ہنی مون مناتا نوبیاہتا جوڑا یکدم دیوالیہ ہوگیا، ایسی کہانی جسے پڑھ کر آپ بھی قسمت سے ڈرنے لگیں
نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان سوچتا کچھ ہے اور ہو کچھ اور جاتا ہے۔ یونان کے اس نوبیاہتا جوڑے کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ویلیزیا لیمنیوٹی اور کونسٹینوس پیٹرونس نے شادی سے ایک سال قبل ہی اپنے ہنی مون کے لیے پیسے جمع کرنا شروع کر دیئے تھے۔ انہوں نے سوچ رکھا تھا کہ وہ طویل ہنی مون پر امریکہ جائیں گے اور ازدواجی زندگی کے ابتدائی لمحات بھرپور طریقے سے منائیں گے۔ انہوں نے پیسے دو بینکوں میں جمع کروائے، بینکوں نے انہیں ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈ دیئے تاکہ امریکہ میں ان کے ذریعے وہ خریداری، ہوٹلنگ و دیگر ضروریات پوری کر سکیں۔لیکن ہوا کیا کہ 6جون کو اپنی شادی کے بعد انہیں ہنی مون پر امریکہ آئے دو ہی دن ہوئے تھے کہ یونانی بینکوں نے ان کے دونوں کارڈ بلاک کر دیئے ۔اب جوڑے کے پاس کھانے کے لیے پیسے تھے اور نہ ہوٹل کا کرایہ دینے کے لیے۔ وہ بھوکے پیاسے 2دن تک سڑکوں پر مارے مارے پھرتے رہے۔
مزید پڑھیں :لڑکے کی خواہش میں ان میاں بیوی نے کتنے درجن بیٹیاں پیدا کر ڈالیں ؟جان کر آپ کا منہ بھی کھلا کا کھلا رہ جائے گا
دوسرے دن شام کے وقت انہیں یونانی چرچ کے کچھ لوگ ملے اور انہیں رہنے اور کھانے کے لیے 500ڈالر دیئے تاکہ یونان کے لیے پہلی دستیاب فلائٹ تک وہ گزارہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ ایک یونانی صحافی نے بھی اس جوڑے کو کچھ رقم دی۔ جوڑے نے ان سب کو رقم واپس کرنے کا وعدہ کیا لیکن انہوں نے کہا کہ ہم رقم واپس نہیں لیں گے، اسے ہماری طرف سے اپنی شادی کا تحفہ سمجھو۔
مزید پڑھیں: سونے کا طریقہ میاں بیوی کے تعلقات کا آئینہ دار،جدید تحقیق میں دلچسپ انکشاف
اصل ماجرا یہ ہے کہ یونان میں شدید مالی بحران آیا ہوا ہے جس کی وجہ سے بینک بند ہو رہے ہیں۔ یونان میں آج اخراجات میں کی گئی کٹوتی واپس لینے، عوام پر مزید ٹیکس عائد کرنے اور یورپی قرض دہندگان ممالک کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے ریفرنڈم بھی کروایا جا رہا ہے۔اسی مالی بحران کی وجہ سے وہ دو بینک بھی بند ہو گئے تھے جن میں اس نوبیاہتا جوڑے کی رقم پڑی تھی، جس کی وجہ سے انہیں امریکہ میں خوارہونا پڑا اور اپنی منصوبہ بندی کے برعکس طویل ہنی مون کو لپیٹ کر یونان واپس لوٹنا پڑا۔ واضح رہے کہ ان بینکوں کے بند ہونے سے امریکہ و یورپ میں موجود کئی یونانی باشندوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان میں کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو علاج کی غرض سے یہاں آئے ہوئے ہیں اور اب ان کے پاس ہسپتال کا بل دینے کے لیے بھی رقم نہیں۔