28جولائی یومِ عدل و انصاف
سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے پانامہ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے متفقہ طور پر نواز شریف کو پارلیمینٹ کی رکنیت کے لئے نااہل قرار دے دیا ہے،جس کے نتیجے میں نواز شریف نہ تو اب قومی اسمبلی کے ممبر رہے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے وزیراعظم۔بلاشبہ سپریم کورٹ نے ایک غیر معمولی فیصلہ سنایا ہے۔سابق وزیراعظم نواز شریف کے شاید سان گمان اور وہم و خیال میں بھی یہ بات نہ ہو گی کہ وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر بیٹھے ایک طاقتور ترین شخص کے خلاف سپریم کورٹ تاحیات نااہلی کا فیصلہ دے سکتی ہے۔مسلم لیگ(ن) نے اگرچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ قبول یا تسلیم کر لیا ہے،لیکن تین لیڈروں اور بعض سابق وزراء کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تبصرے میں استعمال کی گئی زبان اب بھی غیر محتاط اور قابلِ اعتراض ہے۔ایک وزیر کا یہ کہنا کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایک ادارے کا دوسرے ادارے کی حدود میں مداخلت ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ مستقبل میں اِس بات کو آئینی اور قانونی طور پر یقینی بنایا جائے گا کہ ایک ادارہ دوسرے ادارے کی حدود میں دخل اندازی نہ کر سکے۔ سپریم کورٹ نے جس فریق کے خلاف فیصلہ کیا ہے۔اس کو سپریم کورٹ کے فیصلے پر نیک نیتی کے ساتھ مناسب الفاظ میں تنقید کا حق تو حاصل ہے،لیکن اس طرح کا اظہار کہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دے کر گویا ایک دوسرے ادارے کے دائرۂ اختیار میں مداخلت کی ہے۔مَیں اِس سوچ کو ناپختہ اور بچوں والی سوچ ہی قرار دے سکتا ہوں۔لفظوں کو چبا چبا کر اور ہاتھوں کو نچا نچا کر آپ سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید ضرور کریں،لیکن ایک باوقار اور تجربہ کار سیاست دان کو بات کرتے ہوئے احتیاط اور متانت کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے اور یہ سوچ تو سرا سر غیر آئینی اور غیر قانونی ہے کہ نواز شریف یا کسی اور سیاست دان کے خلاف اگر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت یہ فیصلہ سنائے کہ اب وہ پارلیمینٹ کی رکنیت کا اہل نہیں رہا تو آپ اسے ایک ادارے کی دوسرے ادارے میں مداخلت سمجھ لیں۔کسی بھی منتخب رکن پارلیمینٹ کی نااہلیت کا جب بھی کوئی سوال اُٹھے گا تو اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کر سکتا ہے یا مُلک کی اعلیٰ عدالتیں اور یہ اختیار الیکشن کمیشن اور اعلیٰ عدالتوں کو مُلک کے آئین نے دیا ہے۔مُلک کا کوئی ادارہ یا فرد اپنے اختیارات کو آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے استعمال کر رہا ہے یا آئین سے ماورا۔اس کا فیصلہ مُلک کی اعلیٰ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔قومی اسمبلی کا ایک ممبر اور سابق وفاقی وزیر جس نے سپریم کورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے اور اِسی وجہ سے وہ الیکشن ٹریبونل میں اپنے خلاف فیصلے کے باوجود قومی اسمبلی کا بدستور ممبر ہے۔اگر وہ بھی یہ رائے رکھتا ہے کہ سپریم کورٹ کے نواز شریف کے فیصلے کے بعد اب ایسا لائحہ عمل اختیار کیا جائے کہ مستقبل میں ایک ادارہ دوسرے ادارے کی حدود میں دخل اندازی نہ کر سکے تو اس سوچ کو افسوسناک ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ہم خود کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں،مگر آئین کو بدل دینے کے عزائم کا اظہار کر رہے ہیں تاکہ آئندہ سپریم کورٹ کسی رکن پارلیمینٹ کی نااہلی کی بابت فیصلہ نہ دے سکے۔قومی اسمبلی کے اس رکن کو یہ بھی علم نہیں کہ پارلیمینٹ قانون یا آئین میں ترمیم تو کر سکتی ہے،لیکن آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔اب اگر پوری پارلیمینٹ آئین میں یہ ترمیم کر دے کہ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ،یعنی عدلیہ بطور ادارہ مُلک میں موجود ہی نہیں ہونی چاہئے تو پارلیمینٹ کو اِس فیصلے کا اختیار حاصل نہیں۔ویسے بھی سپریم کورٹ کے نواز شریف کے خلاف فیصلہ کو ایک ادارے کا کسی دوسرے ادارے کے خلاف فیصلہ سمجھ لینا انتہا پسندانہ اور منفی سوچ ہے۔سپریم کورٹ کے اِس فیصلے کو نواز شریف کی ذات کے خلاف فیصلہ سمجھنا بھی ہر گز درست نہیں۔یہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کا ایک مثالی قانونی فیصلہ ہے۔مسلم لیگ(ن) اس فیصلے کو ایک مثال بنا کر آگے بڑھے اور خود اِسی فیصلے کی روشنی میں سپریم کوٹ کے دروازے پر ہر اُس رکن پارلیمینٹ کے خلاف دستک دی جائے،جو آئین کے آرٹیکل 62کے مطابق صادق اور امین نہیں ہے۔بدعنوان، بدکردار اور خائن افراد سے اگر پارلیمینٹ کو نجات مل جائے تو اس کو قابلِ اعتراض کیسے کہا جا سکتا ہے؟ہمارے سیاست دان دوست ادبی ذوق کے اعتبار سے بھی اس حد تک بانجھ ہو گئے ہیں کہ وہ موقع محل کے مطابق کوئی موزوں شعر بھی پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتے۔نواز شریف کے خلاف فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک وفاقی وزیر اور سابق وزیراعظم کے ایک مشیر کا یہ اشعار پڑھنا مجھے بہت عجیب لگا۔
نثار مَیں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے،جسم و جاں بچا کے چلے
یہ اشعار پڑھنے کے بعد سابق وزیر کا ارشاد تھا کہ ہم نظر چُرا کے نہیں سر اُٹھا کر چلیں گے۔ سابق وفاقی وزیر کو یہ علم تو ہونا چاہئے کہ نواز شریف کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ نے کیا ہے۔یہ کوئی مُلک پر مارشل لاء مسلط نہیں ہُوا اور نہ ہی نواز شریف کا تختہ الٹ کر اُن کو وطن بدر کرنے کا کوئی فیصلہ سنایا گیا ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بھی مسلم لیگ(ن) ہی کی حکومت رہے گی، کیونکہ اس جماعت کو قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی اور قانونی فیصلے کے بعد آئین کے تمام راستے کھلے ہیں،بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہو گا کہ قانون کی بالادستی قائم ہوئی ہے۔قانون کی بالادستی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ ظلم و ناانصافی کا معاملہ نہیں ہُوا۔سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف (جب وہ وزیراعظم تھے) فیصلہ دے کر اس غلط تصور (Myth)کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا ہے کہ پاکستان میں کسی طاقتور حکمران کا احتساب نہیں ہو سکتا۔ اس اعتبار سے جمعتہ المبارک28جولائی2017ء کو اگر ایک تاریخی دن قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا،لیکن ایک سابق وفاقی وزیر صرف نواز شریف کے ساتھ اپنی وفا داریاں ثابت کرنے کے لئے نواز شریف کے خلاف فیصلے کے دن کو ’’یوم سیاہ‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔مَیں دوبارہ عرض کروں گا کہ مسلم لیگ(ن) بھلے سپریم کورٹ کے 28جولائی کے تاریخ ساز فیصلے سے اختلاف کرے، لیکن مسلم لیگ(ن) کی بطور برسر اقتدار جماعت یہ قانونی اور آئینی ذمہ داری بھی تو بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف خود مقدمات دائر کروائے اور عدالتوں سے عدل و انصاف کی درخواست کرتے ہوئے کرپٹ مافیا کے ارکان کو سزائیں دلوائے۔ جب ہمارے سیاسی اور معاشرتی رویے یہ ہوں کہ ہم اپنے لیڈر کے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی بے سروپا اور بے بنیاد تنقید کا نشانہ بنائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ عدلیہ کی بے عزتی اور توہین کر کے مستقبل میں عدلیہ کو سیاست دانوں کی بدترین بدعنوانیوں کے خلاف کام کرنے سے روک دینا چاہتے ہیں۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران بھی مسلم لیگ(ن) سے وابستہ بعض ارکانِ پارلیمینٹ اور بعض سابق وفاقی وزراء کا رویہ اور طرزِ عمل اور ٹی وی چینلز پر ان کے بیانات عدلیہ کے احترام، عزت اور وقار کے منافی رہے،لیکن عدلیہ کے محترم ارکان نے اپنے صبر کا پیمانہ لبریز نہیں ہونے دیا اور خود کو صرف اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں تک محدود رکھا۔عدلیہ کے ارکان کے اسی باوقار طرزِ عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ عدل و انصاف کی کارروائی آگے بڑھتی رہی اور آخر کار ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا۔
سپریم کورٹ نے ایک طاقتور وزیراعظم کے خلاف فیصلہ دے کر عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری کے علاوہ قانون کی برتری و فوقیت کا نقش بٹھا اور سکّہ جما دیا ہے۔اگر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو یوم عدل و انصاف سے منسوب کر کے احتساب کے عمل کو آگے بڑھایا جائے تو پاکستان کو ایک ترقی یافتہ،مضبوط ترین اور خوشحال ترین مُلک بنانے کا خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔مَیں آخر میں صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفا کروں گا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو کسی ایک فریق کے خلاف نہ سمجھا جائے۔یہ فیصلہ کرپشن اور غیر قانونی ذرائع سے اثاثے بنانے اور ناجائز ذرائع سے بنائے گئے اثاثوں کو چھپانے کے خلاف سمجھا جائے تو سارے معاملات ہی درست ہو جاتے ہیں اور مسلم لیگ(ن) کے قائدین کی نفسیاتی الجھن بھی باقی نہیں رہے گی۔ایک لمحے کو سوچئے کہ سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اگر آصف علی زرداری کے خلاف ہوتا تو کیا یہ فیصلہ مسلم لیگ(ن) کے نزدیک تاریخ ساز نہ ہوتا۔اگر مسلم لیگ(ن) کے لیڈرز اور سابق وفاقی وزراء اپنی جماعت کی عینک اُتار کر دیکھیں تو سپریم کورٹ کے28جولائی کے فیصلے کی اہمیت اور افادیت ان پر بھی ظاہر ہو جائے گی۔سپریم کورٹ نے انصاف کی جو شمع روشن کی ہے اس روشنی کو پھیلانے میں ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عدل و انصاف کا سورج طلوع ہونے دو۔ آپ جلد دیکھ لیں گے کہ اگلی باری آصف علی زرداری کی ہو گی۔ کوئی اللہ کا بندہ سپریم کروٹ کی زنجیرِ عدل ہلائے تو سہی۔ آصف علی زرداری سے مَیں صرف آصف علی زرداری ہی مراد نہیں لے رہا۔ یہ نام تو محض ایک علامت کے طور پر مَیں نے استعمال کیا ہے۔میری مراد ہر بڑے اور بارسوخ کرپٹ آدمی سے ہے۔عدل و انصاف کے اعلیٰ اداروں نے جو ایک مثال قائم کی ہے۔ اب بطور قوم ہمیں بھی اپنا کردار مثبت طور پر ادا کرنا چاہئے۔قوم خوابِ غفلت سے اب اگر بیدار ہی ہو جائے تو ہمارے سارے کام سنور جائیں گے۔