بظاہر معصوم نظر آنے والی یہ نوجوان پاکستانی لڑکی دراصل کون خطرناک ترین شخصیت ہے؟جان کر آپ کے بھی پیروں تلے زمین نکل جائے گی
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) شام و عراق میں برسرپیکار شدت پسند تنظیم سے منسلک اُم المثنیٰ البرطانیہ نامی لڑکی سوشل میڈیا کے ذریعے کثیر تعداد میں لڑکیوں کو ورغلا کر شام جانے اور ان کو داعش کے ارکان سے شادی کرنے کیلئے اکساتی ہے۔ اب تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ اُم المثنیٰ البرطانیہ دراصل کون ہے مگر اب برطانوی اخبار ڈیلی میل نے اس راز سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ ام المثنیٰ کا اصل نام طوبیٰ گوندل ہے اور وہ مشرقی لندن کی رہنے والی ہے۔ اس کا باپ ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور کامیاب کاروباری شخص ہے۔ 22سالہ طوبیٰ گوندل نے مشرقی لندن میں ہی سکول کی تعلیم حاصل کی اور کالج کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر شام چلی گئی اور داعش میں شمولیت اختیار کر لی۔ تب سے وہ سوشل میڈیا پر بہت زیادہ متحرک ہے۔ اس کے فالوورز میں اکثریت لڑکیوں کی ہے جنہیں وہ شام میں آنے اور جہادی دلہن بننے کی ترغیب دیتی آ رہی ہے اور اب تک کئی لڑکیاں اس کے پراپیگنڈے کے زیراثر شام جا بھی چکی ہے۔
رپورٹ کے مطابق اپنے آن لائن پراپیگنڈے میں وہ برطانیہ کو غلیظ اور فحش ملک قرار دیتی ہے اور پیرس حملے جیسی کارروائیوں کی تعریف کرتی ہے۔ پیرس حملے کے بعد اس نے اپنے سوشل میڈیا اکاﺅنٹ پر لکھا تھا کہ ”کاش میں وہاں موجود ہوتی اور ان لوگوں کو قتل ہوتے ہوئے دیکھ سکتی۔ وہ منظر کتنا خوبصورت ہوتا۔“ وہ سوشل میڈیا پر مختلف ناموں سے اکاﺅنٹس چلاتی رہی ہے۔ گزشتہ سال مئی میں وہ فاطمہ کے نام سے ایک برطانوی لڑکی کو شام آ کر داعش میں شامل ہونے پر اکسا تی رہی۔ طوبیٰ نے اس برطانوی لڑکی کو اپنی ہی ایک 16سالہ رشتہ دار لڑکی کو بھی ساتھ لانے کو کہا۔ طوبی نے اس برطانوی لڑکی کے ساتھ مل کر منصوبہ بندی بھی کر لی تھی جس کے تحت اس لڑکی اور طوبیٰ کی رشتہ دار کو پہلے برطانیہ سے سوئٹزرلینڈ جانا تھا پھر وہاں سے ترکی اور ترکی سے پیدل شام پہنچنا تھا۔ مگر طوبیٰ کا یہ منصوبہ اس لیے ناکام ہو گیا کیونکہ جسے وہ برطانوی لڑکی سمجھ کر شام آنے پر اکسا رہی تھی دراصل رپورٹر تھا۔
اس رپورٹر نے اپنے اخبار کو صورتحال سے آگاہ کیا جس پر اخبار نے پولیس کو اطلاع دے دی۔ پولیس نے طوبیٰ کی اس رشتہ دار لڑکی کے گھر پر چھاپہ مارا اور اسے گرفتار کر لیاجو اب زیرتفتیش ہے۔ طوبیٰ کی ایک سابق کلاس فیلو کا کہنا تھا کہ ” طوبیٰ سکول میں تمام مضامین میں بہت اچھی تھی مگر وہ شروع سے ہی باغی طبیعت کی مالک تھی۔ وہ گھر سے سکارف پہن کر سکول آتی اور سکول پہنچتے ہی سکارف اتار دیتی تھی۔ اسے چوری چھپے گھر سے بھاگ جانا بہت پسند تھا۔ وہ سکول میں سگریٹ نوشی بھی کرتی تھی اور اس کے لڑکوں کے ساتھ خفیہ مراسم بھی تھے۔ وہ لڑکوں کے میوزک بینڈز اور ان کے گانے بہت پسند کرتی تھی۔ سکول سے نکلنے کے بعد ہمارا رابطہ صرف سوشل میڈیا کے ذریعے ہی رہا۔ کچھ عرصے بعد میں نے اس کے روئیے میں کافی تبدیلی محسوس کی تھی تاہم مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کس طرح شدت پسندی کی طرف اس قدر مائل ہوگئی کہ اس نے شام جانے کا فیصلہ کر لیا۔“