پاکستانی معاشرے کا شرمناک پہلو برطانوی میڈیا سامنے لے آیا

پاکستانی معاشرے کا شرمناک پہلو برطانوی میڈیا سامنے لے آیا
پاکستانی معاشرے کا شرمناک پہلو برطانوی میڈیا سامنے لے آیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پشاور (مانیٹرنگ ڈیسک) اگرچہ سارے ملک میں ہی بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی عام ہے لیکن کچھ مخصوص شہر نوبچوں کے ساتھ جنسی ظلم کے اڈوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ نیوز ویب سائٹ ”میل آن لائن“ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے طول و عرض میں گلیوں میں لاوارث پھرنے والے بچوں کو بدترین جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور ان میں سرفہرست وہ شہر ہے کہ جو تبدیلی کا دعویٰ کرنے والی ایک سیاسی جماعت کی حکومت کا دارالخلافہ ہے۔ اس شہر کی سڑکوں پر پھرنے والے بے گھر بچوں میں سے تقریباً 90 فیصد کو روزانہ کی بنیاد پر جنسی ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس بھیانک جرم کا نشانہ بننے والوں میں 8 سے 10 سال عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔ پشاور شہر کا سب سے بڑا بس اڈا معصوم بچوں کے ساتھ جنسی ظلم کے بڑے اڈوں میں سے ایک ہے جہاں بس ڈرائیوروں اور کنڈکٹروں کو 50 یا 100 روپے میں نوعمر لڑکے کرائے پر دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ انہیں دردنگی کا نشانہ بناسکیں۔ ان بچوں کی اکثریت نشے اور خصوصاً ہیروئن کا شکار ہوچکی ہے اور اکثر انہیں نشے کے بدلے اپنا جسم بیچنا پڑتا ہے۔
اعجاز نامی ایک بس کنڈکٹر نے اعتراف کیا کہ وہ 12 نوعمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرچکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اس شہر میں یہ آسان ترین کام ہے کہ آپ کسی نوعمر لڑکے کو پکڑ کر سوپچاس روپے کے بدلے اس کی عزت سے کھیلیں اور اگر آپ کے پاس کوئی رقم نہیں بھی ہے تو زبردستی اپنی ہوس پوری کرلیں کیونکہ یہاں جنسی درندوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔
یہاں کئے گئے ایک سروے میں 1800 لوگوں میں سے بھاری اکثریت نے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا اعتراف کیا اور 600 نے تو یہ بھی کہا کہ یہ کوئی جرم یا غلط بات نہیں ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ایک طرف تو حکومت کے تبدیلی کے دعوے آسمانوں کو چھورہے ہین اور دوسری طرف شہر بچوں کے خلاف جنسی دردنگی کا جنگل بن چکا ہے۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -