وہ 10 لاکھ جاپانی جو اپنے کمروں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں کیونکہ۔۔۔
ٹوکیو(مانیٹرنگ ڈیسک) جاپان میں خودساختہ سماجی تنہائی کا شکار افراد کی تعداد حیرت انگیز حد تک بڑھ گئی ہے جو اس وقت جاپانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج بنی ہوئی ہے۔ تقریباً 10لاکھ جاپانی نوجوان اس وقت Hikikomoriنامی بیماری (ایسی بیماری جس میں انسان اپنے خاندان ، دوستوں اور ماحول سے قطع تعلقی اختیار کر لیتا ہے اور خود کو کمرے میں بند کر لیتا ہے)کا شکار ہو چکے ہیں، جنہوں نے خود کو کمروں میں بند کر رکھا ہے، دن کو سوتے اور رات بھر جاگتے رہتے ہیں،اس دوران وہ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں یا پھر ٹیلی ویژن دیکھتے ہیں۔ حیران کن طور پرایسے نوجوان کی بڑی تعداد ٹی وی یا انٹرنیٹ پر آن لائن مزاحیہ پروگرام دیکھتی ہے۔ خود کو سالوں تک کمروں میں بند رکھنے سے ان کی صحت انتہائی خراب ہو چکی ہے۔
مزید پڑھیں:دنیا کا وہ ملک جہاں مرد سب سے زیادہ تنہائی کا شکار ہیں
اے بی سی نیوز کی رپورٹ کے مطابق ٹوکیو کا رہائشی 18سالہ نوجوان یوٹواونیشی بھی اسی بیماری کا شکار ہے ۔اس نے 3سال قبل اپنے خاندان اور دوستوں سے ملنا جلنا ختم کر دیا۔ وہ کبھی کبھار ہی اپنے بیڈروم سے باہر نکلتا ہے، دن بھر سوتا رہتا ہے اور رات بھر انٹرنیٹ اور ٹی وی کے سامنے بیٹھا مزاحیہ پروگرام دیکھا اور تحریریں پڑھتا رہتا ہے۔ اونیشی صرف کھانے کے لیے کمرے سے باہر نکلتا ہے اور رات کے وقت کسی سے بھی رابطہ کرنے سے ہرممکن طور پر کتراتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس بیماری کا شکار 10لاکھ جاپانیوں میں اکثریت مردوں کی ہے جن کی عمریں 15سے20سال کے درمیان ہیں۔ بیماری کے شکارافراد کا یہ رویہ جہاں ان کے خاندانوں کے لیے تکلیف کا باعث ہے وہیں جاپان کی معیشت پر بھی اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: پنشن کے عوض تنہائی کے شکاربوڑھے شخص نے گود لینے کی پیشکش کردی
کوشو یونیورسٹی کے ڈاکٹر تکاہیرو کاتو کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک میں اگر کوئی نوجوان خود کو کمرے میں بند کرتا ہے تو اس کے اہلخانہ اسے باہر نکلنے کی ترغیب دیتے ہیں اور اس میں اس کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں لیکن جاپانی ایسا نہیں کرتے۔اس بیماری کے پھیلاؤ میں سوشل میڈیا کی یلغار کا بھی حصہ ہے لیکن اس کی کئی اور وجوہات بھی ہیں۔ شدید قسم کا احساس ندامت اور جذباتی طور پر اپنی ماں پر مکمل انحصار کرنا بھی اس کی وجوہات میں شامل ہیں۔ جب نوجوان خود کو عام سماجی معیار پر نہیں لا سکتے تو وہ احساس ندامت کا شکار ہو جاتے ہیں جو اس بیماری کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے، اس طرح وہ خود کو سماج سے الگ کر لیتے ہیں۔