پیسے کمانے کا وہ طریقہ جو ہر آدمی اپنانا چاہتاہے لیکن ۔ ۔ ۔

پیسے کمانے کا وہ طریقہ جو ہر آدمی اپنانا چاہتاہے لیکن ۔ ۔ ۔
پیسے کمانے کا وہ طریقہ جو ہر آدمی اپنانا چاہتاہے لیکن ۔ ۔ ۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور(محمد زبیراعوان)ترقی پذیر ممالک میں ہر شخص آسان طریقوں سے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا چاہتاہے اور اس کیلئے مختلف طریقے اپنا تے ہیں لیکن اِسی ضرورت یا لالچ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بعض دھوکہ باز افراد یا ادارے بھی سرگرم ہوجاتے ہیں اور شہریوں کو اپنے پاس جمع پونجی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتے ہیں لیکن سب سے مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ لٹنے والے شہریوں کی شکایت کے باوجود اس ’دھندے‘ میں ملوث لوگوں کیخلاف وفاقی تحقیقاتی ادارے یا حکام بھی کارروائی سے قاصر ہیں۔
 دھوکہ باز گروپ انٹرنیٹ پر مختلف ویب سائٹس بناتے ہیں اورصارفین کولبھانے کیلئے محض چند منٹ روزانہ وقت دے کر 500روپے یا اس سے زائد کمانے کی یقین دہانیاں کرائی جاتی ہیں۔پیسے کسے اچھے نہیں لگتے ۔ ۔ ۔پرکشش آفر سامنے آتے ہی فائدہ اُٹھانے کے بارے میں سوچ شروع اور پھرسوشل میڈیا پرملنے والے اشتہارمیں دیئے گئے نمبر پر ایک ٹیلی فونک رابطے میں مزید عزم پختہ ہوجاتے ہیں یاپھر کسی واقف کے اسی کام میں مصروف ہونے کو بھی اپنی کامیابی کے لیے پہلی سیڑھی سمجھ لیاجاتاہے ۔

اپنی ذات کے بارے میں وہ پانچ باتیں جو سوشل میڈیا پر نہیں ڈالنی چاہیں ، تفصیلات کیلئے یہاں کلک کریں ۔
ان ویب سائیٹس کا طریقہ واردات کچھ اس طرح ہوتاہے کہ سب سے پہلے مختلف پیکجز کی رجسٹریشن کے نام پر تین سے لے کر پانچ، دس ، پندرہ،  25یا30ہزارروپے وصول کیے جاتے ہیں اور اس کے بدلے میں آپ کو مذکورہ ویب سائیٹس پر لاگ ان ہونے کیلئے استعمال کنندہ کاشناختی نام اور پاس ورڈ وغیرہ دیئے جاتے ہیں ۔ان پیکجز کے حساب سے ہی فی کلک آپ کو پیسے دینے کاوعدہ کیاجاتاہے یعنی جتنی زیادہ رقم کے پیکج کی رجسٹریش کرائیں گے ، فی کلک اُتنے ہی پیسے آپ کو ملیں گے ۔ عمومی طور دوسے 10روپے فی کلک دینے کا وعدہ کیاجاتاہے اور کچھ خوش نصیب اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں لیکن یہ کامیابی بھی عارضی ہوتی ہے، جیسے جیسے کام کو وسعت ملتی چلی جاتی ہے اور پیسہ اکٹھاہوتا چلاجاتا ہے ، بالآخر ایک خاص ہدف پر پہنچنے کے بعد کمپنی لاپتہ اور لاتعلق ہوکر رہ جاتی ہے اور یہ سب کچھ بالمشافہ نہیں بلکہ آن لائن ہوتا ہے ۔ اکاﺅنٹ ہولڈرکو 24گھنٹوں میں ویب سائٹ پر 100کے لگ بھگ مخصوص لنکس دیئے جاتے ہیں جن پر کلک کرنے سے متعلقہ ویب سائیٹ پر چلے جاتے ہیں اور چندسکینڈ کے بعد (متعلقہ ہر ویب سائیٹ کے اوپر ٹائم بارچلتی ہے )ویب سائیٹ بند کرکے دوسرا لنک کھول لیاجاتاہے اور پیکج کے حساب سے آپ کے کھاتے میں پیسے جمع ہوجانے کا نہایت مناسب طریقے سے پیغام پہنچادیاجاتاہے ۔

ایسی تمام ویب سائٹس کچھ عرصہ سرورپررہنے کے بعد بند ہوجاتی ہیں اور آپ لاگ ان بھی نہیں کرسکتےیا پھر شروع میں چند لوگوں کو ملنے والی رقم بھی مجموعی صارفین کو ملنا روک دی جاتی ہے جن میں Visit2earn.com, Visit4earnاور Makemoney.com, adsjob4u.com , myadsjob.comجیسی ویب سائٹس شامل ہیں ۔ کچھ لوگ پیسے کمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن یہ بھی ایک طرح کا دھوکہ دینے کا ہتھکنڈہ ہے ۔ ایزی پیسہ جیسی سہولیات کے ذریعے آمدنی موصول ہوتے ہی لالچ اوراخراجات مزید بڑھ جاتے ہیں اور ویب سائیٹ پر اشتہارات یا نیوز ویب سائٹ دیکھنے کی آمدن آنے کے یقین کیساتھ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کوبھی آگاہی دینے کے ساتھ ساتھ مزید اکاﺅنٹس کیلئے سرمایہ لگادیتے ہیں کیونکہ ایک اکاﺅنٹ پرمقررکردہ لنکس کی وجہ سے ایک حد سے زیادہ آپ پیسے نہیں کماسکتے ، بس اس سارے کھیل کیلئے فیس بک جیسے پلیٹ فارم کی موجودگی میں چند ہی مہینے چاہیے ہوتے ہیں اور اپناکروڑوں روپے کا ہدف پورا ہوتے ہی رفوچکر ہوجاتے ہیں یایوں سمجھئے کہ ایسی ویب سائٹس تب تک چلتی ہیں جب اُن کی آمدن زیادہ اور دینے والے پیسے بہت کم ہوں گے ۔
کچھ ایسی ویب سائیٹس بھی ہیں جو پاکستان میںموجود شہریوں کو بھی امریکی بینک اکاﺅنٹس میں رقم دینے کی یقین دہانی کراتے ہیں لیکن محض چند ہزاروں یا ایک آدھ لاکھ کیلئے شہری امریکہ جانے سے رہے اوریوں خود ہی ان پیسوں کو بھولنے میں ہی عافیت گردانتے ہیں ۔

 دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہونیوالے جرائم سے متعلق وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے ) کا سائبر کرائم یونٹ بھی موجود ہے لیکن تاحال ایسی کسی ویب سائٹ اوراُس کی انتظامیہ و مالکان کے خلاف کارروائی کی کوئی قابل ذکر کارروائی کی اطلاع نہیں جس سے شبہ ہوتاہے کہ ایف آئی اے سمیت دیگر متعلقہ اداروں کے ذمہ داران یا اعلیٰ شخصیات بھی اس دھندے میں ملوث لوگوں کیخلاف کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں صرف یہی نہیں بلکہ بینک اور موبائل اکائونٹس چل رہے ہیں جن میں پیسے منگوائے جاتے ہیں۔ یہ بھی دیکھاگیاہے کہ لٹنے والے شہری شکایت کرنے کی بجائے معاشرے میں شرمندگی سے بچنے کے لیے خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے ہیں حالانکہ متعلقہ ویب سائٹس بینک اکاﺅنٹس وغیرہ بھی فراہم کرتی ہیں جس میں رقم جمع کرائی جاتی ہے ، اگر شکایت کی جاتی ہے تو شاید متعلقہ ادارے ”مالیاتی غبن“کو جرم سمجھتے ہی نہیں کیونکہ ۔ ۔ ۔
اپنے گھر کا انتظام وانصرام یا روزمرہ اخراجات پورے کرنے کے لیے ایسے کسی بھی ادارے یا فرد کا شکار بننے سے بچیں اور محنت پیسے کی کمائی پر یقین رکھیں ۔

۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔