پاکستان کی تاریخ کا شرمناک ترین سکینڈل ، عزت کی قیمت 50روپے ، والدین بچوں کی عزت بچانے کیلئے سب کچھ لٹا بیٹھے، تہلکہ خیز انکشافات

پاکستان کی تاریخ کا شرمناک ترین سکینڈل ، عزت کی قیمت 50روپے ، والدین بچوں کی ...
پاکستان کی تاریخ کا شرمناک ترین سکینڈل ، عزت کی قیمت 50روپے ، والدین بچوں کی عزت بچانے کیلئے سب کچھ لٹا بیٹھے، تہلکہ خیز انکشافات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گنڈا سنگھ والا،قصور (خصوصی رپورٹ / مانیٹرنگ ڈیسک/ زاہد علی خان، شعیب بھٹی، شیخ محمد حسین، تصاویر عمر شریف) چند سال قبل لاہور میں جاوید اقبال نامی سفاک شخص کے ہاتھوں 100بچوں کے ساتھ زیادتی اور قتل کے سکینڈل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن گزشتہ دنوں قصور کے نواحی علاقے گنڈا سنگھ والا اور دیگر دیہاتوں میں اس سے بھی 3گنا بڑا سکینڈل منظرعام پر آ گیا ہے،جس میں مبینہ طور پر 20 سے 25 افراد کے گروپ نے گذشتہ سال کے دوران 280سے زائد نوعمر لڑکوں اورلڑکیوںکو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اوران کی 400 سے زائد ویڈیوز بنا لیں، ملزمان جہاں بچوں کواپنی ہوس کا نشانہ بناتے رہے، وہیں انہیں اسلحے کے زور پر ایک دوسرے سے بدفعلی کرنے پر بھی مجبور کرتے رہے۔بعد ازاں ملزمان یہ ویڈیوز 50،50روپے کے عوض گاﺅں حسین خانوالا میں فروخت کیں۔ ملزمان نے اسی گاﺅں حسین خانوالہ میں سکول جانے والی لڑکیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ یہ گینگ ویڈیوز کے ذریعے بچوں کے گھر والوں کو بلیک میل کر کے ان سے بھتہ وصول کرتا رہا اور متاثرہ بچوں کو گھر سے زیورات اور نقدی چوری کرکے لانے پر بھی مجبور کرتا رہا۔35 سالہ ثریا بی بی نے اپنے 14 سالہ بیٹے کی ویڈیو کو ختم کرانے کے لیے اپنا زیور بیچ کر بلیک میلرز کو 60 ہزار روپے ادا کئے۔ ثریا بی بی نے بتایا کہ ملزموں نے 2011ءمیں میرے بیٹے کی ویڈیو بنائی اور ہم چار سال سے انہیں رقم ادا کر رہے ہیں۔ ہمارا دل کرتا ہے کہ خود کو آگ لگالیں۔

ایک اور دیہاتی نے الزام لگایا کہ اس گھناﺅنے عمل کے ملزم یہ ویڈیو بنا کر برطانیہ، امریکہ اور یورپ میں فروخت کرتے ہیں۔ ایک متاثرہ بچے کے مطابق اس شرمناک سکینڈل میں تنزیل الرحمن، عتیق الرحمن، محمد یحییٰ، نسیم شیرازی وغیرہ شامل ہیں اور اس نے شیرازی کو سکائپ پر کسی سے بچوں کی ویڈیوز اور اس کے بدلے رقوم کی بات کرتے ہوئے سنا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان بیرون ملک یہ ویڈیوز فروخت کرکے رقم کما رہے تھے۔

ڈی پی اوقصور بابر سعید نے انگریزی روزنامہ”دی نیشن“ کو بتایا کہ متاثرین کی شکایات پر ہم نے اب تک 6 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ 5 جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور ایک نے قبل از گرفتاری ضمانت کرا رکھی ہے۔ پولیس نے ثبوت کیلئے ویڈیوز ضبط کر لی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ ویڈیوز کس مقصد کے لیے بنائی گئیں اور ملزمان کا ایجنڈا کیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ مقامی ایم پی اے کے دبا? پر پولیس نے 50 لاکھ روپے لے کر کیس کے مرکزی ملزم کو رہا کر دیا ہے اور مقامی سیاستدان متاثرہ افراد پر کیس واپس لینے کے لیے دبا? بھی ڈال رہے ہیں۔

انگریزی اخبار کے مطابق درجنوں دیہاتیوں نے قصور پریس کلب کے سامنے گزشتہ روز احتجاج کا پروگرام بنایا مگر کوئی صحافی کوریج کے لیے نہیں آیا۔ ایک مقامی رپورٹر نے بتایا کہ پولیس نے درخواست کی تھی کہ قومی مفاد میں اس شرمناک واقعے کی کوریج نہ کی جائے۔ ایک اور متاثرہ بچے کے مطابق اس کی ماں نے ایک سال قبل گنڈا سنگھ والا پولیس سے رابطہ کیا مگر اسے خاموش کرا دیا گیا۔ گنڈا سنگھ پولیس نے یکم جولائی کو تین اور 6 جولائی کو ایک ایف آئی آر درج کی۔ان ایف آئی آرز میں 15 افراد کو ملزم نامزد کیا گیا تھا جن میں5 سرکاری ملازم تھے، ان پانچوں افراد نے ضمانت کرا لی ہے۔

ایک دیہاتی نے”دی نیشن“ کو بتایاکہ ملزمان کی سفاکیت کے خلاف مظاہرے کا اہتمام کرنے پر مجھے قتل کرنے کی دھمکیاں دی گئی۔ جمعرات کی رات جب میں لاہور سے گھر واپس آ رہا تھا، راستے میں مجھے پولیس نے گرفتار کر لیا اور میرے موبائل فون سے مظاہرے کے منتظمین کوبتایا کہ اگلے روز(جمعہ کو)ہونے والا مظاہرہ ملتوی کر دیا گیا ہے۔پولیس نے انہیں کہا کہ تمام دیہاتیوں کو کہہ دیں کہ کوئی بھی مظاہرے میں شرکت کے لیے نہ آئے۔

روزنامہ پاکستان کے رپورٹرز نے حقائق کا پتہ لگانے کیلئے جب وہاں کا دورہ کیا تو متاثرہ بچے اور ان کے والدین پھٹ پڑے اور اپنی غم داستان بیان کرنے لگے اور یہ انکشاف ہوا کہ بداخلاقی کے شکار نوعمر لڑکے اور لڑکیوں کی تعداد 300 سے زائد ہے۔ بچوں سے بداخلاقی کے بعد ان کی نازیبا ویڈیو بنا کر نہ صرف انہیں بلیک میل کر کے ان سے رقوم ہتھیائی جاتیں بلکہ ایسی ویڈیوز بعد ازاں بیرون ملک بھی بھیج دی جاتی تھیں۔ روزنامہ پاکستان کی رپورٹنگ ٹیم کو گاﺅں کے افراد نے بتایا کہ ان کے بچوں کو نشہ آور انجکشن لگا کران کے ساتھ بداخلاقی کی جاتی اور ان کی نازیبا ویڈیو بنائی جاتی تھیں بعد ازاں ملزم ان کو بلیک میل کرتے اور گھر سے زیورات اور نقدی چوری کرنے پر مجبور کرتے تھے، اس طرح ملزموں نے چند سال کے دوران ان سے مجموعی طور پر 8 کروڑ روپے ہتھیا لئے۔
آر پی او شیخوپورہ شہزاد سلطان نے اس واقع پر پولیس افسروں پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایس ایچ او گنڈا سنگھ مہر محمد اکمل کو فوری طور پر معطل کر کے دیگر ذمہ دار افسران کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا ہے جبکہ ایس پی انویسٹی گیشن ندیم عباس کی سربراہی میں ایک ٹیم بنا دی ہے۔ دلخراش واقعہ کے بارے میں رپورٹنگ ٹیم کو جو انکشافات سامنے آئے ہیں اس کے مطابق نواحی گاﺅں حسین خانوالہ سمیت بگا اور روحی نالے گاﺅں کے بھی نوعمر لڑکوں اور طالبان کو گن پوائنٹ پر اغواءکر کے اپنے ڈیرے پر لے جاتے جہاں انہیں نشہ آور انجکشن لگا کر ان سے بداخلاقی کرتے اور ان کی برہنہ ویڈیوز بناتے اور ان کو گھر سے زیورات، نقدی اور دیگر قیمتی اشیاءمنگواتے اور ان کو ترغیب دیتے کہ اپنے دوستوں کو بھی لے کر آئیں ورنہ ان کی ویڈیوز ان کے گھر والوں کو دینے کیساتھ ساتھ انٹرنیٹ پر بھی اپ لوڈ کر دیں گے۔

رپورٹنگ ٹیم کو گاﺅں کے معززین اوربد اخلاقی کا نشانہ بننے والے بچوں کے والدین اور دیگر رشتہ داروں نے بتایا کہ یہ گھناﺅنے واقعات حسین خانوالہ میں گزشتہ 5 سال سے جاری ہیں۔ اس فعل میں 300 سے زائد لڑکے اور مقامی ہائی سکول کی طالبات کو بداخلاقی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پولیس کا کردار ان سے اچھا نہیں رہا جبکہ جس ملزم کے بارے میں ہم لوگ پولیس کو اطلاع دیتے پولیس انہیں گرفتار نہیں کرتی تھی بلکہ کئی لوگوں کو رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا۔ ایک مقدمہ کے مدعی محمد اکرم نے بتایا کہ ملزم کافی اثر و رسوخ والے ہیں اور گاﺅں میں غلط کام کرنے کے باوجود وہ انہیں یہ کہہ کر دھمکیاں دیتے تھے کہ ہمارے بارے میں پولیس کو اطلاع دینے والے کو قتل کر دیں گے۔
اکرام نے مزید بتایا کہ ملزموں کا باقاعدہ ایک گروہ ہے جن کے پاس جدید اسلحہ بھی ہے جو اکثر اوقات لہراتے رہتے تھے۔ گاﺅں کے ایک معزز شخص مبین نے بتایا کہ اس گھناﺅنے فعل کے خلاف گاﺅں کے لوگوں نے احتجاج بھی کیا لیکن ان کی آواز اعلیٰ حکام تک نہ پہنچ سکی۔ اس نے مزید بتایا کہ وہ ملزموں کے بارے میں پولیس کو آگاہ کرتا رہا مگر اس کے باوجود پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی، مبین نے یہ بھی بتایا کہ ہم نے کچھ روز قبل بہت بڑا احتجاج کیا مگر پولیس نے ہماری بات سننے کے بجائے الٹا ہمارے خلاف ہی مقدمہ درج کرل یا جس میں سنگین دفعات شامل کی گئیں۔ اس نے مزید بتایا کہ بااثر ملزموں کے سامنے کوئی نہیں بولتا اور ہم انشاءاللہ ان بچوں کو انصاف دلوائیں گے۔ گاﺅں ایک شخص بشیر نے بتایا کہ گاﺅں کے لوگ بااثر ملزموں سے سخت پریشان ہیں اور گاﺅں میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ لوگ اپنے بچوں کو شہروں میں منتقل کر رہے ہیں۔ پولیس نے گنڈا سنگھ والا تھانہ میں 7 مقدمات جن میں بداخلاقی سمیت دیگر دفعات کے تحت عامر، نسیم، وقاص، شفی، عتیق، شیرازی، یحییٰ وغیرہ کے نام بھی شامل ہیں اور پولیس ان کے بارے میں تحقیقات کر رہی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ نجی ٹی وی چینل جیو اور سماءنے ملکی تاریخ کے شرمناک ترین سکینڈل کو دو گروہوں کے درمیان زمین کا تنازعہ قرار دے کر اسے بالکل ہی نیا رنگ دینے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ سکینڈل نہیں ہے بلکہ ایک گروپ نے پولیس پر گرفتاری کا دباﺅ ڈالنے کیلئے یہ ڈرامہ رچایا ہے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ بھی نجی ٹی وی سماءکی ”غیر یقینی حقائق“ پر مبنی رپورٹنگ کی تعریف کرتے نہیں تھکے بلکہ انہوں نے دیگر چینلز کو بھی مشورہ دیا کہ وہ اسی طرح کی ”ذمہ داری“ کا مظاہرہ کریں۔ متاثرین اور عوام نے ٹی وی چینلز کی بے بنیاد رپورٹنگ پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ اگر یہ معاملہ دو گروہوں کے درمیان زمین کا تنازعہ کا ہے تو کون سا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ معصوم بچوں کی عزتوں کے ساتھ کھلواڑ کر کے ناصرف ان کا مستقبل داﺅ پر لگا دیا جائے بلکہ ان کے والدین کا سر بھی معاشرے میں شرم سے جھکا دیا جائے؟ متاثرین اور عوام نے حکام بالا سے اس سکینڈل کا سخت نوٹس لینے اور ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کیساتھ ساتھ بے بنیاد حقائق پر مبنی رپورٹنگ کرنے والے ٹی وی چینلز کے خلاف بھی کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔