’اس میں 1000 مردوں جتنی طاقت ہے‘ حلب کے لوگ اس مقامی لڑکی کے بارے میں یہ جملہ کیوں کہتے ہیں؟ جان کر آپ بھی اس کی ہمت اور جذبے کی داد دیں گے

’اس میں 1000 مردوں جتنی طاقت ہے‘ حلب کے لوگ اس مقامی لڑکی کے بارے میں یہ جملہ ...
’اس میں 1000 مردوں جتنی طاقت ہے‘ حلب کے لوگ اس مقامی لڑکی کے بارے میں یہ جملہ کیوں کہتے ہیں؟ جان کر آپ بھی اس کی ہمت اور جذبے کی داد دیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

دمشق(مانیٹرنگ ڈیسک) شام کا میدان جنگ بنا شہر حلب بدترین انسانی بحران کا شکار ہو چکا ہے۔ بالخصوص شہر کا مشرقی حصہ، جو شدت پسندوں کے قبضے میں ہے، میں رہنا موت کو گلے لگانے کے مترادف ہے جہاں سے ڈاکٹربھی جان بچا کر نکلنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ایسے میں ایک بہادر خاتون ڈاکٹر اپنی 8سالہ بیٹی کے ہمراہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ اس باہمت اور دلیر خاتون کا نام ڈاکٹر فریدہ ہے جسے اس کے ساتھی ورکرز اور آس پاس کے رہائشیوں نے ”ایک ہزار مردوں سے زیادہ مضبوط خاتون“ قرار دیا ہے۔میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق مشرقی حلب سے آج سے دو ماہ قبل تمام ڈاکٹر نکل گئے تھے لیکن ڈاکٹر فریدہ اپنی بیٹی کے ساتھ اب تک وہیں موجود ہے۔ وہ روزانہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر ہسپتال پہنچتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہر طرف بمباری ہو رہی ہے، ایسے میں بیٹی کو سکول بھیجنا موت کے منہ میں بھیجنے کے مترادف ہے۔ڈاکٹر فریدہ ماہرامورزچگی ہے اور روزانہ کئی حاملہ خواتین کی مسیحائی کر رہی ہے۔

2016ءمیں داعش کے 100جنگجوﺅں کو ہلاک کرنے والی اس لڑکی کی تصویر بہت وائرل ہوئی لیکن حقیقت کیا ہے؟ جان کر آپ بھی چکراجائیں گے
رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر فریدہ کا کہنا ہے کہ ”میرا کام میری زندگی ہے۔ میں دنیا میں آنے والے ننھے بچوں کو دیکھے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔“رواں ماہ بشارالاسد کی فوج اور اس کی معاون افواج کی بمباری سے ڈاکٹر فریدہ کا گھر تباہ ہو گیا تھا لیکن خوش قسمتی سے وہ اس وقت گھر میں موجود نہیں تھی۔ اس نے اپنے ہمسائے میں ایک خالی گھر میں اس امید میں 2چوزے بھی پال رکھے ہیں کہ وہ ایک دن مرغیاں بنیں گی اور انڈے دیں گی جو وہ اپنی بیٹی کو کھلائے گی۔ وہ روزانہ 10سے 15خواتین کی ڈلیوری کر رہی ہے۔ ان نومولودوں کو ایک خطرناک مستقبل کا سامنا ہے۔ ان میں سے اکثر کے باپ ہی زندہ نہیں رہے۔ ڈاکٹر فریدہ کا مزید کہنا تھا کہ ”جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ان کا پہلا رونا اور پھر انہیں دیکھ کر ان کی ماﺅں کے چہروں پر آنے والی مسکراہٹ مجھے حلب سے نہیں نکلنے دیتی۔ بشارالاسد کی فوج چاہتی ہے کہ حلب میں زندگی رک جائے اور تمام لوگ یہاں سے نکل جائیں۔ خواتین کی ہیلتھ کیئر رک گئی تو وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گی اور اگر خواتین یہاں سے گئیں تو ان کے اہلخانہ بھی نکل جائیں گے اور پھر یہ شہر نیست و نابود ہو جائے گا۔ میرے دبئی اور قطر میں مقیم دوست کہتے ہیں کہ میں ان کے پاس چلی جاﺅں لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو پھر میں بھی ایک عام ڈاکٹر بن جاﺅں گی، جو میں قطعاً نہیں بننا چاہتی۔مجھے ہر حال میں یہیں رہنا ہے اور یہاں لوگوں کی مدد کرنی ہے۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -