’مجھے یکم ستمبر 2016ءکو ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے بعد سے آج تک۔۔۔‘ زیادتی کا نشانہ بننے والے نوجوان لڑکے نے ایسا انکشاف کردیا کہ جان کر تمام مَردوں کی آنکھوں میں آنسو آجائیں گے
لندن (نیوز ڈیسک) برطانوی نوجوان سیم تھامسن کو گزشتہ سال یکم ستمبر کی رات دو اجنبیوں نے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اب پہلی بار انہوں نے اس ظلم کے بارے میں کھل کر بات کی ہے جس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنسی جرائم کا نشانہ بننے والے مردوں کے دل پر کیا گزرتی ہے اور انہیں کس طرح کے نفسیاتی مسائل کا سامنا کرناپڑتا ہے۔
دی انڈپینڈنٹ کی رپورٹ کے مطابق 22سالہ سیم تھامسن کے ساتھ یہ افسوسناک واقعہ مانچسٹر شہر میں پیش آیا جہاں واقعے سے کچھ دن پہلے ہی وہ اپنی گرل فرینڈ کے ساتھ ایک نئی نوکری شروع کرنے کیلئے منتقل ہوئے تھے۔ وہ اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ ہلہ گلا کرنے کے لئے ایک کلب میں گئے تھے لیکن وہاں کچھ اور نوجوانوں سے ملاقات ہو گئی۔ سیم اپنے دوستوں سے علیحدہ ہوکر ان اجنبی مردوں کے ساتھ مل کر انجوائے کرنے لگے لیکن ان کے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ یہ لطف زندگی بھر کے غم میں بدل جائے گا۔
’میں نے 22سال کی عمر میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا، دفتر جانا شروع کیا تو روزانہ رات 11 بجے سے 3 بجے کے درمیان 20سے 30 میسج آتے تھے جن میں لکھا ہوتا کہ۔۔۔‘ نوجوان لڑکی نے ہمارے معاشرے کا ایسا شرمناک ترین چہرہ بے نقاب کردیا کہ جان کر ہر پاکستانی کا سرشرم سے جھک جائے
اس رات پیش آنے والے دردناک واقعات کو یاد کرتے ہوئے سیم نے بتایا ”میں اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اجنبی لوگوں کے ساتھ موج مستی کرتا رہا تھا اور اس بار بھی مجھے کچھ عجیب محسوس نہیں ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنے ساتھ چلنے کو کہا اور میں بے فکری سے ان کے ساتھ ہوٹل کے کمرے میں چلا گیا۔ ہم لوگوں نے مل کر شراب نوشی کی جس کے بعد ان میں سے کچھ چلے گئے لیکن دو لوگ کمرے میں ہی موجود رہے۔ جب میں نشے میں دھت ہو گیا تو ان دونوں نے مجھے دبوچ لیا اور اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے مجھے اسی ارادے سے شراب پلائی تھی کہ وہ میرے ساتھ زیادتی کرنا چاہتے تھے۔
میں نشے میں تھا اس لئے مجھے سب کچھ یاد نہیں لیکن مجھے یہ ضرور پتہ چل رہا تھا کہ میرے ساتھ کیا کیا جارہا تھا۔ اگلی صبح جب میں بیدار ہوا تو گزری رات کے واقعات ایک فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے چل رہے تھے۔ میں پیدل چلتا ہوا اپنے گھر کی جانب جارہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مجھے زندہ نہیں رہنا چاہیے۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں۔ اگر اس دن مجھے اپنے گھر والوں کا خیال نہ آتا تو شایدمیں دریا میں کود کر خودکشی کرلیتا۔
تاریخ میں پہلی مرتبہ مسلم خواتین کیلئے حلال طریقے سے اپنے شوہر سے تعلقات قائم کرنے کیلئے کتاب متعارف کروادی گئی، دنیا میں ہنگامہ برپا کر دیا
میں نے اس معاملے کے متعلق پولیس کو آگاہ کیا لیکن بدقسمتی سے مردوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کو پولیس بھی سنجیدگی سے نہیں لیتی۔ پہلے تو انہوں نے میری بات پر یقین نہیں کیا اور مذاق کے انداز میں توہین آمیز سوالات پوچھتے رہے۔ بالآخر جب میں نے میڈیکل رپورٹ اور فورینزک شواہد پیش کئے تو انہوں نے میری بات کو سنجیدگی سے سنا۔
مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہے کہ میرے ساتھ زیادتی کرنے والوں کا کچھ بھی نہیں کیا جاسکا۔ میں اپنی رضامندی سے ان کے ساتھ گیا تھا، اگرچہ جسمانی تعلق کیلئے میری رضامندی نہیں لی گئی تھی۔ میرے پاس کوئی ایسے شواہد نہیں ہیں کہ میں اس بات کو ثابت کرسکوں۔ وہ آج بھی آزاد ہیں اور میں ایک ایک پل درد سہہ کر گزار رہا ہوں۔“