70ءکی دہائی میں افغانستان کیسا تھا اور لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے؟ ایسی تصاویر منظر عام پر آگئیں کہ آپ بھی حیرت کے مارے بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے

70ءکی دہائی میں افغانستان کیسا تھا اور لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے؟ ایسی تصاویر ...
70ءکی دہائی میں افغانستان کیسا تھا اور لوگ کیسی زندگی گزارتے تھے؟ ایسی تصاویر منظر عام پر آگئیں کہ آپ بھی حیرت کے مارے بس دیکھتے ہی رہ جائیں گے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کابل(مانیٹرنگ ڈیسک)آج کے افغانستان کو دنیا جنگ و جدل اور قتل و غارت گری کے حوالوں سے پہچانتی ہے لیکن یہ ملک بھی کبھی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا اور یہاں کے لوگ بھی پرامن زندگی گزارا کرتے تھے۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق ایک فرانسیسی سیاح فرینکوئس پومیری نے 1969ءاور 1974ءمیں افغانستان کے 2دورے کیے، افغان معاشرے کی تصاویر بنائیں، وہاں کے لوگوں سے گفت و شنید کی۔ اب فرینکوئس نے وہ تصاویر اور افغانیوں سے ملاقاتوں کا تجربہ دنیا کے ساتھ شیئر کیا ہے جسے سننے والے کانوں کو اس پر اعتبار کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ فرینکوئس کا کہنا ہے کہ ”اس دور میں افغانستان مسحور کن نظاروں کا ملک تھا اور اس کے شہری غیرملکی سیاحوں کا کھلے دل سے استقبال کرنے، ان سے بات کرکے اور تصاویر بنوا کے خوش ہونے والے لوگ تھے۔ میں نے پہلی بارفرانس سے افغانستان کا سفر لوگوں سے لفٹ لے کر کیا تھا اور بالکل مفت وہاں تک پہنچا تھا۔ میرے کچھ دوست 1965ءمیں افغانستان جا چکے تھے اور انہوں نے بتایا تھا کہ نورستان کا خطہ بہت خوبصورت ہے۔انہیں یہاں سے واپس بھیج دیا گیا تھا کیونکہ یہاں داخلے کے لیے خصوصی اجازت درکار ہوتی تھی۔ ان سے اس ملک کی تعریف سننے کے بعد میں نے اس کی سیاحت کا فیصلہ کیا۔ میں لفٹ لے کر اور بہت سی وادیاں پیدل عبور کرکے یہاں تک پہنچا۔“

کیا آپ کو معلوم ہے دنیا بھر میں فحش فلموں کی صنعت کا مرکز یہ بہت چھوٹا سا شہر ہے؟ کونسا شہر ہے اور کہاں واقع ہے؟ جواب ایسا کہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا
فرینکوئس کا مزید کہنا تھا کہ ”نورستان کے لوگوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ سکندراعظم کی آل اولاد ہیں اور ان میں سے اکثر کے بال سنہرے اور آنکھیں نیلی ہوتی ہیں۔ یہ 6ہزار فٹ کی بلندی پر لکڑی کے بنے گھروں جھونپڑی نما گھروں میں رہتے تھے۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ نورستان بلند پہاڑی سلسلے کا حامل خطہ ہے اور وہاں پہنچنا بہت مشکل ہے لیکن میں باآسانی وہاں تک پہنچ گیا تھا۔ وہاں کے لوگ انتہائی کھلے دل کے اور غیرملکیوں کا کھلے بازوﺅں سے استقبال کرنے والے تھے۔ تین دل پیدل چلنے کے بعد میں ویگل(Waigal)نامی گاﺅں میں پہنچا، میرے ساتھ ایک اور فرانسیسی شخص بھی تھا جو مجھے راستے میں ملا تھا۔اس گاﺅں کے سربراہ نے ہمارا استقبال کیا اور سیاحوں کے لیے مخصوص ایک جگہ پر ہمارے رہنے کا انتظام کیا اور ہماری مہمان نوازی کی۔“

’اوئے کچھ کر گزر‘ پاکستان کی پہلی آن لائن فلم
1974ءمیں فرینکوئس دوبارہ افغانستان آیا لیکن اس بار اس کی بیوی اورکچھ دوست بھی ہمراہ تھے اور اس بار اس نے پیدل اور لفٹ لینے کی بجائے لینڈروور پر سفر کیا تھا۔ اس نے میل آن لائن کو بتایا کہ ”اس بار ہم ایک مہینہ وہاں رکے۔ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا، بس یہاں کے وزیراعظم نے بادشاہ کی حکومت ختم کر دی تھی۔ اس بار ہم بامیان کے علاقے میں ٹھہرے تھے جہاں بدھا کا بہت بڑا مجسمہ پہاڑ کے درمیان تراشا گیا تھا۔ یہاں کے لوگ ہمیں ”فرانسیسی ڈاکٹر“ کہہ کر پکارتے اور ہم سے اپنے زخموں اور بیماریوں کا علاج کرنے کو کہتے تھے۔ ہم اپنے پاس موجود کریمیں اور مرہم ان کے زخموں پر لگا دیتے جس پر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ انہیں تصاویر بنوانا بھی بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ بخوشی کیمرے کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور تصاویر بنواتے تھے۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -