سراج الحق اور عمران خان کے درمیان لڑائی اور پھر سیز فائر

سراج الحق اور عمران خان کے درمیان لڑائی اور پھر سیز فائر
سراج الحق اور عمران خان کے درمیان لڑائی اور پھر سیز فائر

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج تین موضوعات پر لکھنے کو دل ہے۔ میرے نزدیک سب اہم ہیں۔ پہلا عمران خان نے با لا خر سراج الحق کے خلاف بھی محاذ کھول دیا۔ انہوں نے سراج الحق پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کریں۔ دوسرا عدالت نے گلو بٹ کو گیارہ سال تین ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔ کیا گلوءبٹ کو انصاف ملا ہے۔ اور تیسرا یونس خان نے آسٹریلیا ءکے خلاف تیسری مسلسل ٹیسٹ سنچری بنا کر چیف سلیکٹر معین خان کو دیوار سے لگا دیا ہے کہ اب ان کے پاس بھاگنے کا راستہ بھی نہیں ہے۔ لیکن پہلے عمران خان اور سراج الحق تنازعہ پربات ہونی چاہئے ۔
تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے حوالہ سے بیان داغا ہے کہ سراج الحق وکٹ کے دونوں طرف کھیلنا بند کردیں۔ اس بیان نے سراج الحق کے سیاسی جرگہ کے سارے کھیل کو بظاہر ختم کر دیا ہے کسی ایک فریق کی جانب سے عدم اعتماد کے بعد ثالث کی ثالثی خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کے لئے تو یہ بیان ایک نعمت سے کم نہیں ہو گا۔ وہ تو پہلے ہی کوشاں تھے کہ کسی طرح سراج الحق عمران خان کی حمائت چھوڑ کر ان کے کیمپ میں آجائیں ۔ لیکن سراج الحق اس کے لئے تیار نہیں تھے۔ یہ بات عمران خان کے علم میں تھی کہ سراج الحق کو میاں نواز شریف کی طرف سے ہر طرح کی پیشکش ہے۔ پھر عمران خان کو کیا ہوا کہ انہوں نے خود ہی سراج الحق کو دوسری طرف دھکاءدے دیا۔
بات سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس لئے معاملہ کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ڈان اخبار میں سراج الحق کے حوالہ سے ایک خبر شائع ہوئی ہے کہ میاں نواز شریف اور عمران خان ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں۔ بس تحریک انصاف کے میڈیاءسیل نے صبح صبح یہ بیان پڑھا اور عمران خان کو اس کا جواب دینے کی تجویز دی۔ تحریک انصاف کی قیادت نے اس حوالہ سے جماعت اسلامی سے بات کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بس تحریک انصاف کی قیادت کا خیال تھا کہ ایک روز قبل جماعت اسلامی کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے وزیر اعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کی ہے اور جماعت اسلامی کے میاں نواز شریف سے معاملات طے ہو گئے ہیں۔ حالانکہ سراج الحق اس وفد میں شامل نہیں تھے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اس وفد کی قیادت کی۔ جبکہ چند روز قبل اسی طرح جماعت اسلامی کے اعلیٰ سطحی وفد نے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف سے بھی ملاقات کی ۔ جماعت اسلامی کی یہی ملاقاتیں تحریک انصاف کو چب رہی تھیں۔ اس طرح بنی گالہ میں سراج الحق صاحب کے حوالہ سے کئی تھیوریاں بنا لی گئیں۔ جس کے بعد عمران خان صاحب کا سراج الحق کے خلاف بیان داغ دیا گیا۔
جب عمران خان کا بیان سامنے آیا تو منصورہ میں کھلبلی مچ گئی۔ سب حیران ہو گئے کہ چند روز قبل تو تحریک انصاف کا جو وفد شاہ محمود قریشی کی قیادت میں منصورہ آیا تھا اس نے تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے درمیان ایک لمبی شراکت داری کی بات کی تھی۔ اس میں تواکٹھے چلنے پر بات ہوئی تھی۔ استعفوں کے معاملہ پر بھی سراج الحق کی ڈپلومیسی تحریک انصاف کی خواہشوں کے مطابق ہے۔ پھر عمران خان کیوں ناراض ہو گئے۔ جماعت اسلامی کی قیادت کا خیال تھا کہ تحریک انصاف کو سمجھ ہونی چاہئے کہ جماعت اسلامی کا مرکزی اجتماع عام ہو رہا ہے۔ جماعت اسلامی اس کی تیاری کے لئے سب ملاقاتیں کر رہی ہے۔  
 اس سے پہلے کہ یہ لڑائی بڑھتی اور جماعت اسلامی کی جانب سے جواب دیا جاتا۔ اور جواب کے لئے ٹی وی چینلز بار بار منصورہ اور سراج الحق صاحب کو فون کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی سے امیر العظیم نے تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ کرنا مناسب جانا کہ یہ معلوم تو ہو سکے کہ عمران خان نے یہ بیان کیوں دیا۔ جب امیر العظیم نے تحریک انصاف کی قیادت سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے سراج الحق صاحب نے عمران خان کے خلاف بیان دیا ہے ۔ عمران خان نے تو اس کا جواب دیا ہے۔جس پر امیر العظیم نے تحریک انصاف کی قیادت کو بتایا کہ یہ غلط خبر ہے اور سراج الحق صاحب نے ایسی کوئی بات نہیں کی۔ جماعت اسلامی توپہلے ہی اس خبر کی تردید کر رہی ہے۔ امیر العظیم نے تحریک انصاف سے گلہ کیا کہ وہ بیان دینے سے پہلے جماعت اسلامی سے تصدیق تو کر لیتے ۔ جس کا بہر حال تحریک انصاف کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس طرح اب سراج الحق اور عمران خان کے درمیان سیز فائر ہو گیا ہے۔ اور عمران خان اب دوبارہ کوئی بیان نہیں دیں گے۔ اور سراج الحق بھی در گزر سے کام لیں گے۔
گلو بٹ کو معاشرہ کی نفرت ملی ہے۔ لیکن ایک عام رائے یہ بن رہی ہے کہ سزا جرم سے زیادہ ہے۔ صرف گاڑیا ں توڑنے کی سزا اتنی زیادہ کیسے ہو سکتی ہے؟ گلو بٹ سے نفرت اپنی جگہ لیکن انصاف اپنی جگہ ۔ کیا اس کے بعد اب ملک میں گاڑی توڑنے کی سزا یہی ہو گی۔ اکثر کے جلوسوں میں طلباءگاڑیاں توڑتے ہیں ۔ بسیں جلا دی جاتی ہیں۔ کیا اب ان سب کو بھی یہی سزا ملے گی؟
سابق کرکٹر عبد القادر کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ چیف سلیکٹر معین خان کو یونس خان سے معافی مانگنی چاہئے۔ اس میں کوئی بری بات نہیں ہے۔ یونس خان نے معین خان کے لئے بھاگنے کے تمام راستے بند کر دئے ہیں اس لئے اب ان کے پاس معافی مانگنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ ایک اچھی مثال ہوگی۔  

مزید :

کالم -