داعش میں شمولیت کیلئے کیا بات کہی گئی کہ سن کر فوری تیار ہوگیا؟ عرب ملک میں پکڑے جانے والے داعش کے کارکن نے ایسا راز بے نقاب کردیا کہ جان کر مسلمانوں کی پریشانی کی حد نہ رہے گی

داعش میں شمولیت کیلئے کیا بات کہی گئی کہ سن کر فوری تیار ہوگیا؟ عرب ملک میں ...
داعش میں شمولیت کیلئے کیا بات کہی گئی کہ سن کر فوری تیار ہوگیا؟ عرب ملک میں پکڑے جانے والے داعش کے کارکن نے ایسا راز بے نقاب کردیا کہ جان کر مسلمانوں کی پریشانی کی حد نہ رہے گی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

بغداد (مانیٹرنگ ڈیسک) شدت پسند تنظیم داعش کے بارے میں عمومی طور پر سمجھا جاتا ہے کہ یہ نوجوانوں کو مذہبی اور خصوصاً جہادی ترغیبات دے کر اپنا حصہ بناتی ہے لیکن عراقی شہر موصل میں پکڑے جانے والے اس کے ایک رکن کے انکشافات سے پتہ چلا ہے کہ مجبوریاں اور بلیک میلنگ نوجوانوں کو اس تنظیم کی جانب راغب کرنے میں اہم ترین کردار ادا کررہے ہیں۔

اس خالی شہر میں 36 سال قبل ایک ایسا خوفناک واقعہ پیش آیا کہ ہر شہری یہاں سے بھاگ گیا اور پھر کبھی کوئی واپس نہ آیا
اخبار دی مرر کی رپورٹ کے مطابق کرد جنگجوﺅں نے موصل کے شمال میں داعش کے ایک ٹھکانے پر حملہ کیا تو وہاں ان کا سامنا کرنے والے جنگجوﺅں میں 20 سالہ نوجوان ولید اسماعیل بھی شامل تھا جو اس تنظیم میں شامل ہونے سے پہلے اپنی بیکری چلاتا تھا۔ ولید اسماعیل کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے ساتھیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لئے کہا لیکن ان میں سے ایک نے ہینڈ گرنیڈ چلادیا جس کے نتیجے میں اس کے پانچ ساتھی ہلاک ہوگئے جبکہ باقیوں کو کرد جنگجوﺅں نے مار ڈالا۔ اس حملے میں وہ واحد بچ جانے والا شخص تھا۔
ولید اسماعیل سے جب تفتیش کی گئی تو اس نے انکشاف کیا کہ وہ داعش میں مذہبی جذبات یا جہاد کے لئے شامل نہیں ہوا تھا بلکہ عراقی حکومت کی ناانصافیوں اور داعش کی بلیک میلنگ نے اسے اس تنظیم کا حصہ بننے پر مجبور کیا۔ اس نوجوان کا کہنا تھا کہ وہ عراقی حکومت کی جانب سے اپنے سنی مکتبہ فکر کے عوام پر ہونے والے مظالم پر مشعل تھا۔ پھر ایک دن داعش کا سربراہ ابوبکر البغدادی موصل کی ایک مسجد میں نمودار ہوا اور لوگوں کو حکومت کے ظلم سے نجات دلانے کا اعلان کیا۔ ولید کا کہنا تھا کہ وہ بھی ان نوجوانوں میں شامل تھا جو سماجی و معاشی حالات سے تنگ تھے۔ حکومت نے اس کی بیکری بند کردی تھی اور اس کے لئے گزراوقات ناممکن ہوچکی تھی۔ ایسی صورتحال میں داعش نے دھمکی دی کہ اگر وہ ہتھیار اٹھانے کے لئے تیار نہیں ہو گا تو یہ کام اس کے 14 سالہ بیٹے سے لیا جائے گا، جس کے بعد اس کے لئے ہاں کہنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔
اسی طرح داعش کے ایک اور گرفتار ہونے والے رکن ہاظم صالح نے بتایا کہ عراقی حکومت نے اس کے تین بھائیوں کو اغوا کیا اور ان پر ظالمانہ تشدد کیا۔ ان تینوں کو الٹا لٹکایا گیا اور محض اس لئے ظلم وبربریت کا نشانہ بنایا گیا کہ ان کا تعلق مخالف مکتبہ فکر سے تھا۔ ہاظم کا کہنا تھا کہ وہ اپنے بھائیوں پر ہونے والے ظلم کی وجہ سے داعش میں شامل ہوا تاکہ عراقی حکومت سے بدلہ لے سکے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ انکشافات واضح کرتے ہیں کہ کس طرح شدت پسند تنظیموں کے خاتمے کے لئے معاشرے میں سماجی انصاف اور فرقہ وارانہ اختلافات کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔ ان مسائل کو حل کئے بغیر شدت پسند تنظیموں کے خلاف محض طاقت کا استعمال صرف ان کی حمایت میں اضافہ کرتا ہے۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -