طلبہ یونینوں کی بحالی کے مضمرات،پائنا کا قومی سیمینار
پائنا (پاکستان انسٹیٹیوٹ آف نیشنل افیئرز) ایسا قومی ادارہ ہے جس نے قوم کی ہمیشہ مشکل حالات میں رہنمائی فراہم کی ہے۔استادِ صحافت محترم الطاف حسن قریشی جس انداز میں اہلِ پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ طلبہ یونینز کی بحالی کے مضمرات کے موضوع پر پائنا کے قومی اہمیت کے حامل سیمینار کے شرکاء اور ان کے خیالات خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ فروری کا مہینہ جب بھی آتا ہے طلبہ یونین پر جنرل ضیاء الحق (مرحوم) کا شب خون یاد آ جاتا ہے۔ پائنا نے 9فروری 1984ء کو سامنے رکھتے ہوئے 28جنوری 2017ء کو طلبہ یونین کے مضمرات کے حوالے سے سیمینار کرایا تھا۔ میری کوشش تھی9 فروری کو یہی کالم لکھا جائے، مگر دفتری مصروفیت آڑے آتی رہی اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں گزارے ہوئے چھ سال یاد آئے اور ساتھ پنجاب یونیورسٹی میں تیزی سے پھیلتی صوبائیت اور لسانیت نے کام دکھایا جس کے نتیجے میں اسلامی جمعیت طلبہ، پختون اور بلوچ طلبہ کے درمیان ہونے والے تصادم کا واقعہ ہوا۔ جس انداز میں الیکٹرونک میڈیا نے لسانیت کے حامل گروپس کو مظلوم بنا کر پیش کیا تو طے کیا کہ اس واقعہ کی تہہ تک پہنچا جائے۔ پھر اسلامی جمعیت طلبہ کے24گرفتار نوجوانوں اور14کے قریب شدید زخمی نوجوانوں کے حالات سے آگاہی حاصل کی۔ایک طالب علم ابھی بھی کومے میں ہے، دو کی تین تین جگہ سے ٹانگیں فریکچر ہو گئی ہیں، دو کے بازو دو دو جگہ سے فریکچر ہوئے ہیں،مَیں کون ہوتا ہوں فیصلہ دینے والا، ظالم قرار پانے والے24گرفتار، 14شدید زخمیوں کا تعلق اسلامی جمعیت طلبہ سے تھا۔ واقعہ کے دس روز بعد اسلامی جمعیت طلبہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے کمروں کو نذر آتش کرنا اور پھر شارٹ سرکٹ کی خبریں لگانا، ڈاکٹر سمیعہ راحیل قاضی کے پروگرام پر حملہ، کون ہے جو حقائق سامنے لائے گا۔ پنجاب حکومت اور اس کے ترجمان کا کردار قابلِ ستائش رہا ہے۔ وائس چانسلر بھی درمیانہ راستہ نکالتے نظر آئے ہیں، مگر یہ کون لوگ ہیں جن کو پنجاب یونیورسٹی کا امن گوارہ نہیں ہے۔ گزشتہ آٹھ سالہ مجاہد کامران کے دور کو تاریخ ساز، یادگار قرار دے کر موجودہ امن کے دور کو بدامنی کا شکار کر کے ماحول خراب کر رہے ہیں۔ اس واقعہ کی وجہ سے افسردگی بھی تھی اور غم کی کیفیت بھی۔ پائنا کے سیکرٹری محترم الطاف قریشی کی کوشش کو سلام پیش کرتے ہوئے اب انہی کی زبانی طلبہ تنظیموں سے مراد طلبہ یونین ہیں اس اہم ایشو پر دو رائے پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ طلبہ یونینز کی بحالی سے امن عامہ کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ دوسری رائے یہ ہے طلبہ یونینز طالب علم کی حیثیت کو جلا بخشنے کا باعث بنیں گی۔ معاشرے میں پائی جانے والی دونوں ر ائے کو شرکاء سیمینار کے سامنے رکھا گیا۔ انہیں اپنی رائے اور اپنے اپنے تجربات کو سامنے رکھتے ہوئے محترم جاوید ہاشمی ، محترم مجیب الرحمن شامی، محترم احمد بلال محبوب، محترم غلام عباس، محترم تنویر عباس، محترم سجاد میر، محترم حفیظ اللہ نیازی، محترم رؤف طاہر، محترم ڈاکٹر اکرم چودھری، محترمہ عمرانہ مشتاق نے اظہارِ خیال کیا۔ تمام حضرات کے خیالات تفصیلی انداز میں تحریر کرنا ممکن نہیں، مختصر انداز میں رقم کروں گا، رائے آپ قائم کیجئے فیصلہ آپ کیجئے، طلبہ یونین کے الیکشن نہ ہونے سے کیا کیا نقصانات ہو رہے ہیں اگر الیکشن ہوتے رہتے تو کتنے ہی ہونہار سپوت ہمارے معاشرے کو مل جاتے جن پر فُل سٹاپ لگ چکا ہے۔
جناب احمد بلال محبوب صدر پلڈاٹ یونیورسٹی آف انجینئرنگ لاہور کی طلبہ یونین کے سابق صدر ہیں، فرماتے ہیں طلبہ یونین طالب علموں کی ذہنی اور سیاسی تربیت میں زبردست کردار ادا کرتی ہے۔آج حکومت اور سماجی ادارے بڑھتی ہوئی عدم برداشت سے پریشان ہیں طلبہ یونین میں کام کرنے سے طالب علموں کے اندر برداشت کا مادہ پیدا ہوتا ہے اور ذمہ داری کا احساس نشوونما پاتا ہے۔ طلبہ قیادت کے اندر تنظیمی اور جمہوری اوصاف پروان چڑھتے ہیں آج کا طالب علم ہمارے دورِ طالب علمی کے مقابلے میں کچھ چیزوں میں آگے اور کئی چیزوں میں احساس محرومی کا شکار ہے۔ قائدانہ صلاحیتوں سے دامن خالی دکھائی دیتا ہے انہوں نے میڈیا سے درخواست کی طلبہ یونین کی بحالی کے بارے میں آگاہی پھیلانے اور رائے عامہ منظم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
انہوں نے کہا تعلیمی اداروں میں تشدد مکمل طور پر کیسے ختم کیا جائے، طلبہ یونینوں کو سیاسی اثرات سے کیونکر محفوظ رکھا جائے۔ تنظیم سازی کے لئے شرائط و قیود کا تعین کس بنیاد پر ہو سکتا ہے، طلبہ یونینوں کے دستور میں کن کن امور کا احاطہ ضرروی ہے، پر مبنی سفارشات بھی پیش کیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ان سفارشات سے استفادہ کر سکتیں ہیں۔
جناب تنویر عباس تابش پنجاب یونیورسٹی لا کالج یونین کے سابق صدر ہیں وہ فرماتے ہیں معاشرے کو یہ احساس دلانے کی عملی کوشش کی ضرورت ہے تاکہ پتہ چل سکے طلبہ یونین کے غیر فعال ہونے سے قوم کتنے بڑے خسارے سے دوچار ہے، ہمارے زمانے میں طلبہ یونینوں نے رواداری اور جمہوری تہذیب کی حسین روایات قائم کرنے کے علاوہ بڑی بڑی قد آور شخصیات پیدا کیں، جو فارن آفس، تحقیقی اداروں اور صحافت میں بہت معروف ہوئی۔ جناب مخدوم جاوید ہاشمی، جناب مجیب الرحمن شامی، جناب سجاد میر، رؤف طاہر، غلام عباس، حفیظ اللہ نیازی، جہانگیر بدر(مرحوم)، احسن اقبال، صدیق الفاروق، سعد رفیق، اعجاز شفیع گیلانی و دیگر درجنوں شخصیات شامل ہیں۔ یونین نہ ہونے سے تشدد بڑھا، لسانیت نے فروغ پایا ، شخصیات کی آبیاری بند ہو گئی۔
غلام عباس پیپلزپارٹی کے مرکزی قائد ہیں فرماتے ہیں معاشرے کی طرف سے طلبہ یونین کی بحالی کی تحریک اٹھنی چاہئے، کیونکہ وہ اعلیٰ معیار کی قیادت سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ یہ کہنا بالکل غلط ہے طلبہ یونینوں کی وجہ سے تشدد میں اضافہ ہوا اور تعلیمی اداروں کا ماحول خراب ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ ان پر پابندی کی وجہ سے تمام خرابیاں پیدا ہوئیں۔ جناب سجاد میر معروف دانشور ہیں، انہوں نے طلبہ یونینز کی بحالی کی افادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا وہ زندگی کے تمام شعبوں میں قیادت سازی کا فریضہ انجام دیتی ہیں، ماضی میں انہوں نے جمہوریت کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔انہوں نے کہا میرا طلبہ سیاست میں حصہ لینے کا آغاز مجیب الرحمن شامی صاحب کی ساہیوال کالج میں انتخابی مہم سے ہوا۔ یہ کہنا درست نہیں ہے طلبہ یونین محض سیاسی جماعتوں کی نرسریاں ہوتی ہیں۔ مادرِ ملت فاطمہ جناح ؒ کے الیکشن میں طلبہ یونین کے صدر مجیب الرحمن شامی کا بطور صدر کردار تاریخ ساز تھا۔
معروف کالم نگار، دانشور حفیظ اللہ نیازی نے گفتگو کا آغاز ’’مضمرات‘‘ پر اعتراض کے ساتھ کیا اور کہا یہاں فوائد لکھنا چاہئے تھا، کیونکہ طلبہ یونینز کے فوائد ہی فوائد ہیں۔ طلبہ یونین کا پلیٹ فارم ایک تربیت گاہ ہے جو کچھ سیکھا یہیں سے سیکھا، ہماری زندگی کی نہایت قیمتی متاع وہ دور ہے۔ نئی نسل میں یہی اوصاف پیدا کرنے کے لئے طلبہ یونین کی بحالی اور اس کا استحکام ناگزیر ہے۔ سابق طالب علم رہنما معروف کالم نگار رؤف طاہر فرماتے ہیں، ذاتی طور پر یہ طلبہ یونینوں کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ میڈیا سے اپیل کرتے ہیں ان کی بحالی کے فوائد اور ثمرات کو پوری طرح اُجاگر کرے۔ مَیں نے ذاتی طور پر ہارون آباد سٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مجھے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔
سابق طالب علم لیڈر اور سینئر صحافی چیف ایڈیٹر روزنامہ ’’پاکستان‘‘ مجیب الرحمن شامی نے طلبہ یونینوں کی ضرر رساں سرگرمیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا نوجوانوں میں اعلیٰ آداب و اخلاق پیدا کرنے کی بجائے ٹریڈ یونین کا روپ دھار لیا تھا، جس نے یونیورسٹیوں کی علمی فضا کو مسموم کر دیا، طاقت کے زور پر جامعات میں ایسے افراد کا تقرر کرانے میں کامیاب ہو گئی جو پرائمری سکولوں کے لئے بھی ناموزوں تھے، تشدد میں اضافہ ہوا، محاذ آرائی نے جنم لیا، ہمارے ہاں مبالغے سے کام لینے کا رواج ہے اِس لئے حقیقت پسندی سے کام لینا مناسب ہو گا، ہمیں تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے بحالی کے عمل کو پائیدار بنیادیں فراہم کرنا اور نہایت کڑا ڈسپلن قائم کرنا ہو گا۔ سیمینار کے مہمان خصوصی محترم مخدوم جاوید ہاشمی نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا وہ سکول کے دِنوں سے طلبہ سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے اور پنجاب یونیورسٹی کے بالا افسر صدر منتخب ہوئے یہاں سے وہ سیاست کے منجدھار میں پہنچ گئے۔انہوں نے کہا طلبہ یونینز جمہوریت اور دانش مندی کی نشوونما کے لئے نرسریاں ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ذمہ دار قیادت کا وجود انہی تربیت گاہوں سے قائم ہو سکتا ہے۔ مَیں نے بطور صدر ایک دن بھی یونیورسٹی بند نہیں ہونے دی، سبھی کو ساتھ لے کر چلے۔انہوں نے کہا مَیں نے ٹاٹ کے سکول میں پڑھا ہے طلبہ یونین کی تربیت گاہ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ مجھے میری قوم نے طالب علم لیڈر کی حیثیت سے جوعزت دی آج جو کچھ ہوں سٹوڈنٹس یونین کی وجہ سے ہوں۔ آج بھی طلبہ یونینوں کی صحت مندانہ سرگرمیوں کا آغاز وقت کی اہم ضرورت ہے، مَیں شامی صاحب سے جو میرے اتالیق کی حیثیت رکھتے ہیں اختلاف کی اجازت چاہوں گا۔ سٹوڈنٹس یونینز اگر فعال رہتیں تو پاکستان امریکہ تو شاید نہ بنتا البتہ اس کا شمار مہذب ممالک میں ضرور ہوتا۔ ایک کالم میں سبھی شرکاء کے خیالات ممکن نہیں تھے قارئین کو فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی، ذاتی طور پر پنجاب یونیورسٹی اور کالجز کا حصہ رہا ہوں اتنا ضرور کہوں گا معاشرے میں برداشت، اختلاف رائے، روا داری، اخلاقی قدروں کا جو بحران تیزی سے بڑھ رہا ہے اگر طلبہ یونین کا عمل جاری رہتا تو غیر نصابی سرگرمیوں اور سپورٹس کے ذریعے ہمارے وطنِ عزیز کی نمائندگی کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا۔ طلبہ یونین تعلیمی اداروں کے لئے ہی نہیں،ہمارے معاشرے کی نشوونما کے لئے بھی ضروری ہیں۔
میاں اشفاق