’میں نے برقعہ پہن کر قید سے بھاگنے کی کوشش کی تو مجھے گارڈ نے پکڑ لیا، پھر مجھے کوڑے مارے گئے اور 6 لوگ میرا اس وقت تک ریپ کرتے رہے جب۔۔۔‘
بغداد(مانیٹرنگ ڈیسک) شام اور عراق میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنے والی شدت پسند تنظیم داعش کا سورج اب غروب ہو رہا ہے، لیکن اس کے مظالم کی داستانیں شاید آنے والی صدیوں تک انسانیت کو رلاتی رہیں گی۔ اس تنطیم کے چنگل سے فرار ہونے والی خواتین میں سے ہر ایک کی داستان ایک اندوہناک المیہ ہے۔
یزیدی خاتون نادیہ مراد بھی ان بدقسمت خواتین میں سے ایک ہے جو عراق کے شمالی علاقے سنجار سے داعش نے تین سال قبل اغواءکی تھیں۔ اس وادی سے داعش نے ہزاروں کی تعداد میں کمسن لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو اغواءکیا تھا اور ان میں سے بڑی تعداد کا آج تک کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے ساتھ کیا ماجرا پیش آیا، اس کا اندازہ نادیہ مراد کی دل دہلا دینے والی کہانی سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
’میں نے اس کا ریپ اس لئے کیا کیونکہ میرے موبائل میں۔۔۔‘ نوجوان لڑکی کو ریپ کرنے کے بعد کویتی نوجوان نے جج کو ایسی وجہ بتادی کہ کمرئہ عدالت میں ہر کسی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا
میل آن لائن کے مطابق جرمنی کے ایک پناہ گیزیں کیمپ میں موجود اس نوجوان خاتون نے اپنی المناک داستان بتاتے ہوئے کہا ” یہ تین سال قبل کی بات ہے جب میری عمر 21 سال تھی۔ داعش نے ایک روز ہمارے گاﺅں پر حملہ کیا اور ہمارے نوجوانوں سے لے کر بڑی عمر کے بوڑھوں تک ہر مرد کو قتل کر ڈالا۔ ان میں سے چند ایک ہی پہاڑوں کی جانب فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے کمسن لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو ٹرکوں میں بھرنا شروع کیا اور ہم سب کو اغواءکر کے لے گئے۔
موصل شہر میں ہم سب کو چند دن بعد ایک منڈی میں لے جایا گیا اور جانوروں کی طرح ہماری بولی لگائی گئی۔ داعش کے شدت پسند لڑکیوں کو دیکھتے اور جو پسند آتی معمولی قیمت ادا کر کے اسے لے جاتے۔ مجھے جس شخص کے لئے خریدا گیا وہ داعش کا ایک سینئر قاضی حاجی سلمان تھا۔ اس نے مجھ سے کہا ’تم میری چوتھی باندی ہو۔ اسے سے پہلے میرے پاس تین یزیدی باندیاں ہیں۔ میں جو کچھ کر رہا ہوں تمہارے حق میں بہتر ہے۔‘
میں اب اس کی جنسی غلام تھی۔ وہ مجھے بلا ناغہ اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتاتھا۔ میں اس کے جنسی و جسمانی تشدد سے فرار حاصل کرنے کے متعلق ہر وقت سوچتی رہتی تھی اور پھر ایک دن مجھے موقع میسر آ گیا۔ میں نے برقعہ پہنا اور باغیچے کی دیوار پھلانگ کر فرار ہوئی مگر بدقسمتی سے ایک گارڈ کی مجھ پر نظر پڑ گئی اور اس نے مجھے پکڑ لیا۔ وہ مجھے حاجی سلمان کے پاس لے گیا، جو میری فرار کی کوشش کے بارے میں جان کر سخت تیش میں آ گیا۔ اس نے میرے جسم پر کوڑے برسائے اور پھر گاڑد کو حکم دیا کے وہ اپنے ساتھیوں کو بھی بلا کر لائے۔ وہ کل چھ آدمی تھے، جنہیں اس نے حکم دیا کہ وہ مجھے لے جائیں اور ’سبق سکھائیں۔‘
وہ چھ گارڈ مجھے ایک کمرے میں لے گئے اور مجھے برہنہ کر کے میری عصمت دری شروع کر دی۔ وہ گھنٹوں تک میری آبرو ریزی کرتے رہے، یہاں تک کہ میں بے ہوش ہو گئی۔ میری بے ہوشی ک بعد وہ مجھے کمرے میں بند کر کے وہاں سے چلے گئے۔ اگلے کئی دن تک مجھے اسی کمرے میں بند رکھا گیا اور ہر روز متعدد آدمی میری عصمت دری کرتے تھے۔ اب میرے لئے یہ زندگی کا معمول بن گیا تھا۔ جب بھی دروازہ کھلتا تھا مجھے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا ایک ہی مقصد ہے۔
بعد ازاں مجھے وہاں سے ایک اور جگہ منتقل کر دیا گیا لیکن میری روزانہ آبرو ریزی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کے بعد میں چھ مختلف شدت پسندوں کے ہاتھوں بکی، اور ہر ایک کے پاس میری آبروریزی ہوتی رہی۔ جب مجھے ساتویں شدت پسند کے ہاتھ بیچا گیا تو ایک بارپھر فرار کا موقع ملا اور میں قید سے بھاگ کھڑی ہوئی۔
فرار ہونے کے بعد میں ایک گلی میں پہنچی تو مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہاں کون سا گھر داعش کے کسی شدت پسند کا تھا، اور کون سا کسی اور کا۔ پھر بھی خطرہ مول لے کر میںنے ایک دروازے پر دستک دی اور مدد کی درخواست کی۔ میری خوش قسمتی تھی کہ گھر کے مکینوں نے اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر مجھے اپنے ہاں چھپنے کی اجازت دی۔ انہی کی مدد سے میں بعد ازاں ایک پناہ گزیں کیمپ تک پہنچے میں کامیاب ہوئی۔ فرار ہونے سے قبل میں نے تین سال اس جہنم میں گزارے۔ میں ان چند خواتین میں سے ایک ہوں جو داعش کی قید سے فرار ہوئیں۔ اب بھی میری ہزاروں بہنیں ان درندوں کے قبضے میں ہیں۔“