ایک نجی چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں یہ کہہ چکے ہیں کہ 2018ء میں انتخابات یقینی نہیں ہیں، کوئی نیا تجربہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ یہ افواہیں تو پچھلے کچھ عرصے سے گرم ہیں کہ ملک میں تین سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت لائی جارہی ہے، جو ملک میں موجود مختلف خرابیوں کا ’’علاج‘‘ کرنے کے بعد انتخابات کرائے گی، تاہم جب ایسے دعوے کرنے والوں سے یہ پوچھا جائے کہ ایسا کیونکر ممکن ہے اور آئین میں اگر اس کی گنجائش نہیں تو پھر کیسے اس خیال کو عملی جامہ پہنایا جائے تو وہ نظریہ ضرورت کا پرانا چورن پیش کردیتے ہیں، حالانکہ نظریہ ضرورت کو تو خود سپریم کورٹ دفن کرچکی ہے۔ اب کون اور کیسے سپریم کورٹ سے اجازت لے گا کہ آئین میں 90دن کے اندر انتخابات کرانے کی شق معطل کرکے تین سال کے لئے قومی حکومت بنانے کا حکم نامہ جاری کیا جائے، تاہم مردم شماری کے ذریعے ایک ایسا پنڈورابکس ضرور کھل گیا ہے، جو ایسے کسی نظریہ ضرورت کی بنیاد بن سکتا ہے۔ ایسا جان بوجھ کے کیا گیا ہے یا اس میں کوئی تکنیکی مجبوریاں آڑے آئی ہیں؟البتہ یہ ثابت ہے کہ پورے ملک میں اس مردم شماری سے ہلچل سی مچ گئی ہے۔ کراچی والوں نے تو باقاعدہ احتجاج کا اعلان کردیا ہے، اسی طرح جنوبی پنجاب میں اس مردم شماری کے خلاف سخت رد عمل پایا جاتا ہے، کیونکہ اس میں شہروں اور دیہاتوں کی آبادی بہت کم ظاہر کی گئی ہے۔


موجودہ مردم شماری سے ایک نتیجہ بآسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ سوائے لاہور کے باقی ملک کے تمام شہروں کی آبادی یا تو بڑھی نہیں یا پھر پہلے سے کم ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ لاہور کی آبادی کواس لئے بڑھایا گیا ہے تاکہ نئی حلقہ بندیوں میں لاہور کی نشستوں کو بڑھایا جاسکے اور صرف لاہور پر فوکس کرکے اتنی نشستیں حاصل کرلی جائیں کہ حکومت بنانے میں آسانی رہے۔۔۔ اب دیکھتے ہیں، مردم شماری کی پٹاری سے جو اعتراضات کے سانپ نکلے ہیں، انہیں کس طرح پٹاری میں بند کیا جاتا ہے۔۔۔تاہم یہ بات طے ہے کہ یہ معاملہ آسانی سے ختم ہونے والا نہیں۔ سوپہلے سے اُلجھے سیاسی منظر نامے میں اس مسئلے نے ایک نئی اُلجھن پیدا کردی ہے۔ سیاستدان بالکل بکھرے ہوئے ہیں۔ان میں اس نکتے پر مل بیٹھنے کی بھی صلاحیت نہیں کہ آئندہ انتخابات کے حوالے سے مل بیٹھیں اور کوئی ضابطہ اخلاق طے کرکے اُٹھیں۔ اس سیاسی منظر نامے میں مستقبل کی صورت حال خاصی الجھی ہوئی دکھائی دیتی ہے اور اگر اس اُلجھن کا سراڈھونڈنے کی کوشش کریں تو وہ دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔

مزید :

کالم -