’میں بھی ایک شدت پسند تنظیم کا حصہ تھا اور سچ یہ ہے کہ دہشت گردوں کے مزید حملوں کو روکنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔؟
لندن (مانیٹرنگ ڈیسک) مغربی دنیا جہاں ایک طرف دہشتگردی کے نشانے پر ہے وہیں دہشتگردی کی اصل وجوہات کو سمجھنے کی بجائے اسے اسلام کے ساتھ نتھی کرنے پر بھی بضد ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مغربی میڈیا میں اس قدر دھول اڑائی گئی ہے کہ سب کچھ دھندلا کر رہ گیا ہے اور ہر کوئی اس پراپیگنڈے سے متاثر نظر آتا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مسلمانوں کے خلاف قدم اٹھانا ہو گا۔ برطانیہ کی ایک شدت پسند تنظیم کے سابق رکن اور دہشتگردی کی دنیا کو قریب سے دیکھنے والے شخص آدم دین نے اسی غلط فہمی کا ماتم کرتے ہوئے مشہور اخبار دی انڈی پینڈنٹ میں ایک مضمو ن لکھا ہے جس میں بتایا ہے کہ ایک سابق دہشتگرد کی حیثیت سے وہ جانتے ہیں کہ اصل مسئلہ کیا ہے کہ اور اس کا حل کیا ہے۔
آدم دین اپنے مضمون میں لکھتے ہیں کہ وہ برطانوی شدت پسند تنظیم المہاجرون کے رکن تھے ان کیلئے لندن کی انڈرگراؤنڈ ریلوے کی تباہی اور اہم عمارتوں اور شخصیات کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرنا روز کے معاملات تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ اپنے ماضی سے تائب ہونے کے بعد وہ دنیا کو یہ بتا سکتے ہیں کہ جب وہ زندگی سے غیرمطمئن تھے اور ان کے سامنے کوئی مقصد نہیں تھا تو شدت پسند تنظیم کے ارکان نے انہیں گمراہ کیا اور ان کی ذہن سازی کی۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ایک مقصد مل گیا تھا، اگرچہ یہ انسانوں کی ہلاکت اور تباہی کا مقصد ہی تھا، لیکن ان کی خالی اور بے کیف زندگی میں اچانک ایک بہت بڑی تبدیلی آگئی اور وہ ایک خاص مقصد کے حصول کیلئے سرگرم ہو گئے۔
آدم دین کہتے ہیں کہ اگر مغربی دنیا مستقبل میں مزید دہشتگردی کے حملوں کو روکنا چاہتی ہے تو اس کیلئے دہشتگردوں کے بجائے ان عوامل پر توجہ دینا ہو گی جو انہیں دہشتگرد بناتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسلام مسئلہ نہیں ہے، شدت پسندی مسئلہ ہے۔ اسلام کا نام استعمال کرتے ہوئے بے مقصدیت کے شکار نوجوانوں کو شکار بنایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم ان نوجوانوں کو اسلام کے اصل پیغام سے متعارف کروائیں اور ان کی زندگی میں اطمینان اور مقصدیت پیدا کریں تو دہشتگردوں کو وہ خام مال ملنا بند ہو جائے گا جسے وہ اپنی ہلاکت خیز پراڈکٹ بنانے کیلئے استعمال کرتے ہیں۔
آدم دین نے فرانس کے شہر نیس میں درجنوں افراد کو ٹرک کے نیچے کچل کر ہلاک کرنے والے دہشتگرد محمد الحوائج کی مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا اسلام کے اصل پیغام سے دور دور کا بھی تعلق نہیں تھا۔ وہ محض ایک بیکار اور بے مقصد شخص تھا۔ اس کی غیر مستحکم زندگی میں شدت پسندوں کے پیغام نے ایک مقصد پیدا کر دیا، جو کہ معصوم انسانوں کی ہلاکت کا مقصد تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ اگر ہم اسلام اور مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر انسانی حقوق اور مساوات کا قتل کرتے رہے تو دہشتگردوں کو مسلسل ایندھن ملتا رہے گا اور وہ ہماری بے بسی پر مسکراتے رہیں گے۔