”جب بھی میں اسے اس کام سے منع کرتی تھی تو وہ میرا ریپ کردیتا تھا“
ابوجہ(مانیٹرنگ ڈیسک) نائیجیریا کی شدت پسند تنظیم بوکوحرام نے چند سال قبل ملک کے درجنوں دیہات پرحملے کیے اور سینکڑوں لڑکیوں کو غلام بنا کر ساتھ لے گئے۔ ان میں سے جب بھی کوئی لڑکی ان کے چنگل سے کسی طرح فرار ہو کر واپس آتی ہے تو ظلم کی ایک نئی داستان سناتی ہے۔ گزشتہ دنوں بوکوحرام کی قید سے بھاگ کر واپس آنے میں کامیاب ہونے والی امیناتا نامی 17سالہ لڑکی نے اپنے اوپر بیتے مظالم کی ایسی روح فرسا کہانی سنائی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ میل آن لائن کی رپورٹ کے مطابق امیناتا نے یونیسیف نائیجیریا کی خاتون کارکن کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ میرے والدین کیمرون میں رہتے ہیں۔ میں بچپن سے یہاں نائیجیریا کی ریاست بورنو کے ایک قصبے میں اپنے چچا کے پاس رہ رہی تھی۔ 2سال قبل بوکوحرام کے شدت پسندوں نے ہمارے قصبے پر حملہ کیا اور میرے چچا کو زبردستی اپنی تنظیم میں شامل ہونے پر مجبور کیا۔ انہوں نے میرے چچا کو یہ بھی کہا کہ ان کے گھر میں جتنی بھی لڑکیاں ہیں وہ ان کے حوالے کر دی جائیں۔ ہر لڑکی کے بدلے انہوں نے میرے چچا کو 1ہزار نیرا (نائیجیرین کرنسی)دیئے۔ میں اس وقت اپنی دادی کے پاس بیٹھی تھی جب وہ گھر میں داخل ہوئے اور مجھے گھسیٹتے ہوئے لے گئے اور گاڑی میں بٹھا کر ہمارے قصبے سے تھوڑی دور ایک جگہ پر منتقل کر دیا۔ ہمارے گردونواح سے 15اور لڑکیاں بھی وہ لائے تھے جو میرے ساتھ ہی رکھی گئی تھیں۔
امیناتا نے مزید بتایا کہ دو ماہ تک ہمیں نوکروں کی طرح رکھا گیا۔ ہم شدت پسندوں کے لیے کھانا بناتی اور ان کے دوسرے کام کرتی تھیں۔ دو ماہ بعد انہوں نے ہمیں شدت پسندوں کے ساتھ شادی پر مجبور کیا۔ میں جس شخص سے شادی کی گئی وہ مجھے اپنے گھر لے گیا۔ اس کا گھر ایک جھونپڑے پر مشتمل تھا جس میں صرف ایک کمرہ تھا۔ وہاں لیجا کر اس شخص نے مجھے جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ان دو سالوں کے دوران میں جب بھی اس کے قریب جانے سے انکار کرتی تو وہ مجھ پر تشدد کرتا اور پھر جنسی زیادتی کا نشانہ بناتا۔ ان دو سالوں میں میں نے وہاں لوگوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے کئی منظر دیکھے۔ ایک بار ایک شخص نے شدت پسند تنظیم کو بتائے بغیر شادی کر لی تھی۔ شدت پسندوں نے اسے گردن تک زمین میں گاڑ دیا اور سر میں پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا۔ ہم سب کو مجبور کیا گیا کہ ہم یہ سب کچھ دیکھیں۔ اس کے علاوہ لوگوں کے گلے کاٹنے، فائرنگ سے ہلاک کرنے اور دیگر مظالم کے واقعات بھی میں نے وہاں اپنی آنکھوں سے دیکھے۔
امیناتا نے بتایا کہ جو خاتون شدت پسندوں سے شادی سے انکار کرتی تھی وہ اس کا گلہ کاٹ دیتے تھے۔ جس شخص سے میری شادی ہوئی تھی اس کی پہلے بھی تین بیویاں تھیں۔ ان تینوں کو اس نے خودکش حملہ آور بنایا اور وہ دھماکوں میں ماری گئی۔ مجھے فی الوقت اس نے اپنی بیوی بنائے رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ دو ہفتوں بعد اس نے ایک اور شادی کر لی جس کے بعد میں خوفزدہ ہو گئی کہ اب وہ مجھے بھی خودکش حملہ آور بنا دے گا۔ پھر وہی ہوا۔ ایک ہفتے بعد اس نے مجھے خودکش حملہ آور بننے کے لیے تیار ہونے کو کہا۔ میں نے اس سے اپنی دادی کو ملنے کی خواہش کا اظہار کیا جس پر وہ رضامند ہو گیا اور مجھے تین دن کے لیے دادی کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ ہمارا قصبہ اب بھی بوکوحرام کے قبضے میں ہی تھا جس کی وجہ سے مجھے یہ اجازت مل گئی لیکن میری خوش قسمتی کہ جب میں قصبے میں واپس آئی تو وہاں فوج آ گئی اور قصبہ بوکوحرام کے قبضے سے چھڑا لیا۔ فوج مجھے اپنے ساتھ لے آئی اور یہاں کیمپ میں منتقل کر دیا۔ میرا چچا اور بھائی اب بھی بوکوحرام کے ساتھ ہیں۔ میں نے انہیں بھی اپنی آنکھوں سے لوگوں کو قتل کرتے اور مظالم ڈھاتے دیکھا ہے۔ اب میں اپنے اس شدت پسند شوہر کے بچے کی ماں بننے والی ہوں اور اس کی تیاری کر رہی ہوں، مگر میں اپنے حاملہ ہونے پر بہت دل گرفتہ ہوں کیونکہ یہ اسی شخص کا بچہ ہے جس نے مجھ پر ظلم کیا اور مجھے میرے خاندان سے الگ کر دیا۔