1942ءسے سمندر کی تہہ میں پڑی کئی سو ٹن وزنی چیزیں جو آج اچانک غائب ہوگئیں، ایسا انکشاف منظر عام پر کہ سائنسدانوں میں خوف پھیل گیا

1942ءسے سمندر کی تہہ میں پڑی کئی سو ٹن وزنی چیزیں جو آج اچانک غائب ہوگئیں، ایسا ...
1942ءسے سمندر کی تہہ میں پڑی کئی سو ٹن وزنی چیزیں جو آج اچانک غائب ہوگئیں، ایسا انکشاف منظر عام پر کہ سائنسدانوں میں خوف پھیل گیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایمسٹرڈیم (نیوز ڈیسک) دوسری جنگ عظیم کے دوران بحیرہ جاوا میں لڑی گئی بحری جنگ میں نیدرلینڈز، برطانیہ، امریکا اور کئی یورپی ممالک کے سینکڑوں بحری جہاز اور آبدوزیں تباہ ہوئے، جن کے غرق شدہ ڈھانچے گزشتہ 70 سال سے سمندر کی تہہ میں پڑے تھے۔ 1942ءمیں غرق ہونے والے ان بحری جہازوں کی سمندر کی تہہ میں موجودگی سے ہر کوئی آگاہ تھا لیکن ولندیزی وزارت دفاع نے اب یہ کہہ کر ساری دنیا کو حیران کردیا ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے سمندر میں پڑے یہ بحری جہاز پراسرار طور پر غائب ہوگئے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2002ءمیں غوطہ خوروں نے بحیرہ جاوا میں غرق ہونے والے متعدد بحری جہازوں کا سراغ لگایا تھا۔ ولندیزی وزارت دفاع نے ان میں سے متعدد بحری جہازوں کے لاپتہ ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ اخبار دی گارڈین کی رپورٹ کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ اسی جگہ غرق ہونے والے اس کے تین بحری جہاز بھی غائب ہو چکے ہیں۔ جس جگہ برطانوی بحریہ کے جہاز HMSایکسیٹر، HMSانکاﺅنٹر اور ڈسٹرائر HMSالیکٹرا پڑے تھے اب وہاں بہت بڑے گڑھے نظر آتے ہیں، جبکہ ان کے قریب ہی غرق ہونے والی امریکی آبدوز کی جگہ بھی صرف خالی گڑھا ہی نظر آتا ہے۔

چین کی وہ جگہ جو سورج سے بھی 3گنا زیادہ گرم ہے، ایسی خبر آگئی جسے جان کر آپ کی عقل بھی دنگ رہ جائے گی
ولندیزی وزارت دفاع نے اس حیرت انگیز معاملے کی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ درجنوں مربع کلومیٹر علاقے میں پھیلے ہوئے دیو قامت بحری جہازوں کا یوں غائب ہو جانا سمجھ سے باہر ہے۔ وزارت نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ اس جگہ کو دوسری جنگ عظیم میں غرق ہونے والے بحری جہازوں کے قبرستان کی حیثیت حاصل تھی اور یہاں سے بحری جہازوں کا غائب ہونا اس قبر کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔
برطانیہ کی جانب سے جاری کئے گئے ایک بیان میں بھی کہا گیا کہ اس جگہ بہت سے سپاہیوں نے اپنی جان دی، جن کے احترام میں یہاں موجود کسی بھی چیز کو چھوا نہیں جانا چاہیے تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ولندیزی بیڑے کی سربراہی کرنے والے ریئر ایڈمرل کیرل ڈورمن کا بحری جہاز بھی اسی جگہ غرق ہوا تھا۔ ان کے 82 سالہ بیٹے تھیوڈورمن کا کہنا ہے کہ وہ دو ہفتے قبل اپنے والد کے غرق شدہ جہاز کی تصاویر لینے کے لئے گئے تھے لیکن انہیں یہ جان کر شدید دھچکا لگا کہ ان کے والد کا غرق ہونے والا جہاز اب اس جگہ نہیں تھا۔ تھیو ڈورمن کا کہنا تھا ”صدیوں سے یہ روایت رہی ہے کہ ملاحوں کی قبروں کو نہ چھیڑا جائے، لیکن یہاں یہ بھی ہوچکا ہے ۔“

مزید :

ڈیلی بائیٹس -