”اگر تم نے بیٹی کو جنم دیا تو میں۔۔۔“ ملائیشیا میں مقیم پاکستانی شہری کی پاکستان میں اپنی حاملہ بیگم کو ایسی دھمکی کہ زمانہ جہالت کی یاد تازہ کر دی

”اگر تم نے بیٹی کو جنم دیا تو میں۔۔۔“ ملائیشیا میں مقیم پاکستانی شہری کی ...
”اگر تم نے بیٹی کو جنم دیا تو میں۔۔۔“ ملائیشیا میں مقیم پاکستانی شہری کی پاکستان میں اپنی حاملہ بیگم کو ایسی دھمکی کہ زمانہ جہالت کی یاد تازہ کر دی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) خواتین کو ڈرانا دھمکانا اور ان پر ظلم و ستم ڈھانا کوئی نئی بات نہیں ہے اور روزانہ ہی ایسے کئی واقعات سامنے آتے ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں تو بیٹیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کرنے کی روایت موجود تھی جسے اسلام اور انبیاءکرام نے ختم کیا لیکن اس جدید دور میں بھی کچھ ایسے بدبخت لوگ موجود ہیں جو بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔

ایسے لوگ اللہ کی رحمت کے گھر آنے پر خوش ہونے کے بجائے ناصرف اپنے رب سے شکوہ کرتے ہیں بلکہ بیٹی کی ماں بننے پر بیوی کو بھی شدید تنقید اور بعض اوقات تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔

شادی کے سیزن میں اس چیز سے بال دھونے سے ان میں ایسی چمک آئے گی کہ سب آپ کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے
ایسی ہی ایک اور مثال سامنے آئی ہے جس میں ملائیشیاءمیں مقیم ایک شخص اپنی اہلیہ کو دھمکیاں دیتا رہا کہ اگر اس نے بیٹی کو جنم دیا تو وہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ”ٹوئٹر“ کا ایک صارف اس معاملے کو سامنے لایا اور بتایا کہ ” سی سیکشن کے بعد مریضہ مسلسل روتی رہی۔ معلوم ہوا کہ اس کے شوہر نے دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے بیٹی کو جنم دیا تو وہ ملائیشیاءسے کبھی واپس نہیں آئے گا۔“

دیکھیں کہ کیسے ایک شوہر، جو زندگی بھر اپنی بیوی کو خوش رکھنے اور ہر طرح سے اس کا خیال رکھنے کے وعدے کرتا ہے، ایک ایسے موقع پر اسے ڈرا دھمکا رہا ہے جب اسے تسلی اور حوصلے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ حالانکہ اس تمام تر معاملے پر خاتون کا بلکہ کسی کا بھی کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ سب کچھ اللہ سبحان و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔
معاملہ اتنا ہی نہیں ہے بلکہ صارف کا مزید کہنا ہے کہ ”منحوس شخص نے ملائیشیاءمیں دوسری شادی بھی کر رکھی ہے اور 2 بیٹیوں کا باپ ہے۔ اس نے اپنی بیوی کو حمل کے دنوں میں انتہائی پریشان سے دوچار کئے رکھا، باوجود اس کے کہ پہلے بھی اس کے 2 بچے ضائع ہو چکے تھے۔“

خواتین کے خلاف ایسے معاملات کی روک تھام کیلئے قانونی طور پر کچھ کر گزرنے کا وقت آ چکا ہے اور بہت ضروری ہے کہ اس طرح کی سوچ کے سدباب کیلئے کچھ ایسے قوانین متعارف کرائے جائیں تاکہ خواتین ایک ایسے معاملے پر ظلم کا شکار ہونے سے بچ سکیں جس پر ان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔

معاشرے کے لوگوں کو یہ تعلیم دینے کی بھی ضرورت ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت قرار دیا ہے وہ بھلا بوجھ کیسے ہو سکتی ہے۔ بیٹیاں تو گھر کی ”جان“ ہیں، اور جہاں یہ نہ ہوں وہ گھر ’ویران‘ ہیں۔ جو اللہ کی رحمت کو خود ٹھکرا دے، وہ بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -