جوڈیشل کمشن میں شامل وکلاءنمائندوں کے ہائی کورٹس کے ایڈیشنل ججوں کے سامنے پیش ہونے پر پابندی کی تجویز
لاہور(نامہ نگار خصوصی)پاکستان بار کونسل کے رکن ممتاز قانون دان راحیل کامران شیخ نے جوڈیشل کمشن میں شامل وکلاءنمائندوں کے ہائی کورٹس کے ایڈیشنل ججوں کے سامنے پیش ہونے پر پابندی کی تجویز پیش کردی ۔بیرسٹر راحیل کامران شیخ نے پاکستان بار کونسل کے ارکان کو ایک مراسلہ بھیجا ہے جس میں ججوںکے تقرر سے متعلق جوڈیشل کمشن کے حوالہ سے مختلف تجاویز پیش کی گئی ہیں ۔مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان بار کونسل کے رکن یاسین آزاد کی جوڈیشل کمشن کی رکنیت کی میعاد 18مئی 2017ءکو ختم ہورہی ہے ،انہوں نے ہائی کورٹس میں ایڈیشنل ججوں کے تقرر اور ان کی کنفرمیشن کے حوالے سے جنوری2016ءسے کبھی پاکستان بار کونسل کو اعتماد میں نہیں لیا ۔اعلیٰ عدلیہ میں ججوںکے تقررکا عمل شفاف بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جوڈیشل کمشن کے لئے نامزد ہونے والا پاکستان بار کونسل کا رکن سیاسی دھڑا بندیوں سے آزاد ہو کر اپنے فرائض انجام دے ۔مراسلہ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ جوڈیشل کمشن کے ممبر کوپاکستان بار کونسل کے ارکان دو تہائی اکثریت سے نامزد کریں اور اس سلسلے میں بار کونسل کے رولز میں مناسب ترمیم کی جائے۔
بیرسٹر راحیل کامران شیخ کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمشن میں پاکستان بار کونسل کے نمائندہ کے لئے ضروری قرار دیا جائے کہ وہ ہائی کورٹس میں بطور جج تقرر کے لئے مجوزہ نام پاکستان بار کونسل کے ارکان کے سامنے لائیں اور اگر دو تہائی ارکان کسی مجوزہ نام کو اہلیت اورساکھ کی بناءپر مسترد کردیں تو اسے جوڈیشل کمشن کے سامنے رکھا جائے ۔مراسلہ میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹس کے ایڈیشنل ججوں کی کنفرمیشن کے معاملہ پر اہم کردار کے پیش نظر جوڈیشل کمشن میں بارکونسل کا متعلقہ رکن بطور وکیل ایڈیشنل ججوں سے ریلیف حاصل کرسکتا ہے ،اس لئے شفافیت کا تقاضہ ہے کہ یہ رکن ایڈیشنل ججوں کے سامنے پیش نہ ہو اور اس سلسلے میں پاکستان بار کونسل جوڈیشل کمشن میں نامزد کئے جانے والے اپنے رکن سے یقین دہانی حاصل کرے کہ وہ ایڈیشنل ججوں کی عدالتوںمیں پیش نہیں ہوں گے ۔راحیل کامران شیخ نے پاکستان بار کونسل پر زور دیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے تعمیری کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ،اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کے حوالے سے متعلقہ وکلاءکی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لئے ان کے مقدمات کی مجموعی تعداد کے علاوہ کامیاب کیسز اور قانون کی کتابوں میں رپورٹ کئے جانے والے فیصلوں کا شمار بھی کیا جانا چاہیے۔
بڑے وکلاءکے چیمبرز میں کام کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی برتاﺅ نہیں ہونا چاہیے،اس سلسلے میں معلومات کے حصول کے لئے غیر متنازع اور مثبت طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے ،انہوںنے اپنے مراسلہ میں کہا ہے کہ بار کونسلوں کو جوڈیشل کمشن سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ ہائی کورٹس میں ججوں کا تقرر کرتے وقت ایک تہائی جج ماتحت عدلیہ میں سے لئے جائیں ،اس سلسلے میں سیشن ججوں کے فیصلوں کے علاوہ اس بات کو بھی پیش نظر رکھا جائے کہ اعلیٰ عدالتوں نے ان کے کتنے فیصلوں کو برقرار رکھا ہے ۔وکلاءکو ماتحت عدالتوں کے ججوں میں یہ امید جگانی چاہیے کہ وہ نہ صرف ہائی کورٹس بلکہ سپریم کورٹ کے جج بھی تعینات ہوسکتے ہیں ۔ہمیں یادر کھنا چاہیے کہ مستقبل میں قانون کی حکمرانی اور وکالت کے پیشہ کا انحصار ججوں کے تقرر کے حوالہ سے ہمارے تعمیری کردار میں مضمر ہے۔انہوں نے بار کونسل سے کہا ہے کہ جوڈیشل کونسل میں بار کونسل کے نمائندہ کے طور پر نامزدگی کے لئے 15اپریل کو بلائے گئے اجلاس میں ان تجاویز کو زیر غور لایا جائ